ڈھونڈنا ہمارا جامعہ کو «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ڈھونڈنا ہمارا جامعہ کو

     

     اگلے رو ز یعنی کہ پیر کو ہمیں جامعہ جانا تھا کہ اپنا وہاں بطور طالب علم اندراج کروا سکیں۔ اتوار کی رات ہی ہم نے کپڑےاستری کے لئے اور گوگل میں ہم نے کانگر کا نقشہ کھولا اور لگے ڈھونڈنے جامعہ کو۔مگر یہ کیا

    جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے

    نقشے میں کوئی پندرہ بیس مقامات پر یونیورسٹی موجود تھی۔ دراصل مختلف شعبے شہر کے مختلف حصوں میں واقع ہیں۔ ہمیں ابتدا اپنی ‘انٹرنیشنل سٹوڈنٹس افیئر’ کے دفتر سے کرنا تھی باوجود اس کے کہ ہمارا اس وقت کوئی افیئر نہیں چل رہا تھا مگر وہاں حاضری ضروری تھی۔ جب ہم نقشے سے اس دفتر کا پتہ نہ چلا سکے تو ہم نے ایک کاغذ پر اس کا پتہ لکھ لیا تا کہ ٹیکسی ڈرائیور کو سمجھانے میں آسانی ہو۔

    صبح ہم تیار ہو کر ہوٹل سے نکلے ہمارے کندھوں پر ایک بستہ تھا جس میں ہمارا لیپ ٹاپ اور تعلیمی دستاویزات تھیں۔ٹیکسی سٹینڈ دور تھااور ہمیں ٹھیک سے معلوم بھی نہ تھا۔ کھڑے ہونے سے بہتر تھا کہ چلتے جائیں، جہاں بھی ٹیکسی ملی لے لیں گے۔ کچھ دور چلنے کے بعد ہم نے ایک شخص سے ٹیکسی کا پتہ پوچھا۔ اس نے ہمیں ایک طرف اشارہ کیا اور ہم اس طرف چل دیے۔آگے ایک ٹیکسی موجود تھی۔ ہم نے اس سے کہا تو وہ بولا کہ ٹیکسی اس وقت فارغ نہیں ہے۔ ہم نے پوچھا کہ خالی ٹیکسی کہاں سے ملنی تو اس نے ہمیں ایک اور رستے پر ڈال دیا۔ کچھ آگے جا کر ہم اک چوک پر آ پہنچے۔ہمارے مخالف سمت سے دو ٹیکسیاں گزریں۔ یہ دیکھ کر ہم نے سڑک پار کی تو کچھ دیر بعد جہاں ہم کھڑے تھے وہاں سے خالی ٹیکسیاں گزرنے لگیں۔

    ایسی ضدکا کیا ٹھکانہ، اپنا مذہب چھوڑ کر

    میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

    ہم چل چل کر بھی تھک چکے تھے اور جس سے بھی پتہ کرتے وہ ہمیں کہیں سے کہیں پہنچا دیتا۔ خدا خدا کر کے ہماری تلاش ختم ہوئی اور ایک ٹیکسی نے ہمارے قریب ایک سواری کو اتارا۔ ہم نے  اسے پتے والا کاغذ  دکھایا کہ ہمیں یہاں جانا ہے۔ اس نے ہمیں کرایہ بتایا جو کہ ہمیں قبول کرنا ہی تھا کہ پہلے ہی چل چل کر بے حال ہوئے جاتے تھے اور کاموں کی تکمیل کے لئے وقت کی بھی قلت تھی۔

    ہم ٹیکسی میں سوار ہوئے اور وہ چل پڑی۔ ڈرائیور نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہم سے پوچھا کہ ہم کہاں رہ رہے ہیں۔ ہم نے پتہ بتلایا تو کہنے لگا کہ اس ہوٹل کے پیچھے ہی تو یہ دفتر ہے۔ بمشکل پانچ منٹ کی والک ہو گی۔ اتنا پیدل چلے، ٹیکسی کو الگ کرایا دیا اور دفتر ہماری بغل میں۔ کرایہ دے کر ہم دفتر میں داخل ہوئے۔ دفتروالوں سے اپنا تعارف کروایا تو انھوں کے کہا کہ پہلے جوتے باہر اتار آئیں۔ ہمیں عجیب تو بہت لگا کہ دفتر نہ ہوا مسجد ہو گئی مگر ہم نے تعمیل ارشاد کی۔ واپس آکے ہم نے غور سے دیکھا تو سبھی کے جوتے اترے ہوئے تھے۔

