پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کی تیسری شادی کی خبریں آج گردش میں ہیں۔ فی الوقت یہ شادی آف شور کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔افواہ کا لفظ اس لئے استعمال نہیں کیا کہ ہمارے ہاں اکثرافواہیں سچ ہی ثابت ہوتی ہیں۔ اگر یہ خبر سچ ہے تو عمران خان کی یہ تیسری شادی ہے اورکرکٹ کی اصطلاح میں انھوں نے ہیٹ ٹرک کر لی ہے۔کھیل کے میدان کو الوداع کرنے کے باوجود بھی کھیل کی محبت کھلاڑی کے دل سے کم نہیں ہوئی اور وہ دیگر میدانوں میں بھی ہیٹ ٹرک کر رہا ہے۔ چونکہ تا حال یہ خبر مصدقہ نہیں ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابھی فیصلہ تیسرے منصف یعنی کہ تھرڈامپائر کے ہاتھ میں ہے۔
عمران خان کی ایک عادت کہ جس کے ہم بہت مداح ہیں وہ ان کی ثابت قدمی ہے۔ حالات کیسے ہی مخالف کیوں نہ ہوں وہ اپننے ارادےمیں پختہ رہتے ہیں اور نتائج کو اپنے حق میں کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ 1992 کا ورلڈکپ کون بھول سکتاہے کہ جہاں پاکستان آخری پوزیشنوں پر تھا اور ٹورنامنٹ سے باہر ہوا ہی چاہتاتھا کہ اچانک ٹیم نےپلٹا کھایا اور ورلڈ کپ جیت لیا۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال بھی شروع میں ایک خواب دکھائی دیتا تھا مگر اب وہ ایک حقیقت ہے۔ سیاست میں بھی وہ بالکل نیچے سے اٹھے ہیں اور اب ملک کے صف اول کے سیاست دانوں میں شمار ہے ان کا۔تاہم ان کے معترضین کہتے ہیں کہ عمران خان ایک گھر تو چلا نہیں سکے ملک کیسے چلائیں گے؟ ظاہر ہے کہ یہ ان کی دو ناکام شادیوں پر طنز ہوتا ہے۔سو ان کو جواب دینے کے لئے خان صاحب نے تیسری شادی کر لی اور ان کا پختہ ارادہ ہے کہ وہ اس کو کامیاب بنائیں گے۔ ایک دو اننگز میں ناکامی سے کھلاڑی نہیں گھبراتا اور اگلی اننگز میں زیادہ رنز بنا کر یا وکٹیں حاصل کرکے وہ پچھلی ناکامیوں کے داغ دھو سکتا ہے اور یہی عمران صاحب کا مطمع نظرہے۔
عمران خان کی پہلی بیگم ایک یہودی خاندان سے تھیں جنھیں انھوں نے مسلمان کیا۔ دوسری بیگم ایک میڈیا خاتون تھیں اور اب تیسری کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ ان کی پیرنی ہیں۔ اس کے علاوہ پہلی شادی اکیس بائیس سالہ لڑکی سے کی، دوسری چلیس سالہ سے اور اب پچاس سالہ۔شادیوں کے حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عمران خان نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے۔مزید براں کہ ان کی خواہش ہے کہ وزیرِ اعظم والی شیروانی پہنیں۔وزیر اعظم والی تو ابھی کچھ دور ہے مگر وہ شادی کی شیروانی پہن کر اپنی خوایش کسی قدر پوری کرتے رہتے ہیں۔ نواز شریف کو عمران خان اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں۔ اتفاق دیکھیے کہ نواز شریف نے تین بار وزارتِ عظمٰی سنبھالی اور عمران صاحب نے تین شادیاں کی۔ایک اور قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ تاحال دونوں مدت پوری نہیں کر پائے۔تاہم ہماری خواہش ہے کہ اس بار عمران صاحب مدت پوری کریں ۔
