تحریر: ابنِ ریاض
ہمارے لڑکپن تک پاکستان میں ایک ہی ٹی وی چینل یعنی سرکاری ٹی وی تھا ۔ علاوہ ازیں دیہات میں ریڈیو بھی عام تھا۔ ٹی وی پر سرکار کا مکمل قابو تھا ۔ ان اداروں پر پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ تھے جنھوں نے اپنی عمریں اپنے اپنے شعبوں کو دی تھیں بالخصوص نیوز کاسٹر اور پروگراموں کے میزبانوں کی اردو اتنی خوبصورت شستہ اور رواں ہوتی تھی کہ دل میں بے اختیار خواہش انگڑائی لیتی تھی کہ کاش ایسی اردو ہم بھی بول سکیں۔
اب جدید دور میں انگریزی کو اردو پر پاکستان میں بھی واضح فوقیت حاصل ہے۔ پرائیویٹ چینلز نے جہاں ہماری ثقافت کا جنازہ نکالا ہے وہیں اردو کی ٹانگیں توڑنے میں بھی پیش پیش ہیں۔ نجی چینل والے محض شکل و صورت دیکھتے ہیں۔انھیں چینل سے رقم کمانا مقصود ہے ناکہ اردو کی ترویج اور ملکی ثقافت کو اجاگر کرنا ۔ اس کے علاوہ انگریزی ہمارے حواس پر یوں چھا چکی ہے کہ اردو میں ہونے والی عام تبدیلیاں و غلطیاں بھی ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔کچھ تو ایسی فاش غلطیاں ہوتی ہیں کہ ممدوح ان پر ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ کرے تو جیت کر چینل بند کروا سکتا ہے۔ ان پر رونا چاہیے لیکن کیا کیا جائے باوجود کوشش کے ہنسی لبوں سے رخصت نہیں ہوتی۔کچھ واقعات پیش خدمت ہیں جن میں ہم نے بریکٹ میں اصل لفظ لکھا ہے تاکہ ہمارے قارئین کو زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔
کچھ عرصہ پہلے کراچی میں کتب میلہ منعقد ہوا۔ اس میں ملک کے معروف ادیبوں اور دانش وروں نے شرکت کی۔ جب یہ خبر ایک چینل کے ہاتھ لگی تو اس کی دلکش و خوبصورت نیوز اینکر نے یہ خبر یوں دی۔’ کتب میلے میں ملک کے ‘نام نہاد'(نامور)ادیبوں نے شرکت کی۔’ ہم تو ادیب نہیں ہیں لیکن خبر سنتے ہی دو مرتبہ شکرادا کیا۔ پہلا تو اس بات پر کہ ہم ادیب نہیں اور دوسرا اس بات پر کہ ہم وہاں موجود بھی نہیں تھے ورنہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس سکتا تھا۔
اخبارات بھی اس سلسلے میں اپنا کردار مقدور بھر ادا کرتے ہیں۔ ایک شاعرہ کی کتاب ‘طواف عشق’ کے نام سے شائع ہوئی۔اسکی خبر اخبار میں لگی تو کتاب کا نام ‘طوائفِ عشق’ ہو چکا تھا۔ ممکن ہے کہ ایڈیٹر صاحب عشق کو طوائفوں کا کام سمجھتے ہوں تاہم یہ ان کی ذاتی سوچ ہے۔
پچھلے برس قائداعظم کے یوم پیدائش پر ہمیں معلوم ہوا کہ قائد اعظم کا تینتالیسواں(ایک سو تینتالیسواں) یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔ قائد اعظم ہم سے عمر میں زیادہ بڑے نہیں اس کا اندازہ ہمیں اسی روز ہوا۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ صفر کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی لیکن نیوز کاسٹر نے ایک کو بھی در خور اعتناء نہ جانا۔
علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر ان کو شاعر مشرق قرار دیتے ہوئے ایک میزبان انھیں یوں خراج تحسین پیش کر رہا تھا کہ اقبال نے قوم کو ‘خود غرضی'(خودداری) کا درس دیا۔ علامہ اقبال کی روح کو خوش ہونا چاہیے کہ کم از کم قوم ان کی اس بات پر تو عمل پیرا ہے ہی۔
ایک پروگرام میں میزبان نے شاعری کا مقابلہ رکھا ہوا تھا۔مہمانوں کو بلایاگیا اور ان سے فرمائش کی گئی کہ اپنی اپنی ‘پسماندہ(پسندیدہ) شاعری’ سنائیں۔ہمیں افسوس ہوا کہ ہم وہاں نہیں تھے ورنہ پہلا انعام ہمیں ہی ملتا۔ ایک زمانے تک ضلع اٹک پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں شمار تھا۔ ڈومیسائل میں ہماری پیدائش کا ضلع اٹک ہے۔ اس رو سے ہماری شاعری تو پھر پیدائشی ہی پسماندہ ہوئی۔
کچھ عرصہ قبل ہماری ایک وزیر کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔دل کاہی کوئی مسئلہ تھا۔ثابت ہوا کہ ہمارے وزراء بھی دل رکھتے ہیں۔ بہرحال انھیں بغرض علاج اسلام آباد کے ایک سرکاری ہسپتال میں لے جایا گیا۔ جہاں ان کا معائنہ ہوا اور ایک نجی چینل کے نیوز ایڈیٹر نے یہ خبر کی سرخی کچھ یوں لکھی۔۔۔۔’ شعبہ امراض کلب (قلب) کے ڈاکٹرز کا وزیر ۔۔۔۔۔۔۔ کا طبی معائنہ ‘۔۔۔ بلاشبہ انسان حیوان ناطق ہے مگر کیا ضروری ہے کہ علاج کے لئے بھی حیوانات کے شعبے میں لے جایا جائے؟
ایک اور سرخی نظر سے گزری کہ وزیر اعظم نے عوامی فلاح سے مطلقہ( متعلقہ) محکموں کو ہدایت کی کہ وہ اپنا کام تیز کریں۔ جب طلاق ہو گئی تو پھر فلاح بھی ذمہ داری نہیں رہی محکموں کی اور وہ اسی بات پر تا حال عمل کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کو چاہیے کہ محکموں کے لئے حلالے کا انتظام کریں۔ ممکن ہے اس سے ان کی کارکردگی میں بہتری آئے۔
ایک روز ایک اور سرخی دیکھی۔وزیر اعظم کا ہی بیان تھا۔’عام آدمی کی اصطلاح نہ کرنے والے اپنے انجام کو پہنچیں گے۔’ یہاں اصطلاح کے بعد استعمال جان بوجھ کر نہیں لکھا تاکہ جملہ مہمل رہے۔ عام آدمی تو اب اصلاح سے باہر ہے تاہم اگر وہ اس کو ٹائپنگ کی غلطی سمجھ کر خوش ہو رہا ہے تو ایڈیٹر کا کیا جاتا ہے۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ جلسوں میں عام آدمی کی اصطلاح زیادہ سے زیادہ استعمال کی جائے تو یہ فرض بھی بخوبی ادا کر لیا ایڈیٹر نے۔
جب میڈیا پر اردو زبان ایسے لکھی اور پڑھی جائے تو عام زندگی میں کم پڑھے لکھے لوگوں سے نستعلیق اردو کی توقع کرنا ایسا ہی ہے جیسے تقاریرسے بین الاقوامی مسائل کے حل کی امید رکھنا۔ ایک گنے کا جوس بنانے والے نے اپنے جوس کی تشہیر ان الفاظ میں کی۔ ‘یہاں گناہ کا تازہ جوس دستیاب ہے’۔گناہ کے جوس میں لذت تو ہوتی ہے لیکن جسم کے لئے مفید ہر گز نہیں ہوتا بھلے تازہ ہی کیوں نہ ہو۔
کچھ ادب دوست بھی ایسی حرکت کر جاتے ہیں کہ انسان سوچتا ہے کہ
