بچپن سے ہم لوگوں کے انٹرویو پڑھتے اور دیکھتے آئے ہیں۔ پڑھتے ظاہر ہے کہ اخبارات و رسائل میں تھے اور ہیں جبکہ دیکھنے کا وسیلہ ٹیلی ویژن
ہوتا تھا۔ ان انٹرویوز میں مختلف شعبوں کے ماہرین سوالات کے جوابات دیا کرتے اور لوگ ان کی حیات کے مختلف پہلوئوں سے آگاہی حاصل کرتے اور ان کی کامیابیوں کے راز جانتے تھےمگر ان پر عمل کرنے کی کوشش کسی نے نہیں کی کہ کہیں واقعی کامیاب نہ ہو جائیں۔ ہم جب وہ انٹرویو دیکھتے تھے تو ہماری خواہش تھی کہ کبھی ہمارا بھی انٹرویو ہو۔ اخبارات و رسائل میں تو ہم سوال پڑھتے ہوئے خیالوں ہی خیالوں میں خود بھی یہ سوچ کر جواب دے رہے ہوتے تھے کہ ہم جب انٹرویو دیں گے تو اس سوال کا یہ جواب ہو گا۔
وقت بدلا اور ہم بڑے ہو گئے۔ تعلیم و روزگار کے مسائل میں الجھے اور یوں انٹرویوز اور شخصیات سے دور ہو گئے۔ جب ہم نے لکھنا شروع کیا تو دوست لوگوں کے ادبی صفحوں پر بھی شمولیت اختیار کی۔ان صفحات پر متعلقہ ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات کے علاوہ سب کچھ مل جاتا ہے۔ جن میں انٹرویوز بھی ہوتے ہیں اور یہ اکثر اراکینِ صفحہ کے ہی ہوتے تھے مگر کچھ عرصے سے اپنے گروپ کے باہر کی معروف شخصیات کو بھی مدعو کیا جانے لگا ہے۔
سباس گل کے گروپ میں ایک بار یہ ہوا کہ انھیں کوئی بھی قابل ذکر شخصیت نہیں ملی انٹرویو کے لئے دستیاب کہ سب کی پہلے سے مصروفیات طے تھیں۔ ہماری کوئی ہماری طرح ہمہ وقت دستیاب ہو بھی نہیں سکتا۔ انھوں نے ہمیں حکم دیا کہ اگلے ہفتے آپ کا انٹرویو ہے۔ ہم نے بہت بہانے تراشے کہ بہت کام ہے امتحانات ہو رہے ہیں، پاکستان جانے کی تیاری کرنی ہے، ہمیں کون جانتا ہے مگر کوئی بھی عذر مسموع نہ ہوا۔ یہ سب بس اوپر اوپر سے تھا ورنہ ہمارے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے کہ ایک ممتاز مصنفہ و شاعرہ نے ہمیں اس اعزاز کے قابل سمجھا ہے ۔یوں بھی ہم سباس گل کو انکار نہیں کر سکتے سو دل میں چڑھ جا بچہ سولی کا ورد کرتے ہوئے حامی بھر لی کیونکہ اس انٹرویو دینے کا ہمیں کوئی خاص تجربہ نہیں۔
فیس بک پر انٹرویو ٹیلی ویژن اور اخبارات و رسائل سے مختلف اور کہیں کٹھن ہوتا ہے۔ اخبارات و رسائل میں آپ پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ ان سوالوں کے جواب نہ چھاپے جائیں تو ان کا نمائندہ ان سوالوں کو ‘آف دی ریکارڈ’ رکھتا ہے۔ ٹی وی پر بھی آپ میزبان کو پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ جناب عمر، تنخواہ، پرانے معاشقے اور دیگر ایسے سوالات سے پرہیز کیجیے گا اور چونکہ ان دونوں ذرائع میں آپکا واسطہ محدود افراد سے پڑتا ہے تو آپ ان سےنبٹ سکتے ہیں یعنی کہ معاملہ طے کرنا آسان ہوتا ہے۔ فیس بک پر سوال کوئی بھی کر سکتا ہے جو اس صفحے کا رکن ہو۔ پھر سوالات کی بھی پابندی نہیں،جتنے مرضی پوچھے۔ صفحے کا منتظم پہلے تو ممبران کو اکساتا ہے کہ آج آپ کی محفل میں فلاں شخصیت ہے، ان سے جی بھر کے سوال کیجیے پھر انٹرویو دینے والے کی ڈھارس بھی بندھاتا ہے کہ تمام ممبران تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سوال کریں اور اگر کسی سوال کا جواب صاحبِ انٹرویو نہ دینا چاہے تو اصرار نہ کریں۔ یہ نوٹ پڑھ کر ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے ممبران جو بھی سوال پوچھیں ان کا حق ہے مگر ہم کسی کا بھی جواب نہیں دیں گے کہ ہمیں یہ اختیار آپ نے ابھی دیا ہے۔اس پر ہمیں ایسا گھورا گیا جیسے بکرے کو قصائی گھورتا ہے۔ بندے کو نہ چاہتے ہوئے بھی جواب دینا پڑتے ہیں۔ آپ کسی کے سوال کو ذاتی کہہ کر ذرا جواب نہ دینے کا سوچیں، وہ ممبر اور اس کے سب ساتھی نہ صرف ناراض ہوں گے بلکہ آپ کو مغرور اور خودپسند کا لقب تک بغیر مشقت کے مل جائے گا۔
انٹرویو دے کرہم نے جانا کہ انٹرویو کے لئے اپنے میدان کا ماہر ہونا کافی نہیں بلکہ اس کے بنا بھی گزارا چل سکتا ہے مگر دیگر شعبوں بالخصوص فلسفے پر آپ کی گرفت مضبوط ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ آپ کو سیاست سے بھی دلچسپی ہونی چاہیے تا کہ بوقت ضرورت آپ سیاسی بیان دے سکیں اور اگر کچھ غلط ہو جائے تو کہہ سکیں کہ میرا مطلب یہ نہ تھا یا یہ کہ میرا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ ہم سے مزاح کے بارے میں تو شاید ہی کوئی سوال کیا گیا ہو مگر اس کے علاوہ شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس پر ہماری رائے نہ لی گئی ہو۔
قصہ مختصر یہ انٹرویو شروع ہوا تو پہلا سوال ہی چڑانے والا تھا کہ آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ ایک نالائق طالب علم کو بغیر کورس بتائے اگر امتحان میں بٹھا دیا جائے تو جیسا اسے محسوس ہو گا بالکل ویسا ہی ہمیں محسوس ہو رہا تھا۔ اس کے بعد ہمیں اپنے دور کا ارسطو، بقراط یا پھر علامہ اقبال سمجھتے ہوئے سوال داغا گیا کہ آپ دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ہمیں تو اس کا کوئی سر پیر نہیں سمجھ آیا سو کہہ دیا کہ ہم تو پانچ نمبر کی عینک سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ زندگی نے کیا سکھایا؟ ہم اتنے کند ذہن ہیں کہ ہمیں تو اچھے بھلے لائق استاد کچھ سکھا نہیں پائے فیس لے کر بھی تو زندگی کی کیا مجال۔ مگر کوئی سیاسی جواب ہی دیا جو اب ذہن میں نہیں۔ زندگی کی تعریف کریں؟ یہ سوال ایسا ہی تھا جیسے عمران خان کو کہا جائے کہ میاں صاحب کی تعریف کریں مگر ہم نے چوں چراں کیے بغیر جواب دے دیا۔ ایک انتہائی مشکل سوال تھا کہ انسان کو پرکھنے کا پیمانہ کیا ہے؟ بلاشبہ ہمارا تعلق انجنیئرنگ سے ہے اور پیمانوں سے ہمارا واسطہ بھی پڑتا ہے مگر ایسا کوئی پیمانہ ہماری نظر سے تو نہیں گزرا۔
