تحریر: ابنِ ریاض
سولہ اگست کو دو ٹیسٹ میچوں کا فیصلہ ہوا۔جمیکا ٹیسٹ اگرچہ وہاں کے معیاری وقت کے مطابق پندرہ اگست کو اختتام پذیر ہوا لیکن پاکستان میں سولہ تاریخ شروع ہو چکی تھی۔ پہلے ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو ایک وکٹ سے زیر گیا اوربعد ازاں برطانیہ میں بھارت نے آخری روز کے آغاز پر ایک مشکل صورت حال کا شکاار ہونے کے باوجود برطانیہ کو دھول چٹادی۔ جب ٹیمیں ہارتی ہیں تو ظاہر ہے ان پر تنقید بھی ہوتی ہے۔ ان کی شکست کی وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں۔ جیسے پاکستان اور انگلینڈ دونوں کا ہی ٹاپ آرڈر ناکام ہوا اور اس نے مناسب رنز نہیں کیے۔ انگلینڈ کی پہلی باری میں روٹ نے عزت رکھی ورنہ صورت حال مزید مخدوش ہو جاتی۔ پاکستانی فیلڈرز نے تو کم سکور والے میچ میں تین کیچ بھی چھوڑدیئے۔ ایک آؤٹ پر ریویو ہی نہیں لیا۔بلاشبہ یہ وجویات ٹھیک ہیں مگر دونوں میچوں میں فرق نچلے درجے کے بلے بازوں یعنی ٹیم میں گیند باز کی حیثیت سے موجود کھلاڑیوں کی بلے بازی کا فرق ہے۔
ایک ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں جن میں کچھ گیند باز ہوتے ہیں اور کچھ بلے باز۔بلے بازوں کے لئے گیند کروانا ضروری نہیں ہوتا لیکن گیند بازوں کو بہرحال بلے بازی بھی کرنی ہوتی ہے اور اکثر میچوں میں ان گیند بازوں کے رنز میچ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جمیکا ٹیسٹ کی بات کرتے ہیں۔پہلی اننگز میں پاکستان کی چھٹی وکٹ ایک سو چوراسی پر گرتی ہے جب فہیم اشرف رن آؤٹ ہوتے ہیں اورپھر ٹیم دو سو سترہ پر ڈھیر ہو گئی۔ یعنی آخری چار وکٹوں نے مجموعی طور پر تینتیس رنز جوڑے۔ جواب میں ویسٹ انڈیزکے بھی سوپر پانچ آؤٹ تھے پھر ان کی چھٹی وکٹ ایک سو چھپانوے پر گری جب ہولڈر آؤٹ ہوئے اور بعد ازاں ٹیم دو سو ترپن پر آؤٹ ہوئے۔گویا آخری چار وکٹوں نے ستاون رنز کا اضافہ کیا۔ یوں نچلے بلے بازوں کی وجہ سے لیڈ چھتیس تک جا پہنچی جو کہ پندرہ بیس سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ دوسری اننگز کی بات کریں تو پاکستان کی چھٹی وکٹ ایک سو اڑسٹھ پر گری اور پوری ٹیم دو سو تین پر آؤٹ ہو گئی ۔ گویا آخری چار وکٹوں کا مجموعہ پینتیس رنز جس میں سے اٹھائیس حسن علی کے۔ اس میں سے چھتیس کی لیڈنکل گئی تو ہدف ملا ایک سو اڑسٹھ کا۔ ویسٹ انڈیز کی پانچویں وکٹ بانوے پر گری، چھٹی ایک سو گیارہ پر اور ساتویں ایک سو چودہ پر۔ گویا چون رنز اور محض تین وکٹیں اور وہ رنز انھوں نے دو وکٹوں پر بنا لیے۔
ادھر بھارت کی آخری روز کے آغاز پر ایک سو چون کی مجموعی برتری تھی اور چھ وکٹیں گر چکی تھیں۔ آدھ گھنٹے تک دو مزید گر چکی تھیں اور برتری ابھی دو سو تک بھی نہ پہنچی تھی لیکن پھر شامی اور بمرا نے بٹنگ سنبھال لی۔ یہ نہیں کہا کہ ہمارا کام بیٹنگ کرنا نہیں ہے ہم تو بالر ہیں۔میچ انھوں نے بیٹنگ سے بنایا اور پھر بالروں نے ہی ختم بھی کیا اسے۔ اس کے برعکس انگلینڈ کے تمام کھلاڑیوں ماسوائے کپتان روٹ کے پاکستانیوں جیساہی کھیل پیش کیا اور انجام بھی وہی پایا۔
