شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

    تحریر: ابنِ ریاض

    دو روز قبل  شفیق صاحب کو دل کا دورہ  پڑا۔دورہ  جان لیوا ثابت ہوا اور وہ زندگی کی قید سے آزاد ہو کے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالٰی نے انھیں ایک بیٹی سے نوازا تھا۔ وہ اس کی شادی کے فرض سے سبک دوش ہو چکے تھے اور ان کی ایک نواسی بھی ہے۔ مگر اللہ کی قدرت اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کی بیٹی اور نواسی وقتِ مرگ ان کے پاس نہیں بلکہ عمرہ کی غرض سے حجاز مقدس میں تھی۔ اس لڑکی کے لئے کہ جس کا کوئی بھائی بہن نہ ہو اور ماں باپ کا ہی سہارا ہو یہ یقینًا ایک دل دہلا دینے والا حادثہ ہے اور اس کو اس کے اثرات سے نکلنے میں خدا جانے کتنا وقت درکار ہو گا مگر تعزیت کرنے والے زخموں پر نمک چھڑکنے آتے ہیں۔

    ہمارے ہاں تعزیت کا مطلب دوسرے کے دکھ میں شریک ہونا نہیں بلکہ ایک رسم پوری کرنا ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اپنے نانا کی وفات پر ہوا تھا۔جب ان کو دفنایا بھی نہیں گیا تھا اور قبرستان میں ہی لوگوں کے موضوعات انتہائی حد تک دنیاداری سے متعلقہ ہو گئے تھے۔ بجا کہ دکھ ہر کسی کا ذاتی ہوتا ہے اور ہم  جتنا مرضی کوشش کر لیں ہم ان کے نقصان کی تلافی نہیں کر سکتے مگر کسی کی اذیت میں اضافہ تو نہ کریں۔

    ابھی شفیق صاحب کی وفات کو زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک خاتون نے فرمایا۔آہ شفیق صاحب کو اللہ تعالٰی نے اولاد نرینہ سے تو نوازا نہیں سو آج ان کی کہانی بھی ختم ہو گئی۔ آپ سوجیں کہ اس جملے کو سن کر ان کی بیوہ اور بیٹی پر کیا گزری ہو گی۔ مانا کہ شدتِ غم میں اور اپنی مدہوشی میں انھیں شاید محسوس ہی نہ ہوا کہ کہا کیا گیا ہے مگر کب تک؟ یہ لاشعور میں یقینًا محفوظ ہو گا اور اس کے بعد زندگی بھر ان کو اذیت دے گا۔

    ہمارا بطور مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام اہل کتاب کا یہی عقیدہ ہے کہ موت کا نام فنا ہونا نہیں بلکہ یہ تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔ سو یہ کہنا کہ کسی کی وفات پر اس کی کہانی ختم ہو گئی انتہائی غلط اور لغو بات ہے۔ ایسی بات تو کوئی ملحد ہی کہہ سکتا ہے ۔ پشتو کا ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ اگر کوئی آپ سے کہے کہ آپ کا کان کتا لے گئے ہے تو کتے کے پیچھے بھاگنے سے پہلے اپنے کان والی جگہ پر ہاتھ پھیر لو شاید کہ آپ کا کان وہیں ہو۔ اصولی طور پر تو ایسی واہیات بات پر توجہ ہی نہیں دینی چاہیے مگر کیا ہے کہ ہم لوگ کتے کے پیچھے بھاگنے کے عادی ہیں۔