مویا پھتا مہر تے اٹھیا قہر۔۔۔۔پتھے نہ اے تے ساڈا کے ( کوئی نیک شخص فتح فوت ہوا تو اس کی وفات پر آندھی آ گئی۔ اگر اس نیک بندے کا یہ عالم ہے تو ہم لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا)۔
ایک ادیب ایک معروف مصنفہ کی اچانک وفات پر انھیں ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔، مرحومہ آشفتہ مزاج تھیں اور اللہ کو بھی ان کی آشفتہ مزاجی بھا گئی۔’ وفات کا معاملہ تھا ہم خاموش رہے لیکن شگفتگی اور آشفتگی میں وہی فرق ہے جوحکومتوں کے بیانات اور عمل میں ہوتا ہے۔
ہمارے دوست عقیل شیرازی کوان کےہر دلعزیز ناول ‘نیر سلاسل’ پر ان کی ایک پرستار نے کچھ ان الفاظ میں داد دی ۔۔۔۔۔ کیا ہی خوبصورت’ کردار کشی ‘ (کردار نگاری)کرتے ہیں عقیل بھائی کہ کردار امر ہو جاتے ہیں۔ کردار کشی تو جو ہوئی سو ہوئی عقیل پر جو غشی طاری ہوئی وہ الگ داستان کی متقاضی ہے۔ پہلے صرف بھٹو امرتھا اب عقیل شیرازی کے کردار بھی اس صف میں جا کھڑےہوئے ہیں۔ثابت ہوا کہ امر ہونے کے لئے کردار کشی ضروری ہے۔ بھٹی کی بھی ہوئی۔ عقیل نے بھی اپنے کرداروں کی کھل کر کی۔
ہم خود بھی الفاظ کی ترتیب الٹی یا آگے پیچھے کرکے محظوظ ہوتے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے ہی بات ہے کہ ہماری نظرسے ایک کتاب گزری جس کا نام تھا ‘ بہترشادی شدہ زندگی’۔ہم نے پہلے لفظ کو تشدید کے ساتھ پڑھا یعنی کہ بہتر(72) شادی شدہ زندگی۔ اور بھائی سے پوچھا کہ بہتر شادی شدہ زندگی کا کیا مطلب ہوا؟ ہمارابھائی ہم سے چھوٹا تھا مگر کافی ذہین تھا۔ کہنے لگا کہ دنیا میں تو یہ ممکن نہیں تاہم اگر یہاں کسی کی دو بیویاں ہوں اور اگر وہ جنت میں چلا گیا تووہاں اسے ستر حوریں ملیں گی اور ساتھ دو دنیا والی بیویاں بھی ہوئیں تو پھر وہ بہتر شادی شدہ زندگی گزارے گا۔
ہمارے لڑکپن کی بات ہے کہ گھروں میں ٹیلی فون عام نہیں تھے۔ جگہ جگہ پبلک کال آفسز (پی سی او)بنے ہوئے تھے اور لوگ پی سی او جاکر بات کرتے تھے۔ابتدا میں ایک ایکسچینج سے دوسرے ایکسچینج بات کی جاتی تھی اور وہ اپنے شہر یا علاقے کا نمبر ملا کر دیتے تھے۔ کچھ مدت بعد محض شہر کا کوڈاور نمبر ہی کافی ہوتا تھا۔ سو ایسے پی سی اوز پراکثر’ ڈائریکٹ ڈائلنگ’ لکھا ہوتا تھا یعنی ایکسچینج سے رابطے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ہم کچھ دوست ایک جگہ سے گزر رہے تھے تو سامنے ایک پی سی او پر جلی حروف میں ڈائریکٹ ڈائلنگ لکھا ہوا تھا۔ دوستوں میں ایک کی اردو کمزور تھی۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیالکھا ہوا تھا تو چند لمحےتو وہ اسے دیکھتا رہاپھر بولا ،’ڈائریکٹ ڈارلنگ’۔ ہم سب دوستوں کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اکتوبر 27th, 2019
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: humor, Ibn e Riaz, iqbal, nukta mujrim, quaid e azam