تاریخ بھری پڑی ہے کہ میچوں کا فیصلہ گیند بازوں کے بنائے ہوئے رنز کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ 1975ء کے عالمی کپ میں اگر ڈیوڈ مرے اور اینڈی رابرٹس کی پاکستان کے خلاف آخری وکٹ کی پینسٹھ رنز کی پارٹنر شپ نہ ہوتی تو عالمی کپوں کا نقشہ مختلف ہوتا۔ اسی عالمی کپ کے سیمی فائنل میں گیری گلمور چودہ رنز دے کر چھ وکٹیں لے کر انگلینڈ کی بساط ترانوے رنز پر لپیٹ دیتا ہے لیکن جب آسٹریلیا کی بھی جواب میں چھ وکٹیں اڑتیس پر گر جاتی ہیں تو اسے اٹھائیس رنز بھی بنانے پڑتے ہیں۔ 1986ء میں آسٹرلیشیا کپ کے فائنل میں میانداد کا چھکا سب کو یاد ہے لیکن اسی میچ میں عبدالقادر نے انتہائ اہم اور تیز چونتیس رنز بنائے تھے۔ نہرو کپ کے فائنل کو وسیم اکرم ختم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ انیس سو اسی کی دہائی میں آپ ویسٹ انڈیز کےاوپر کے بلے باز نکال لیتے تھے تو ڈیوجن،ہارپر اور مارشل گلے پڑ جاتے تھے۔ نوے کی دہائی میں اوول ٹیسٹ وسیم اور وقار بلے سے جتواتے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ ایک وکٹ سے جیتا پاکستان لیکن انضمام کا ساتھ نچلے بلے بازوں بالخصوص مشتاق نے ہی دیا۔ آسٹریلیا سے ہماری نحوست 1999ء کے برسبین ٹیسٹ سے شروع ہوئی اور اس میں شین وارن نے اس وقت اکیاسی رنز بنا دیئے جب پاکستان میچ میں واپسی کرنے ہی والا تھا۔ 1999ء کا ہی کلکتہ ٹیسٹ پاکستانیوں کو شعیب کی یارکرز کی وجہ سے یادہے لیکن بہت کم لوگوں کو یاد ہے کہ پہلے روز پاکستان کے چھبیس پر چھ آؤٹ تھے اورپھر نجلے بلے بازوں نے فائٹ بیک کا آغاز کیا تھا۔ 2005ء کی ایشز کا کافی ذکرہوا اور اس میں بریٹ لی اور کاسپرووک کی شراکت دیکھیں دوسرے ٹیسٹ میں یا تیسرے میں بریٹ لی اورمیکگراتھ کا آخری چاراوور روکنا دیکھیں۔ 2010ء کا سڈنی ٹیسٹ ہمیں مائیکل ہسی پر کامران اکمل کی مہربانیوں کی وجہ سے یاد ہے لیکن ہم بھول گئے ہیں کہ اگر پیٹر سڈل ساتھ پینتالیس نہ کرتا تو یہ مہربانیاں بھی کسی کام کی نہیں تھیں۔ پاکستان کی بہترین ٹیم نوے کی دہائی کی مانی جاتی ہے۔ اس میں ہمارے نچلے بلے باز دیکھ لیں۔ نناوے کےعالمی کپ کو اٹھا کر دیکھ لیں کہ وسیم معین اور اظہر کیسے میچ کا پانسہ پلٹ دیتے تھے۔ دور کیوں جاتے ہیں چند ماہ قبل کی پاکستان جنوبی افریقہ ٹیسٹ سیریز دیکھ لیں۔ اس میں فرق ہی نعمان علی اور حسن علی کے رنز ہیں۔
موجودہ دور میں ہمارے نچلے بلے باز چلتی پھرتی وکٹیں ہیں۔ اور نہیں تو انھیں ثقلین مشتاق جیسا دفاع کرنا ہی آ جائے تو اس سے نہ صرف بلے بازوں پر دباؤ کم ہو گا بلکہ مخالف ٹیم کو میدان میں زیادہ دیر تک رکھ کر تھکایا بھی جا سکے گا جس کے اثرات میچ کے اختتامی دنوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے بلے باز بھی ایسے نہیں کہ کبھی دو چار اوورز گیند ہی کرا لیں۔کائل میئرز کو دیکھ لیں اس نے پیئر لیامیچ میں لیکن پھر بھی اہم وکٹیں لے کر میچ میں اپنا حصہ ڈالا۔ روٹ بھی کچھ اوور کروا لیتا ہے۔ نوے کی دہائی کی پاکستانی ٹیم میں عامر سہیل اور سلیم ملک بوقت ضرورت یہ فریضہ سر انجام دیتے تھے بلکہ عامر سہیل نے تو عالمی کپ کے فائنل میں کوٹے کے دس اوورز پورے کروائے تھے۔ اب ہمارے بلے بازوں سے بالنگ نہیں ہوتی اور گیند بازوں سے بیٹنگ۔ اس صورت میں پھر ہمارے تین بلے بازوں اور تین گیند بازوں کو عالمی رینکنگ میں ٹاپ دس میں ہونا چاہیے جو کہ مستقبل قریب میں بھی ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ کرکٹ ایک ٹیم گیم ہے اور اس میں جیت کے امکانات تب ہی روشن ہوتے ہیں جب نصف کے قریب کھلاڑی اپنی اوسط کارکردگی یا اس سے بہتر کا مظاہرہ کریں اور یہی ان دنوں ہمارا مسئلہ ہے۔ اس کو بہتر کیے بغیر فائنل کا خواب محض خواب ہی رہے گا اور شرمندہ تعبیر ہونے کی کوئی صورت نہیں۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اگست 18th, 2021
زمرہ: صفحہ اول, کرکٹ تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: cricket, england, india, Pakistan, west indies