    یاد رکھیں کہ کہانی ہم اپنی زندگی میں خود لکھتے ہیں۔ ہماری کہانی ہمارے اعمال اور ہمارا اخلاق ہے۔ ہمارا اپنے متعلقین سے برتاؤ  ہے۔ اب کہانی جتنی مضبوط ہو گی اتنی ہی زیادہ پڑھی جائے گی اور یاد رکھی جائے گی۔ اگر  کہانی میں جان نہیں تو ردی کی ٹوکری اس کا مقدر ہے۔ اولاد اور بالخصوص اولاد نرینہ کے بغیر کہانی ختم ہو جانے کا تصور تو قریش مکہ کا تھا جو کہ نبی کریم ﷺکو اولاد نرینہ کی وفات پر  کہتے تھے کہ ان کی تو محض بیٹیاں ہیں ان کی تو نسل ہی ختم ہو جانی ہے۔ پھر سورءہ کوثر کی صورت میں اللہ تعالٰی نے انھیں کیا تسلی دی  کہ بےشک تمھارا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا۔ اور پھر وقت نے دکھایا کہ ان کے دشمن اپنی کثرتِ اولاد کے باوجود بے نام و نشان ٹھہرے۔ اور آپ کو ‘ورفعنا لک ذکرک’ کی نوید دی گئی۔

    نبی کریم ﷺ کی مثال پر لوگ سوچیں گے کہ یہ تو نبی کی مثال ہے۔ ان جیسے ہم کیسے بن سکتے ہیں۔ تو آپ ان سے پہلے اور بعد میں کسی بھی شخص کی مثال لے لیں۔اس کی کہانی اس کا کام ہو گا۔ آپ بابائے قوم کی مثال لے لیں۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھی۔ بڑھاپے کی اولاد  اور وہ بھی ایسی اولاد کہ اس نے ان کی مرضی کے خلاف ایک پارسی سے شادی کر لی تھی۔قائداعظم آج بھی قائد اعظم ہیں اور ان کی  کہانی ان کا کردار اور یہ ملک ہے۔ مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال کو لے لیجیے۔ اللہ نے انھیں اولاد سے نوازا  مگر  جب ہم ان کی کہانی پڑھتے ہیں تو اس کی وجہ ان کا کام ہے۔ ان کی شاعری ان کا فلسقہ ہے۔آپ حکیم محمد سعید صاحب کو لیجیے۔ ان کی بھی ایک ہی بیٹی تھی  اور انھوں نے ایک گھر بنایا اور اسے اپنی بیٹی کےنام کر دیا اور اس میں بطور کرایہ دار رہتے رہے۔ مگر ہمدرد کا ادارہ ان کا وہ کارنامہ ہے کہ وہ تاابد ان کا نام زندہ رکھے گا۔ آپ منیر نیازی کو لے لیں۔اردو شاعری میں ایک بڑا اور معتبر نام مگر اللہ نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا مگر آج بھی وہ اولاد والوں سے زیادہ دلوں میں ہیں۔ کسی بھی شعبے کی کسی بھی معروف شخصیت کو دیکھ لیجیے۔ اپنے کام ہی وجہ سے ہی وہ زندہ ہے اور کوئی ان کی اولادوں سے واقف نہیں۔ ارسطو، سقراط، بقراط، گلیلیو، نیوٹن، ابن رشد ابن سینا، ابن بطوطہ یہ لوگ سینکڑوں سال گزر جانے کے بعد بھی اپنے کام کی وجہ سے زندہ ہیں اور کچھ لوگ زندگی میں ہی مردہ ہو جاتے ہیں۔بقول محسن نقوی

    عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق

    میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے

    اولاد یقینًا انسان کی خواہش بھی ہے اور نسل انسانی کے آگے بڑھنے کا ذریعہ بھی۔ اسی کے لئے انسان اپنی سب خواہشات کو مارتا ہے کہ اس کی  اولاد کا مستقبل اچھا ہو۔ اس کے لئے ہر جائز و ناجائز کام کر گزرتا ہے کہ اس کی  اولاد کے پاس پیسہ ہو۔اسکے پاس مال ہو اور اسے کسی تنگی و مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر مالک دو جہاں تو قرآن پاک میں بغیر کسی لگی لپٹی کے فرماتا ہے۔

    ‘اے ایمان والو میرے مال اور تمھاری اولادیں تمھیں یادِ الہٰی سے غافل نہ کر دیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو بے شک ایسے ہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں’۔

    ٹیگز: , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