کرکٹ کے پرمزاح واقعات «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • کرکٹ کے پرمزاح واقعات

    مارٹن کرو کا چند روز قابل انتقال ہوا ہے۔ ان کے بڑے بھائی جیف کرو بھی بین الاقوامی کھلاڑی رہ چکے ہیں اور دونوں بھائیوں نے بیک وقت بھی کئی ٹیسٹ میچوں میں نیوزی لینڈ کی نمائندگی کی۔ ایک موقع پر سری لنکا میں جب دونوں بھائی میدان میں تھے کہ اچانک ایک کوا میدان میں آ گیا۔ میچ کا احوال بتانے والے نے فورًا کہا ‘اس وقت میدان میں تین کرو(کوے) موجود ہیں’۔

    سنیل گواسکر ایک بہت زبردست اوپنر تھے۔ 1987 کی پاک بھارت سیریز منعقدہ بھارت میں انھوں نے دو تین بہت ہی زبردست اننگز کھیلیں۔ رمیض راجہ اس سیریز میں پاکستان کی جانب سے اننگز کا آغاز کرتے جبکہ فیلڈ میں شارٹ لیگ پر کھڑے ہوتے تھے بلے باز کے بالکل قریب۔ پاکستان کے کپتان عمران خان تھے اور اپنی بالنگ کے عروج پر تھے۔ رمیض راوی ہیں کہ عمران دور سے بھاگ کے آتے آف سٹمپ پر گیند کرتے سنیل اسے آرام سے چھوڑ دیتے۔ گواسکر کو اپنی آف سٹمپ کا بہت ہی زبردست اندازہ تھا۔ معمولی سی بھی گیند باہر ہوتی تو چھوڑ دیتے۔ عمران خان کو انھوں نے بالکل مایوس کر دیا۔ رمیض کہتے ہیں کہ عمران بال کرا کے میری طرف دیکھتے اور کہتے ‘ دیکھو یہ ہوتی ہے بیٹنگ۔ تم بھی ایسے ہی بیٹنگ کیا کرو’۔

    سنیل گواسکر بہت سست بیٹنگ کرتے تھے۔ وہ تیز بیٹنگ کر لیتے ضرورت پڑنے پر مگر ایسا کرتےکم ہی تھے۔ 1975 میں کرکٹ کے ابتدائی عالمی کپ میں جب انگلستان نے بھارت کے خلاف تین سو سے زائد رنز کئے توجواب میں گواسکر نے 174 بالوں پر 34 ناٹ آئوٹ کیے تھے اور پورے ساٹھ اوورز بیٹنگ کی  تھی۔  ایک میچ میں دوران کمنٹری کہنے لگا کہ ‘آج کل جیاسوریہ اور آفریدی چالیس، پینتالیس گیندوں پر سینکڑا بنا لیتے ہیں، اتنی بالوں پر میں تو بمشکل کھاتا کھول پاتا تھا۔’

    1990 میں آسٹریلشیا کپ میں پاکستان بھارت کا میچ جاری تھا اور ہم لوگ ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے۔ نوجوت سنگھ سدھو بیٹنگ کرنے آئے تو سکرین پر اب کا نام لکھا آیا’این ایس سدھو’۔ ہم نے انھیں پہلی بار دیکھا تھا تو ماموں سے  پوچھا کہ   این ایس سے کیا بنتا؟ ہمارے ماموں کچھ دیر سوچتے رہے جب یاد نہ آیا تو کہا۔ ‘نان سینس سدھو’ اور ہمارا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

    وسیم راجہ رمیض راجہ کے بڑے بھائی تھے اور اتفاق سے دونوں بھائیوں نے ستاون ستاون ٹیسٹ کھیلے۔ سنیل گواسکر ان کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔1985 میں آسٹریلیا میں عالمی چیمپئن شپ منعقد کی گئی جسے منی ورلڈ کپ بھی کہا گیا۔ اس چیمپئن شپ کا فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری تھا اور بھارت نے پاکستان کے نو کھلاڑی آئوٹ کر لئے تھے۔اگر ہم اگلی وکٹ لے لیتے تو ہمیں کھانےسے قبل کچھ دیر بیٹنگ کرنی پڑتی اور بطور کپتان میں یہ نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے طز وقتی بائولرز لگا دیئے تا کہ وقت گزر جائے۔ وسیم راجہ کچھ دیردیکھتے رہے۔ جب  دو تین اوورز یہ ہوتا رہا تو انھوں نے گواسکر سےکہا کہ زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ آپ خود ہی گیند بازی کر لو’۔

