موجودصدی کا ویوین رچرڈز «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • موجودصدی کا ویوین رچرڈز

    پاکستان گیند بازوں کے حوالے سے سازگاز سرزمین ہے کہ اس مٹی پر فضل محمود،  سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر ، عبدالقادر اور ثقلین مشتاق جیسے گیند بازوں نے جنم لیا ۔ اس کے مقابلے میں بھارت بلے بازوں کی سرزمین ہے اور ہر زمانے میں یہاں اعلٰی اور عالمی معیار کے بلے باز پیدا ہوئے ہیں۔ ہم نے جب کرکٹ دیکھنی شروع کی تو سنیل گواسکر کا طوطی بولتا تھا۔بعد ازاں  سچن ٹنڈولکر،محمد اظہر الدین، راہول ڈریوڈ، وی وی ایس لکشمن سبھی نے عمدہ بلےبازی سے بھارت کی فتوحات میں اپنا حصہ ڈالا  تاہم موجودہ دور کے کھلاڑی پر لکھنا چاہا تو اس وقت جو نام سب سے بہت آگے نظرآتا ہے وہ بھارت کے موجودہ کپتان ویرت کوہلی کا ہے۔

    ویرات کوہلی کوہم نے سب سے پہلے 2008 کے انڈر 19 عالمی کپ منعقدہ  ملائشیا  میں دیکھا تھا۔ اس وقت بھی وہ بھارتی ٹیم کے کپتان تھے۔ جنوبی افریقی ٹیم کے کپتان وین پارنل تھے۔ بھارت نے فائنل میں جنوبی افریقہ کو ہرایا تھا۔ اس میچ میں  ویرت کوہلی ہمیں  انتہائی متکبر اور اکھڑ مزاج محسوس ہوئے تھے اور ہمارا یہی خیال تھا کہ  ویرت کا مزاج ان کی ترقی میں رکاوٹ بنے گا اور جلد ہی وہ قصہ پارینہ بن جائیں گے مگر ویرت نے ہمارے تمام اندازوں کو غلط ثابت کیا۔

    2008 میں ہی وہ قومی ایک روزہ  ٹیم میں شامل ہوچکےتھے اور جلد ہی وہ اس ٹیم کا لازمی جزو بن گئے۔پاکستان کے خلاف انھوں نے پہلامیچ 2009میں جنوبی افریقہ میں منعقدہ چیمپئن ٹرافی میں کھیلا تھا۔2010 میں وہ ٹی ٹوینٹی اور 2011 میں ٹیسٹ ٹیم میں شامل ہوئے۔ اسکے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا ۔

    ویرت  کی سب سے اچھی بات کہ وہ حالات  کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔

    گواسکر  ٹیسٹ میچز کے چیمپئن تھے۔  انھوں نے ون ڈے کو سنجیدہ لیا ہی نہیں تھا۔ٹندولکر نے اپنے ابتدائی ایام میں کہا تھا کہ وہ ون ڈے کے بھی گواسکر بننا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بن کر دکھایا۔ اب کوہلی آئے ہیں تو انھوں نے خود کو ٹی ٹونٹی کا ٹنڈولکر ثابت کیا ہے۔ کوہلی دنیا کے واحد  کھلاڑی ہیں کہ  جن کی ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹونٹی تینوں میں ہی اوسط پچاس سے زائد ہیں۔

