لو جی ایک اور مضحکہ خیز خبر ملاحظہ ہو کہ پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں موبائل فون پر پابندی لگا دی جائے-اول تو ہماری اسمبلیاں کوئی تعمیری اور ڈھنگ کی قراردادیں پیش نہیں کرتیں اور اگر کبھی پیش کر لیں تو ان پر عمل درآمد ندارد- جبکہ غریب اور مجبور عوام کے خلاف قراردادیں لانا تو کوئی ان سے سیکھے-اسی قرارداد کو لے لیجیے محسوس ہوتا ہے کہ قرارداد پیش کرنے والے ممبر اس کے نتائج کا کماحقہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہیں ورنہ وہ ایسی غلطی سے یقینًا اجتناب کرتے-
کسی بھی قرارداد کو پیش کرنے سے پہلے اس امر کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ متعلقہ عوام کے لئے قابلِ قبول ہو۔ مثلاً اگر جنو بی پنجاب کے عوام صوبائی خودمختاری کے خلاف ہیں تو ایسی قرارداد کو پیش ہی نہیں کرنا چاہئے- ہم جانتے ہیں کہ طلبا ایسی علم دشمن قرارداد کی حمایت نہیں کریں گے-اسی طرح سکول و کالج کی انتظامیہ اور طالب علموں کی مرضی کے خلاف ایسی قرارداد کی ہم حمایت نہیں کر سکتے-
اس قرارداد کی ایک قباحت یہ بھی ہے کہ بچے تو بچے، بچوں کے والدین بھی اس قرارداد کی حمایت نہیں کریں گے کیونکہ طالب علموں کی اکثریت اپنے گھروں سے کئی کئی کلومیٹر دور اور کئی کئی گاڑیان بدل کر اپنے اداروں میں پینچتے ہیں- اس ملک میں امن و امان کی مخدوش صورت حال میں جب تک بچے واپس گھر نہیں پہنچ جاتے ان کے والدین سولی پر ٹنگے رہتے ہیں اور کسی تاخیر یا حادثے کی صورت میں موبائل ہی ان سے رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔ خود ہماری والدہ بھی کسی تاخیر کی صورت میں ہم سے اسی ذریعے سے رابطہ کرتی ہیں-
ہمارے نزدیک تو یہ قرارداد بچوں کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے- موبائل صرف بات سننے یا پیغام پہنچانے کا آلہ نہیں بلکہ آج کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے اور اس کے بے حساب فوائد ہیں- ایک تو یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوڈشیڈنگ کا کوئی ٹائم نہیں یہ آلہ ٹارچ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے- دوسرا یہ کہ جب بجلی نہ ہو تو پڑھائی تو تقریبًا ناممکن ہوتی ہے تو ایسے لمحات میں نوجوان ایک دوسرے کو بھلو چنگو کرتے ہیں یا پھر کوئی گیم کھیلتے ہیں- اس طرح ان کا دھیان بٹ جاتا ہے اور دماغ بھی بہلا رہتا ہے۔ تا ہم اساتذہ اور طالب علموں دونوں کے لئے موبائل کلاس روم میں بہت ضروری ہے۔ پہلے زمانے میں جب موبائل نہیں ہوتا تھا تو طلبا بالعموم اور خشک مضامین مثلاً انجنئرنگ اور میڈیکل کے طلبا بالخصوص اپنے اساتذہ کے بور لیکچر سننے پر مجبور ہوتے تھے اور اکثر تو کلاس میں سو بھی جاتے تھے جس کو بعض اساتذہ انتہائی ناپسند کرتے تھے اورطلبا کو کلاس سے بھی نکال دیا جاتا تھا- کبھی کبھار تو طالب علم اور استاد کے تعلقات بھی کشیدہ ہو جاتے تھے تا ہم موبائل نے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کر دیا ہے- اب کسی ناپسندیدہ مضمون اور لیکچر میں طالب علم بور نہیں ہوتا- وہ چپکے سے اپنا موبائل آن کرتا ہے اور کسی دوست سے چیٹنگ شروع کر دیتا ہے۔ اگر کوئی دوست فارغ نہ ہو تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ موبائل میں گانے اور ویڈیوز بھی تو ہیں وہ کس دن کام آئیں گی- سو ٹائم طالب علم کا بھی آسانی سے گزر جاتا ہے اور استاد اپنی جگہ خوش کہ بچے توجہ سے لیکچر سن رہے ہیں-
امتحان میں تو موبائل اور بھی اہمیت کا حامل ہے- وہ ادق اور مشکل ترین سوال جو کسی صورت جان نہیں چھوڑتے وہ موبائل کے کیمرے میں محفوظ کر لئے جاتے ہیں- تا کہ چلتے پھرتے اور گاڑی میں بیٹھے ہوئے بھی انھیں دھرا دھرا کے یاد کر لیا جائے- اور اگر خوبئی قسمت سے ممتحن کی نظر نہ پڑے تو پورا سوال بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے طالب علموں کو بھولنے کی بھی بیماری ہے-روزانہ کی تاریخ بھول جاتے ہیں- گھر کا کام دو تو بھول جاتے ہیں۔ یونیفارم پہن کر سکول آنا بھول جاتے ہیں اور تو اور قلم، کیلکولیٹر اور کتاب بھی بھول جاتے ہیں۔ یاد رہتا ہے تو محض موبائل- اگر کوئی حساب سے متعلق سوال آ جائے تو کیلکولیٹر کا کام بھی یہ موبائل ہی کرتا ہے-
مزید براں اس موبائل نے ہمیں اپنی ثقافت سے بھی جوڑ رکھا ہے۔ اگر یہ موبائل نہ ہوتا تو شیریں فرہاد، لیلٰی مجنوں، سسی پنوں قصہ پارینہ بن چکے ہوتے- اسی موبائل کی بدولت لڑکا لڑکی کسی کی نظروں میں آئے بغیر ایک دوسرے سے پاکیزہ محبت اور اقرارِ وفا کرتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی-پتہ تب چلتا ہے سماج کو جب بات ہاتھ سے نکلچکی ہوتی ہے اور پھر ظالم سماج ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے-اب اگر موبائل ہی نہیں رہے گا تو بچے کیا کریں گے سوائے پڑھنے کے؟
الغرض موبائل کی خوبیاں بے حساب ہیں اور طالب علموں کے لئے تو موبائل از حد ضروری ہے۔ لہذٰا ہماری التماس ہے اپنے معزز اراکین اسمبلی سے کہ اس قرارداد کو دو تہائی اکثریت سے رد کر دیا جائے بلکہ ہماری گزارش ہے کہ وزیرِ اعلٰی کو چاہئے کہ لیپ ٹاپ کے ساتھ ساتھ ایک عدد جدید ترین موبائل بھی فراہم کیا جائے تا کہ ہمارے طلبا کا پڑھائی کا شوق مزید افزوں ہو سکے-