    اسی عالمی چیمپئن شپ کے سیمی فائنل میں رمیض راجہ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنی پہلی نصف سینچری بنائی تھی اور مردِ میدان قرار پائے تھے۔ پاکستان واپس آئے تو ایک ٹی وہ پروگرام میں ان کا انٹرویو تھا۔ ان سے میزبان نے پوچھا کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلی نصف سینچری مکمل کرنے پر آپ کے کیا احساسات تھے تو رمیض راجہ نے جواب دیا۔’ احساسات کا تو اندازہ نہیں کہ میں اس وقت اپنی ہڈیاں گن رہا تھا۔’

    ویوین رچرڑز کل پونسٹھ برس کے ہوئے۔ وہ ایک انتہائی نڈر بلے باز تھے اور بولرز پر حاوی ہونے کا جو فن ان کے پاس تھا وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی ہیلمٹ نہیں پہنا اور اس کے باوجود تمام تیز رفتار بائولرز انھیں بائونسر کرانے سے ڈرتے تھے کیونکہ اس کا واضح مطلب چوکا یا چھکا تھا۔ ایسے ہی ایک واقعہ کے متعلق رمیض راجہ بتاتے ہیں۔’ میرے کرکٹ کا ابتدائی دور تھا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان میں تھی اور ہم لوگ نیٹ پریکٹس کر رہے تھے۔  عمران خان اپنی بائولنگ کے عروج پر تھے۔ عمران خان گیند بازی کر رہے تھے نیٹ میں۔ وہ اپنے جوتوں کے تسمے باندھ رہے تھے کہ جاوید میانداد ان کے پاس آئے اور کہا’ عمران کل جب رچرڈز بلے بازی کرنے آئے تو آتے ہی دو تین بائونسرز کرا دینا’۔ رمیض کہتے ہیں کہ عمران نے اوپر دیکھا اور کہا کہ پاگل ہو گئے ہو کیا؟ وہ مجھے چھکے مارے گا۔

    ایک مرتبہ ٹیم میٹنگ جاری تھی۔ اس میں یہ طے کیا جانا تھا کہ ویوین رچرڈز کو آئوٹ کرنے کی حکمت عملی بنانی تھی۔ سب اپنی اپنی رائے دے رہے تھے مگر عمران خان خاموش تھے۔ جب سب نے رائے دے دی اور کسی بات پر اتفاق نہ ہو سکا تو سب نے کہا کہ عمران آپ خاموش ہیں۔ آپ بھی کوئی تجویز دو، عمران خان نے کہا کہ بہت ہی آسان ہے۔ ڈیڑھ سو کرنے دو، خود ہی آئوٹ ہو جائے گا۔

    انضمام الحق 1992 کے ورلڈ کپ سے پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں شریک ہوئے۔ میزبان نے ان سے پوچھا کہاب آپ ایک بین الاقوامی کھلاڑی ہیں۔ اب تو یقینًا آپ کے والدین بہت خوش ہوں گے۔ بچپن میں آپ کے والدین آپ کے متعلق کیا سوچتے تھے کہ اس کو کیا بننا ہے؟ انضمام نے نہایت معصومیت سے جواب دیا۔’پڑھائی میں جو میری حالت تھی، اسے دیکھ کے تو کچھ بھی نہیں سوچتے تھے’۔

    سعید انور نے بھارت کے خلاف 194 رنز کی اننگز کھیلی۔اس کے متعلق آپ سب آگاہ ہیں۔ جب وہ پاکستان آئے تو ان کے اعزاز میں ایک تقریب بھی ہوئی جس میں عاقب جاوید بھی شریک تھے۔عاقب جاوید سے میزبان نے پوچھا کہ آپ سعید انور کے متعلق کوئی واقعے سے ہمیں بھی آگاہ کریں۔ عاقب جاوید نے کہا کہ سعید انور اگر اجازت دیں تو بتا سکتا۔ سعید انور نے کہا بسم اللہ۔عاقب نے کہا۔’ 1989-90 میں ہم لوگ آسٹریلیا گئے وہ میرا اور سعید انور کا پہلا دورہ تھا۔ ہم آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ تین ملکی سیریز میں شامل تھے۔ سعید انور اس زمانے کے حساب  سےانتہائی جارحانہ بیٹنگ کرتے تھے۔ لیکن وکٹ پر نہیں ٹھہرتے تھے۔ بیس بالوں پر پچیس تیس رنز بنا کر آئوٹ۔ ایک میچ سے پہلے عمران خان نے سعید سے کہا کہ آج تم نے بالکل شاٹ نہیں کھیلنی پہلی تیس بالیں۔ سعید انور جی بھائی جی بھائی کرتے رہے۔ جب ان کی باری آئی تو پہلی ہی بال پر شارٹ کھیلا اور آئوٹ ہو گئے۔ عمران خان نے اس پر کہاکہ باندر ہووے تے چھالاں نہ مارے(یعنی اچھل کود بندر کی فطرت میں شامل ہے)۔

     

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