فیس بک پر آل رائٹرز گروپ میں ایک پوسٹ لگی جس میں بتایا گیا یے کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کتابیں لکھنا اور چھپوانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔نیز یہ کہ آج کل ہر کوئی کتابیں چھپوا کر رائٹر بنا پھر رہا ہے۔ اس کے بعد استفسار کیا گیا ہے کہ کیا اس بات سے آپ لوگ اتفاق کرتے ہیں؟جواب میں اکثریت کا یہی فرمانا تھا کہ معیار معنی رکھتا ہے۔کتاب چھپوانا نہیں۔ کتاب ایسی ہونی چاہیے کہ مارکیٹ میں آئے تو لوگ اس کو خریدیں۔نیز یہ کہ پہلا تاثر ہی آخری ہوتا ہے تو پہلی کتاب اگر پٹ گئی تو اگلی کتابیں اگرچہ کہ وہ معیاری ہوں اسی انجام سے دوچار ہوں گی۔
ہمارا ان باتوں اور دلائل سے شدید اختلاف ہے۔ کتاب شائع ہوتی ہے تو اس کے اخراجات یا تو مصنف خود برداشت کرتا ہے اور یا پھر شائع کرنے والا ادارہ مگر دوسری صورت میں مصنف کو یا تو نام کے علاوہ کچھ نہیں ملتا یا بہت ہی معمولی معاوضہ جو کہ اس کی محنت کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہوتا۔ کوئی لکھاری یا مصنف اپنے ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں روپے کیا اس لئے لگائے گا کہ کتاب پٹ جائے اور اس کو کوئی نہ خریدے۔ ناشر حضرات تو ہوتے ہی کاروباری ہیں۔ وہ اگر مفت شائع کر رہے ہیں تو انھیں بھی اس میں کچھ امکانات نظر آتے ہیں تو وہ شائع کرتے ہیں۔ سو یہ کہنا کہ بس کتاب لکھ دی اور کوئی معیار نہیں ہے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگر پیسے ہی کمانے ہیں کتاب سے تو بہتر ہے کہ کورس کی کتاب لکھ دی جائے۔
دوسری بات معیار کی ہوئی۔معیار تو ایک عمر گزار کے آتا ہے۔ کھلاڑی کی ہر میچ میں کارکردگی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اداکاروں کا ہر ڈرامہ سپر ہٹ نہیں ہوتا یعنی کہ کارکردگی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ نیز کہ اگر یہ بنیاد بنا لی جائے کہ افسانہ یا ناول اشفاق احمد، ڈپٹی نذیراحمد یا ایسی ہی کسی معیاری ادیب کے برابر نہ ہوئی تو شائع نہ ہوگی تو پھر تو ادب کی ترقی ہوگئی۔ کرکٹ کی مثال دیتا ہوں کہ بریڈمین کو کرکٹ کا سب سے بڑا کھلاڑی مانا جاتا ہے۔ اب کوئی اس کے معیار کا کھلاڑی تو ہو نہیں سکتا سو آسٹریلیا والوں کو تو کسی کھلاڑی کو ٹیم میں ڈالنا ہی نہیں چاہیے۔ اگر کوئی معین اختر یا وحید مراد کے پائے کا اداکار نظر نہ آئے تو کسی نئے اداکار کو موقع ہی نہیں دیا جانا چاہیے کہ یہ لوگ معیاری اداکار نہیں ہیں تو ٹی وی اور فلم انڈسٹری بند ہو جائے گی۔پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ لوگ بھی پہلے میچ اور پہلی کارکردگی سے اس معیار پر نہیں جا پہینچے تھے۔ اس معیار پر وہ سالوں کی ان تھک محنت سے براجمان ہوئے ہیں کہ کھیل اور فن سے جانے کے بعد بھی ان کا نام ہی کارکردگی کی ضمانت ہے۔ ایسے لوگوں سے بھی پوچھا جائے تو وہ بتائیں گے کہ وہکتنے پاپڑ بیل کر اپنے موجودہ مقام پر فائز ہوئے۔ بھارتی اداکار کشور کمار یاد آ رہے ہیں کہ جو کبھی اداکاری کرتے،کبھی گلوکاری اور کبھی موسیقی میں طبع آزمائی کرتے کہ کسی طرح انھیں فلم انڈسڑی قبول کر لے۔ کوئی 15 سال بعد انھیں کٹی پتنگ کے گانوں نے بریک تھرو دیا اور آج وہ بھارت کے گلوکاری میں صف اول کا نام ہیں۔