دوستوں سے ہم نے کہہ رکھا تھا کہ ذرا آسان سوال کرنا۔ ہم سے پہلا کلمہ سن لینا یا پاکستان کا دار الحکومت پوچھ لینا یا زیادہ مشکل ہو تو ہماری نوکری یا سعودی عرب کا دارالخلافہ پوچھ لینا کہ اتنے مشکل سوالات پر عامر لیاقت حسین اور فہد مصطفٰی ‘کیو موبائل’ دے دیتے ہیں مگر دوستوں کو تو ایسا موقع اللہ دے۔ پہلا سوال جو ہمارے دوستوں کی طرف سے آیا کچھ یوں تھا کہ آپ کس خاتون کے فین ہیں؟ سوال کرنے والے کی شرارت ہم بھانپ چکے تھے۔ اب کسی ایک کا نام لینا تو دوسروں سے تعلقات خراب کرنے کا باعث ہو سکتا تھا تو مادام کیوری ہماری مدد کو اتریں۔ پھر ہم سے ہمارے عشقوں کی مد میں پوچھا گیا کہ کتنے کیے اور ان کی کامیابی کا کیا تناسب رہا؟ اب اس عمر میں سب یاد رکھا تو ایسے ہی کارِ دشوار ہوتا اور ہمیں اپنے حافظے پر کبھی فخر نہیں رہا۔ اس پر ایک اور ستم ظریف گویا ہوئے کہ عشق تو کامیاب نہیں ہوئے یہ بتائیں کہ ماموں کتنے بچوں کے بنے۔
محبت سے ابھی کہاں جانے والے تھے ہمارے دوست۔ ایک اور سوال آیا کہ کسی محبوبہ سے اظہارِ محبت کرنے کا اتفاق ہوا؟ اگر ہاں تو کن الفاظ میں کیا اور اس وقت کیا لمحات، کیا کیفیت اور کیا احساسات تھے؟ ہم نے اس کا جواب نفی میں دیا اور سوچا کہ اگر اثبات میں جواب ہوتا تو کتنے مزید سوال نکلتے۔ سچ ہے کہ ایک ناں اور سو سکھ۔ دوستوں کے متعلق تو ہم بس یہی کہہ سکتے
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ہمارے ایک مداح نے تو ہم سے ناول لکھنے کا مطالبہ کر بھی دیا اور تاریخِ اشاعت بھی مانگ لی۔
ہم ابھی سوالات کے جوابات دے رہے تھے کہ ایک صاحب’ محمد کلیم ‘ کے نام سے واارد ہوئے۔ انھوں نے اپنے نام کی لاج رکھی اور پورے بیالیس سوال ایک ہی پوسٹ میں لکھ گئے۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نام کے آخر میں ‘ہ’ لگا کر اس کو تانیث نہیں کیا جاتا ورنہ سوالات کی تعداد کتنی ہوتی۔ ان کے بیالیس سوالوں کے جواب دے کر ابھی ہم سانس لے رہے تھے کہ ان کی ایک پوسٹ آئی کہ ایڈمن کیا میں مزید سوالات کر سکتا ہوں؟ ہم نے انھیں منع کیا اور ایک لطیفہ بھیجا۔ نکاح کی تقریب تھی۔ مولوی صاحب نے کہا کہ کسی کو اس شادی پر اعتراض ہے تو بتائے ورنہ میں نکاح پڑھاتا ہوں۔ ایک آدمی نے کہا کہ مجھے اعتراض ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ تم چپ کرو، تم دولہا ہو’۔ ہم نے انھیں یہ بھیج کر کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ مولوی صاحب والا سلوک کر رہے ہیں تو ان کے پلے ہماری بات پڑ گئی اور ہماری جان چھوٹی۔