تحریر: ابنِ انشاء
ڈاکٹر لکیر الدین فقیر کو لیجئے۔ جیسے اور پروفیسر ہوتے ہیں ویسے ہی یہ تھے۔ لوگ فقط اتنا جانتے تھے کہ علامہ اقبال کے ہاں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ سو یہ بھی خصوصیت کی کوئی بات نہیں۔ یہ انکشاف علامہ کے انتقال کے بعد ہوا کہ جب کوئی فلسفے کا دقیق مسئلہ ان کی سمجھ میں نہ آتا تو انہی سے رجوع کرتے تھے۔ ڈاکٹر لکیر الدین فقیر نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک روز آدھی رات کو میں چونک کر اٹھا اور کھڑکی میں سے جھانکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ علامہ مرحوم کا خادم خاص علی بخش ہے۔ میں نے پوچھا، ’’خیریت؟‘‘ جواب ملا ’’علامہ صاحب نے یاد فرمایا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’اس وقت؟‘‘ بولا ’’جی ہاں اس وقت اور تاکید کی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو لے کر آنا۔‘‘ میں حاضر ہوا تو اپنے لحاف میں جگہ دی اور فرمایا۔
’’آج ایک صاحب نے گفتگو میں رازی کا ذکر کیا۔ تم جانتے ہو میں تو شاعر آدمی ہوں۔ آخر کیا کیا پڑھوں؟ اس وقت یہ پوچھنے کو تکلیف دی ہے کہ یہ رازی کون صاحب تھے اور ان کا فلسفہ کیا تھا۔‘‘ میں دل ہی دل میں ہنسا کہ دیکھو اللہ والے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ بہرحال تعمیل ارشاد میں میں نے امام فخر الدین رازی اور ان کے مکتب فکر کا سیرحاصل احاطہ کیا اور اجازت چاہی۔ علامہ صاحب دروازے تک آئے، آبدیدہ ہوکر رخصت کیا اور کہا ’’تم نے میری مشکل آسان کردی۔ اب شہر میں اور کون رہ گیا ہے جس سے کچھ پوچھ سکوں۔‘‘
اگلی اتوار کو زمیندار کا پرچہ کھولا تو صفحہ اول پرعلامہ موصوف کی نظم تھی جس میں وہ مصرع ہے،
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
ہرچند میں نے واضح کردیا تھا کہ رازی کا فلسفہ خاصا پیش پا افتادہ ہے۔ دقیق ہرگز نہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے علامہ مرحوم کو ایسا ہی لگا۔
مدرسہ علمیہ شرطیہ موچی دروازے کے پرنسپل مرزا اللہ دتہ خیال نے جو چھ ماہ میں میٹرک اور دو سال میں بی۔اے پاس کرانے کی گارنٹی لیتے ہیں، ماہ نامہ ’’تصویر بتاں‘‘ میں پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا کہ علامہ مرحوم کو مثنوی مولانا روم کے بعض مقامات میں الجھن ہوتی تو مجھے یاد فرماتے تھے۔ ایک بار میں نے عرض کیاکہ آپ منشی فاضل کیوں نہیں کرلیتے۔ تمام علوم آپ کے لیے پانی ہوجائیں گے۔ بولے، ’’اس عمر میں اتنی محنت شاقہ نہیں کرسکتا۔‘‘ بعد میں، میں نے سوچا کہ واقعی شعرا تلامیذ الرحمن ہوتے ہیں۔ ان کو علم اور ریسرچ کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ تو ہم جیسے سرپھروں کا کام ہے۔ علامہ کے ایک جگری دوست رنجور فیروز پوری کو بھی لوگ گوشہ گمنامی سے نکال لائے۔ ایک بصیرت افروز مضمون میں آپ نے لکھا۔ ’’خاکسار نے اپنے لیے شاعری کو کبھی ذریعہ عزت نہیں جانا۔ بزرگ ہمیشہ نیچہ بندی کرتے آئے تھے۔ اس میں خدا نے مجھے برکت دی۔ جو ٹوٹا پھوٹا کلام بسبیل ارتجال کہتا تھا، علامہ صاحب کی نذر کردیتا تھا۔ اب بھی دیکھتا ہوں کہ ارمغان حجاز وغیرہ کتابوں میں سیکڑوں ہی مصرعے جو اس ہیچ مداں کج مج زباں نے علامہ کے گوش گزار کیے تھے، نگینوں کی طرح چمک رہے ہیں۔‘‘