    سچن ٹنڈولکر جب ریٹائر ہوئے تو ان کی بین الاقوامی کرکٹ میں سو سینچریاں تھیں۔ سینچریوں کی سینچری بنانے میں انھیں تئیس برس لگے۔ وہ سولہ سال کی عمر میں کرکٹ میں آئے اور جب ریٹائر ہوئے تو ان کی عمر انتالیس برس تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ ان کی سو سینچریوں کا ریکارڈ اٹل ہے اور توڑنا تو درکنار کوئی اس کے قریب بھی نہیں پہنچے گا۔ کوہلی کا ٹیسٹ کاآغاز اتنا متاثر کن نہ تھا۔ انھیں پہلا سینکڑا کرنے میں کوئی آٹھ نو میچز لگے تھے سو ہمارے خیال  میں وزن تو تھا۔ ویرت ایک روزہ میچز کے انتہائی زبردست کھلاڑی ہیں بلکہ  ایک روزہ میچوں کی تاریخ کے بہترین  کھلاڑیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ تاہم جس طرح ٹیسٹ میچوں میں سست آغاز کے بعد انھوں نے قدم بڑھائے ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سچن ٹنڈولکر کی سو سینچریوں کا ریکارڈ اگر کسی کی دسترس میں ہے تو وہ صرف اور صرف ویرت کوہلی ہیں۔ اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ اگر وہ پانچ چھ برس اسی تسلسل کے ساتھ کھیلتے رہے تو سچن کا یہ ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔  ون ڈے میں کچھ سال تک ہاشم آملہ نے ان کا مقابلہ کیا مگر اب ہاشم کی عمر ان کے آڑے آ گئی ہے اور   ویرت اب تن تنہا ایک روزہ کرکٹ کے شہنشاہ ہیں۔ کچھ لوگ اے بی ڈی ویلیئرز کا نام لیں گے مگر اے بی کے پاس اب وقت کم ہے اور ایک روزہ میں ٹنڈولکر کے پاس پہنچنے کے ان کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    ویرت کوہلی کا  امتیازی وصف ان کا ہدف کا تعاقب ہے۔ بلے بازوں کے لئے ہمیشہ سے ہدف کا تعاقب ہدف دینے کی نسبت مشکل امر رہا ہے مگر کوہلی اس روایت سے مستثنٰی ہیں۔ جتنا مشکل ہدف  ہو وہ اتنی ہی آسانی سے اس کا تعاقب کرتے ہیں۔2012 کے ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف تین سو سے زائد کا ہدف ویرت نے جس آسانی سے حاصل کیا تھا وہ اسی  کا کمال ہے۔ سوا تین سو کے تعاقب میں انھوں نے تنہا ایک سو تراسی رنز بنا ئے۔ اس اننگز میں انھوں نے جس طرح سعید اجمل کو قابو کیا وہ ہمیں اب تک یاد ہے۔ سعید اجمل کی ‘دوسرا’کو انھوں نے جس مہارت سے پوائنٹ اور تھرڈ مین بائونڈریوں کی راہ دکھائی وہ ہمارےلئے ہی نہیں بلکہ شاید سعید اجمل کے لئے بھی انوکھا تجربہ تھا۔اس سے کچھ ماہ قبل ویرت نے سری لنکاکے خلاف ایک اور حیرت انگیز اننگز آسٹریلیا میں کھیلی تھی۔ بھارت کو  جیت کے لئے سری لنکا نے تین سو بیس رنز کا ہدف دیا تھا تاہم تین ملکی سیریز کے فائنل میں رسائی کے لئے یہ ہدف بھارت کو چالیس اووز یا اس سے قبل عبور کرنا تھا۔سری لنکا کا اہم ہتھیار ملنگا تھے اور انھیں ان کے ایکشن کی وجہ سے کھیلنا کافی مشکل ہوا کرتا تھا مگر ویرت سری لنکن گیند بازوں کو ایسے اڑا لے گئے جیسے  تیز ہوا گرے ہوئے سوکھے پتوں کو لے جاتی ہے۔ بھارت نے وہ ہدف چالیس کی بجائے محض چھتیس اوورز میں پورا کر لیا۔  حال ہی میں جنوبی افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ ٹیسٹ میں چون اور اکتالیس رنز کی اننگز کھیلیں۔  یہ بہت بڑا اسکور نہیں مگر اس پچ پر یہ میچ وننگ اننگز تھیں اور ہمیں ان کی بیٹنگ دیکھ کر 2006 میں ویسٹ انڈیز میں راہول ڈریوڈ کی دونوں اننگز میں نصف سینچریاں یاد آ گئیں کہ جن کی بنا پر بھارت نے تیس برس بعد ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز میں شکست دی۔ ویرت کوہلی ٹیکنیک میں راہول ڈریوڈ ہیں تو جارحیت میں سچن ٹندولکر۔ سچن ٹنڈولکر ابھی سینچریوں میں ان سے آگے ہیں مگر فتح گر اننگز کوہلی نے ابھی سے ان سے  زیادہ کھیل لی ہیں ۔ کوہلی کو آئوٹ کرنے کا مطلب ہے کہ بھارت کی آدھی ٹیم آئوٹ کر لی گئی۔ اس کا اندازہ پاکستان کو گزشتہ سال چیمپئن ٹرافی کے فائنل میں ہوا تھا جب کوہلی کو جلد آئوٹ کرنے کی بنا پر پاکستان اس ٹورنامنٹ کا فاتح بنا تھا۔