    اب انھوں نے ہمارے کاغذات دیکھے اور ایک سرکاری ورق دیا  کہ پہلے ‘ گریجویٹ اسٹوڈنٹس آفس’ سے اس کی تکمیل کروائیں اور پھر ہمارے پاس آئیں۔

         ہم باہر آئے اپنے جوتے پہنے اور پھر ٹیکسی کی تلاش میں نکل پڑے۔ اس بار خوش قسمتی سے جلد ہی ٹیکسی مل گئی۔ وہ ہمیں اپنے مطلوبہ مقام پر لے گئی جو کہ اندازًا پہلے دفتر سے ڈھائی تین کلومیٹر دور تھا۔یہاں بھی ہم جوتے اتارکر اندر داخل ہوئے۔ یہاں بھی انھوں نے ہماری اسناد دیکھیں اور کہا کہ پہلے تو فیس جمع کروا کے آئیں۔ ہم نے پوچھا کہ کہاں تو کہنے لگی کہ بینک میں۔ ہم نے کہا کہ وہ کہاں ہے تو فرمایا کہ ٹیکسی پر جانا پڑے گا۔

    پھرٹیکسی پھر رقم۔ مرتا کیا نہ کرتا جانا تو تھا ہی۔ ساتھ ہی انھوں نے بتا دیا کہ ساڑھے بارہ سے ڈیڑھ بجے تک وقفہ ہو گااور دفتر بند ہو گا۔ ہم بینک گئے۔ فیس جمع کروائی۔ بارہ بج چکے تھے۔ ہم نے سوچا کہ جانے کا فائدہ نہیں کیوں نہ کچھ کھا پی لیا جائے۔ قریب ہی ایک ‘کےایف سی’ تھا وہاں سے ہم نے ظہرانہ کیا۔کچھ وقت ہم نے ادھر ادھر گزارا۔

     ڈیڑھ کے قریب ہم دوبارہ وہاں روانہ ہوئے مگر جا کر دیکھا کہ دفتر ابھی بند تھا۔ ہم دفتر کے پیچھے موجود میدان میں چلے گئے۔ جہاں میلوں پھیلا سبزہ اور اس کے عقب میں موجود پہاڑی ،جو کہ خود بھی درختوں سے لدی ہوئی تھی آنکھوں کی تراوٹ کا باعث تھی۔ ہمارے قریب ہی ایک چھوٹی سی ندی بھی تھی اور اسکے کنارے دو تین گائیں بھی چر رہیں تھیں۔ بے اختیار علامہ اقبال یاد آئے

    ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

    ڈھائی بجے کے بعد ہم گئے تو دفتر کھلا تھا۔ ہمیں اندر بلایا گیا۔ایک خاتون نے مختلف کاغذات ہم سے بھروائے  اور ہمارے دستخط لئے۔  کچھ  کاغذات ہم سے بھی مانگے گئے کہ آپ کو پہلے بھیج دیئے گئے تھے تو ہم نے پلندہ کھولا اپنے کاغذات دیکھے، نہ ملے۔ انھیں بتایا تو نیا فارم دیا گیا۔ ہم نے وہ بھی بھر دیا۔ پھر ایک اور کاغذ ڈھونڈ رہے تھے تو وہ جو پہلے مطلوب تھا وہ فارم مل گیا۔ ہم نے ان خاتون کو دکھایا اور بتایا کہ سب ہی فارم ہمارے پاس محفوظ ہونے، بس عین ٹائم پر وہ نہین ملتے۔

    ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ جوتے اتارنے کا کیا چکر ہے؟وہ کہنے لگیں کہ ہم لوگ تو دفتر کو بھی گھر کی مانند سمجھتے ہیں اور جوتے باہر اتار کے آتے ہیں۔ اس سے گھر اور دفتر دونوں صاف رہتے ہیں۔ہم سے انھوں نے پوچھا کہ کیا پاکستان مین ایسا نہیں ہوتا؟ اب ہم انھیں کیا بتاتے کہ پاکستان میں تو جوتے پھر ملیں گے ہی نہیں۔ مسجد میں بھی نہیں ملتے، گھر اور دفتر کی تو ہم کیا کہیں۔ تاہم اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے ۔ ٖغیر کے سامنے اپنے ملک کی برائی کیوں بیان کرتے۔ ہم نے کہا کہ مسجد میں تو اتار کر ہی جاتے ہیں۔ تاہم گھر کے اندر ہمارے مختلف جوتے ہیں۔ کوئی کمروں مین استعمال کے لئے اور کوئی غسل خانے کے لئے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