حکیم عزرائیلی مصنف طب بقراطی نے نمائندہ ’’صبح و شام‘‘ کو انٹرویو دیا تو بتایا کہ ایک زمانے میں حکیم الامت کو بھی طب کا شوق ہوا۔ بندہ نسخہ لکھتا اور علامہ مرحوم پڑیاں بناتے اور جوشاندے کوٹتے چھانتے۔ اس دورن اگر فکر سخن میں مستغرق ہوجاتے تو کبھی کبھی ہاون دستے میں اپنے انگوٹھا پھوڑ بیٹھتے۔ دوسرے روز عقیدتمند پوچھتے کہ یہ کیا ہوا، تو فقط مسکرا کر انگشت شہادت آسمان کی طرف بلند کر دیتے۔
عام لوگوں کا یہ خیال تھا کہ علامہ مرحوم آخری سالوں میں کبوتر بازی اور پہلوانی نہیں کرتے تھے اور مینڈھے لڑانے کا شوق بھی ترک کر دیا تھا۔ صحیح صورت حال سے میاں معراج دین گوجرانوالوی نے رسالہ ’’غزل الغزلات‘‘ کے اقبال نمبر میں پردہ اٹھایا۔ پھر علامہ مذکور کے احوال میں اکثر آیا ہے کہ فلاں بات سنی اور آبدیدہ ہوگئے۔ فلاں ذکر ہوا اور آنسوؤں کا تر بندھ گیا۔ اس کا بھید بھی علامہ مرحوم کے ایک اور قریبی دوست ڈاکٹر عین الدین ماہر امراض چشم نے کھولا۔
اس زمرے میں ڈاکٹر محمد موسیٰ پرنسپل بانگ درا ہومیوپیتھک کالج گڑھے شاہو کو رکھئے۔ جنہوں نے علامہ اقبال مرحوم کی زندگی کے ایک اور غیر عروف گوشے کو بے نقاب کیا۔ اپنی کتاب ’’تسہیل الہومیوپیتھی‘‘ کے دیباچے میں رقمطراز ہیں۔ ’’لوگوں کا یہ گمان غلط ہے کہ ڈاکٹر اقبال فقط نام کے ڈاکٹر تھے۔ اس عاجز کا مطالعہ اتنا نہیں کہ ان کے شاعرانہ مقام پر گفتگو کر سکے۔ ہاں اتنا وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مرض کی تشخیص میں اپنے بعد میں نے انہی کو دیکھا۔ بعض اوقات دواؤں کے ضمن میں بھی ایسے قابل قدر مشورے دیتے کہ یہ عاجز اپنے تبحر علمی کے باوجود حیران رہ جاتا۔ شاعر تو ہمارے ہاں اب بھی اچھے اچھے پائے جاتے ہیں، میرے نزدیک علامہ مرحوم کی رحلت ہومیوپیتھی طب کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ میں مریضوں پر توجہ دیتا اور وہ ایک کونے میں بیٹھے حقہ پیتے رہتے۔ تاہم اس عاجز کے مطب کی کامیابی میں جو مایوس مریضوں کی آخری امیدگاہ ہے اور جہاں خالص جرمن ادویات بکفایت فراہم کی جاتی ہیں، ان کے نام نامی کا بڑا دخل تھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ آپ نے اپنی ایک مشہور تصنیف کا نام بھی عاجز کے مطب کے نام پر رکھا۔
فیض صاحب کے متعلق کچھ لکھتے ہوۓ مجھے تامل ہوتا ہے۔ دنیا حاسدانِ بد سے خالی نہیں۔ اگر کسی نے کہہ دیا کہ ہم نے تو اس شخص کو کبھی فیض صاحب کے پاس اٹھتے بیٹھتے نہیں دیکھا تو کون اس کا قلم پکڑ سکتا ہے۔ احباب پر زور اصرار نہ کرتے تو یہ بندہ بھی اپنے کوشۂ گمنامی میں مست رہتا۔ پھر بعض ایسی باتیں بھی ہیں کہ لکھتے ہوۓ خیال ہوتا ہے کہ آیا یہ لکھنے کے ہیں بھی کہ نہیں۔ مثلاً یہی کہ فیض صاحب جس زمانے میں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے، کوئی اداریہ اس وقت تک پریس میں نہ دیتے تھے جب تک مجھے دکھا نہ لیتے۔ جئی بار عرض کیا کہ ماشاء اللہ آپ خود بھی اچھی انگریزی لکھ لیتے ہیں لیکن وہ نہ مانتے اور اگر میں کوئی لفظ یا فقرہ بدل دیتا تو ایسے ممنون ہوتے کہ خود مجھے شرمندگی ہونے لگتی۔
پھر فیض صاحب کے تعلق سے وہ راتیں یاد آتی ہیں جب فیض ہی نہیں، بخاری ، سالک، خلیفہ عبد الحکیم وغیرہ ہم سبھی ہم پیالہ و ہم نوالہ دوست راوی کے کنارے ٹہلتے رہتے اور ساتھ ہی ساتھ علم و ادب کی باتیں بھی ہوتی رہتیں۔یہ حضرات مختلف زاویوں سے سوال کرتے اور یہ بندہ اپنی فہم کے مطابق جواب دے کر ان کو مطمئن کر دیتا۔ اور یہ بات تو نسبتاً حال ہی کی ہے کہ ایک روز فیض صاحب نے صبح صبح مجھے آن پکڑا اور کہا: ” ایک کام سے آیا ہوں۔ ایک تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یورپ میں آج کل آرٹ کے کیا رجحانات ہیں۔ اور آرٹ پیپر کیا چیز ہوتی ہے؟ دوسرے میں واٹر کلر اور آئل پینٹنگ کا فرق معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھمری اور دادرا کا فرق بھی چند لفظوں میں بیان کر دیں تو اچھا ہے۔” میں نے چاۓ پیتے پیتے سب کچھ عرض کر دیا۔ اٹھتے اٹھتے پوچھنے لگے ۔ ” ایک اور سوال ہے۔ غالب کس زمانے کا شاعر تھا اور کس زبان میں لکھتا تھا؟” وہ بھی میں نے بتایا۔ اس کے کئی ماہ بعد تک ملاقات نہ ہوئی۔ ہاں اخبار میں پڑھا کہ لاہور میں آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر ہو گۓ ہیں۔ غالباً اس نوکری کے انٹرویو میں اس قسم کے سوال پوچھے جاتے ہوں گے
اکثر لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ “نقشِ فریادی” کا رنگِ کلام اور ہے اور فیض صاحب کے بعد کے مجموعوں “دستِ صبا” اور “زندان نامہ” کا اور۔ اب چونکہ اس کا پس منظر راز نہیں رہا اور بعض حلقوں میں بات پھیل گئی ہے لہٰذا اسے چھپانے کا کچھ فائدہ نہیں۔فیض صاحب جب جیل چلے گۓ تو ویسے تو ان کو زیادہ تکلیف نہیں ہوئی لیکن کاغذ قلم ان کو نہیں دیتے تھے اور نہ شعر لکھنے کی اجازت تھی۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ ان کی آتش نوائی پر قدغن رہے اور لوگ انہیں بھول بھال جائیں۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں “تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ” فیض صاحب جب جیل سے باہر آئے تو سالم تانگہ لے کر سیدھا میرے پاس تشریف لے آۓ اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کہنے لگے۔ “اور تو سب ٹھیک ہے لیکن سوچتا ہوں میرے ادبی مستقبل کا اب کیا ہوگا؟” میں نے مسکراتے ہوۓ میز کی دراز میں سے کچھ مسودے نکالے اور کہا یہ میری طرف سے نذر ہیں۔ پڑھتے جاتے تھے اور حیران ہوتے جاتے تھے۔ فرمایا۔ ” بالکل یہی جذبات میرے دل میں آتے تھے لیکن ان کو قلم بند نہ کر سکتا تھا۔ آپ نے اس خوب صورتی نالے کو پابندِ نَے کیا ہے کہ مجھے اپنا ہی کلام معلوم ہوتا ہے۔ میں نے کہا: ” برادرِ عزیز! بنی آدم اعضاۓ یک دیگر اند۔ تم پر جیل میں جو گزرتی تھی، اسے میں یہاں بیٹھے بیٹھے محسوس کر لیتا رہا ورنہ من آنم کہ من دانم۔
بہر حال اب اس کلام کو اپنا ہی سمجھو بلکہ اس میں، میں نے تخلص بھی تمہارا ہی باندھا ہے اور ہاں نام بھی تجویز کیۓ دیتا ہوں۔ آدھے کلام کو “دست صبا” کے نام ست شائع کرو اور آدھے کو ” زندان نامہ” کا نام دو۔” اس پر بھی ان کو تامل رہا۔ بولے: ” یہ برا سا لگتا ہے کہ ایسا کلام جس پر ایک محبِ صادق نے اپنا خونِ جگر ٹپکایا ہو اپنے نام سے منسوب کر دوں” میں نے کہا: :فیض میاں! دنیا میں چراغ سے چراغ جلتا آیا ہے، شیکسپیئر بھی تو کسی سے لکھوایا کرتا تھا۔ اس سے اس کی عظمت میں کیا فرق آیا؟” اس پر لا جواب ہو گۓ اور رقت طاری ہو گئی۔
فیض صاحب کی ایک اور بات میں نے دیکھی۔ وہ بڑے ظرف کے آدمی تھے۔ ایک طرف تو انہوں نے کسی پر یہ راز افشا نہیں کیا کہ یہ مجموعے ان کا نتیجۂ فکر نہیں۔ دوسری طرف جب لینن انعام لے کر آۓ تو تمغہ اور آدھے روبل میرے سامنے ڈھیر کر دیۓ کہ اس کے اصل حق دار آپ ہیں۔ اس طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں۔ بیان کرنے لگوں تو کتاب ہو جاۓ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا نمود و نمائش نے اس بندے کی طبیعت سے ہمیشہ نفور رہی ہے۔ و ما توفیقی الا با اللہ
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اپریل 17th, 2018
زمرہ: ابنِ انشاء تبصرے: 2