    کوہلی کے اعتماد سے ہم بہت متاثر ہیں۔ انھیں اپنے کھیل اور تکنیک پر مکمل اعتماد ہے۔ وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اس کا مظاہرہ وہ اکثر آسٹریلیا کے خلاف کرتے ہیں۔ آسٹریلوی کھلاڑیوں کی عادت ہے کہ وہ دوسروں پر فقرے بازی کر کے انھیں اشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اب تک ہم نے  دیکھا کہ کوہلی کے ساتھ جب بھی انھوں نے ایسا کیا ہے،    کوہلی  ان سے دبے نہیں بلکہ الٹا ان کے گیند بازوں کی زیادہ درگت بنائی ہے۔   ویوین رچرڈز  کی بھی یہی عادت تھی اور اپنے دور میں وہ گیند بازوں کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے  تھے بلکہ گیند باز ان سے خوف زدہ رہتے تھے۔

    روی شاستری کہتے ہیں کہ کوہلی میں انھیں عمران خان دکھائی دیتا ہے اور ہم اس بات سے مکمل متفق ہیں۔ انھی جون میں بھارت کو افغانستان کے خلاف ٹیسٹ کھیلنا ہے۔ کوہلی چاہتے تو اس میں رنز بھی کرتے اور بطور کپتان ایک مزید کامیابی بھی سمیٹتے مگر انھوں نے برطانیہ جا کر کائونٹی کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ برطانیہ سے بھارت کی اگست میں پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز ہے اور پچھلی مرتبہ ویرت یہاں بری طرح فیل ہوئے تھے سو اس بار وہ پہلے جا کر تیاری کریں گے تاکہ پچھلی مرتبہ کی غلطیاں نہ دھرائیں۔ عمران خان بھی ایسا ہی کرتے تھے کہ کمزور ٹیموں کے خلاف سیریز نہیں کھیلتے اور مظبوط ٹیموں کے خلاف قیادت کرتے تھے۔

    ویرت کوہلی ابتدا میں ایک مغرور اور بدمزاج کھلاڑی تھے۔  انڈر 19 میں انھیں دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ  وہ انتہائی خود پسند ہیں اور  انھیں اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔  عمر کے ساتھ ان کے کھیل میں تو بہتری آئی ہی مگر بطور انسان بھی وہ خاصے تبدیل ہوئے ہیں۔ میچ میں وہ اب بھی جیتنے کے لئے کھیلتے ہیں مگر مخالف کھلاڑیوں کا احترام بھی کرتے ہیں۔ چیمپئن ٹرافی کا فائنل جیتنے پر انھوں نے کوئی بہانے بازی نہیں کی بلکہ کھلے دل سے اعتراف کیا کہ پاکستان نے اچھی کرکٹ کھیلی اور وہ جیت کےمستحق تھے۔ایک اور انٹرویو میں بھی انھوں نے پاکستانی گیند بازوں کی تعریف کی  کہ انھیں کھیلنے میں مشکل پیش آتی ہے حالانکہ انھوں نے پاکستان کے خلاف بھی بہت رنز کیے ہیں۔ اس کے علاوہ آئی پی ایل  میں ایک مرتبہ انھوں نے کھل کر اے بی ڈی ویلیئرز کی تعریف کی اور انھیں دنیا کا بہترین بلے باز قرار دیا ۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ  محض اچھے کرکٹر بننے پرہی اکتفا نہیں کر رہے بلکہ بطور انسان بھی بہتری کے خواہاں ہیں۔

     

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