کچھ کام مستقبل کے لئے ہوتے ہیں۔ہم انھیں حال میں دیکھ نہیں سکتے۔کچھ چیزیں فوری کامیاب نہیں ہوتیں۔ہر کھلاڑی شاہد آفریدی یا جاوید میانداد نہیں ہوتا کہ پہلے میچ میں ہی کامیاب ہو۔ بعض کھلاڑی عمران خان، سعید انور کی مانند آہستہ آہستہ رنگ جماتے ہیں۔ اگر ادب کا تذکرہ کیا جائے تو غالب اور میر کی کتب کا جو مقام آج ہے کیا یہ مقام جس دن کتابیں شائع ہوئیں اس دن بھی تھا؟ یقیناً اس دن نہیں تھا۔اب اگر غالب کو سہل نگاری اور بے تکلفی کا بانی مانا جاتا ہے تو اس زمانے میں روایت سے ہٹنے پر توپوں کا رخ اس کی جانب تھا۔ان لوگوں کو شاعر ہی نہیں تسلیم کیا جاتا تھا۔ استاد ذوق کا مرتبہ بلند تھا مگر پھر وقت نے پلٹا کھایا اور اب غالب کا دن ساری دنیا مناتی ہےمگر ذوق کو بس حلقہ ارباب ذوق والے ہی لفٹ کرواتے ہیں۔
معیاری ادب کی ایک اور بدقسمتی دیکھیے کہ اس کو پڑھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ ہم اقبال کو معیاری شاعر سمجھتے ہیں مگر ہم نے کیا ان کا پورا کلام پڑھا ہے اور اس کو سمجھا ہے؟ یہی حال سارے معیاری ادب کا ہے۔
ہمارے ہاں کسی کی حوصلہ شکنی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو پہلے تاثرسے ڈرا دیا جائے۔ پہلا تاثر ان لوگوں کی نظر میں آخری تاثر ہوتا ہے جو بالکل سطحی سوچ رکھتے ہیں ورنہ وقت کے ساتھ ساتھ سوچ اور تاثر بدلنا انسان کے بالغ ہونے کی دلیل ہے۔ اگر پہلا تاثر ہی آخری ہوتا تو ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی کو اسلام کے بہترین حکمران اور منتظم کی بجائے آج رسول اللہﷺ کے قتل کا منصوبہ بنانے والے کے طور پر جانے جاتے۔اگر پہلا تاثر ہی آخری ہوتا تو قائد اعظم کو آپ بانیء پاکستان کی بجائے کانگریس کے ایک رکن کے طور پر جانتے۔ علامہ اقبال نے شروع میں روایت پسندانہ رومانی شاعری کی۔ مظفر وارثی فلموں کے لئے گانے لکھا کرتے تھے اور سب سے بہترین اور اچھی مثال مرحوم جنید جمشید کی ہے کہ وہ ایک پاپ سنگر سے دین کے ایک کارکن کیسے بنے۔ عوام نے جنازہ دین کے کارکن کا پڑھا یا ایک گلوکار کا؟ اس طرح کی سینکڑوں مثالوں سے تاریخ بھری ہوئی ہے۔ آپ کا پہلا تاثرنہیں بلکہ آخری تاثر انمٹ ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے متعلق پہلا تاثر آخری تاثر بن جاتا ہے مگر وہ مستثنات ہیں۔ جو ہر حالت میں اپنی ہٹ دھرمی اور ضد سے باز نہیں آتے۔ ابو جہل کی مثال اس سلسلے میں بہترین مثال ہو سکتی ہے۔
ہمیں اپنے نئے دوستوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ وہ لکھ ہی رہے ہیں کوئی دہشت گردی تھوڑی کر رہے ہیں۔ لکھیں گے تو ہی معیاری ادب تخلیق ہو گا۔اگر ہر کسی کی حوصلہ شکنی کی گئی اور لوگوں نے لکھنا چھوڑ دیا تو معیاری کیا ادب ہی وفات پا جائے گا۔اور عجیب یا حیران کن تب زیادہ محسوس ہوتا جب لکھنے والے اور ادب سے وابستہ لوگ ایک دوسرے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ادب اگر متعصب اور تنگ نظر ہے تو پھر وہ ادب تو نہ ہوا۔ نئے لکھنے والوں سے ہم تو کہیں گے کہ لکھیں اور خوب لکھیں۔ کتاب نکال سکتے ہیں تو ضرور نکالیں۔ اگر آپ کو اچھا محقق اور تنقید نگار (فیس بک والا نہیں)مل جائے تو کیا خبر کل آپ میں سے ہی لوگ اپنے اپنے شعبوں کے غالب و میر ہوں۔
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: فروری 4th, 2018
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: 4