پیروں کے پاس چونکہ ہر طرح اور ہر طبقے کے لوگ جاتے ہیں ۔ ان میں کھلاڑی، فنکار، ادیب سیاسی رہنما اور دیگر شعبوں سے متعلق مرد و زن شامل ہیں۔ ان میں دلکش اور نوجوان لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ اب دل تو پیروں کے بھی ہوتے ہیں اور انھیں شرع کا علم بھی زیادہ ہوتا ہے عام آدمیوں سے سو وہ انھیں شرع کے مطابق زینتِ حرم کر لیتے ہیںہ عمران خان چونکہ روایت شکن ہیں تو پیروں کے پاس گئے تو بھی اپنی طبیعت کو روایت پسندی پر مائل نہ کر سکےاور پیرنی کے دل کو ہی گھائل کر لیا۔ بعض لوگ اس پر معترض ہیں کہ عمران خان کو اپنی پیرنی کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور پیرنی کے مقام کو ملحوظ رکھنا چاہیے تھا کہ وہ روحانی استاد تھی عمران خان کی۔ان لوگوں کے لئے عرض ہے کہ استاد بھی تو شاگردوں سے شادی کر لیتے یا اس کے برعکس بھی ہو جاتا ہے۔یوں بھی بزرگ بھی بچے ہی ہوتے ہیں اور بچوں کی اکثریت کا پہلا پیار اپنی استانی سے ہی ہوتا ہے۔عمران خان نے اس پیار کو شرعی حیثیت دے دی۔ یوں بھی عمران خان ایک معروف و مصروف شخصیت ہیں۔کبھی سیاست کے جھنجھٹ ، کبھی شوکت خانم کے لئے فنڈز کی فراہمی اور کبھی بچوں سے ملاقات ۔ سو ان کا ایک پیربنی گالہ میں ہوتا ہے اوردوسرا کسی اور شہر میں بلکہ اکثر دساور میں۔ان حالات میں عمران کےلئے پیرنی کے پاس بار بار جانا مشکل تھا اور سیاسی معاملات ایسے ہوتے کہ سو دشمن ۔سو فوری رہنمائی درکارہوتی ہے اپنے پیر کی مرید کو۔سو عمران نے اس کا بہترین حل نکالا کہ پیرنی کو گھرلے آئے تاکہ ہر وقت ان کی رہنمائی میں زندگی بسر کریں۔
عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی معاملے بالخصوص شادی والے معاملے کو خفیہ نہیں رکھ پاتے ہیں۔ریحام خان سے انکی شادی کی خبر بھی ان کے اعلام سے پہے ہی اخفاہو چکی تھی۔اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اگرچہ عمران خان شریفوں کے سخت مخالف ہیں مگرکہتے ہیں کہ حکمت کسی سے بھی ملے لے لینی چاہیے ۔ تو ہمارا عمران خان کو یہ مشورہ ہے کہ شادی خفیہ رکھنے کا گر وہ شہباز شریف سے سیکھیں کہ جنھوں نے کئی شادیوں کر رکھی ہیں مگر مجالہے کہ میڈیا کو خبر ہونے دی ہو۔
عمران خان نے جوانی کا بڑا حصہ پونکہ یورپ میں گزاراتو اسکے اثرات انھی تک ان پر ہیں۔ وہ اپنی تقریروں میں اکثریورپ کی مثالیں دیتے رہتے ہیں۔ یورپ میں بچے پہلےہوتی ہیں اور ہمارے ہاں شادی۔ ایسے ہی ہمارے ہاں پہلے شادی ہوتی ہے اور بعد میں شوہر ‘رن مرید’ کا مرتبہ پاتا ہے مگر عمران خان یورپ کی تقلید میں پہلے مرید ہوئے اور بعد میں شوہر کا رتبہ پایا۔
ہم نے ان گنت جوڑے دیکھے مگر ہم حلفاً کہہ سکتے ہیں کہ اتنا فائدہ کسی کو اس کی حاضر سروس بیوی نے نہیں پہنچایا جتنا کہ زرداری کو اس کی بیوہ نے اور عمران خان کو اس کی مطلقہ بیگم نے پہنچایا۔ہم دعاگو ہیں کہ انھیں اتنے بلکہ اس سے بھی زائد فوائد نئی دلہن سے حاصل ہوں۔
عمران خان کی ایک عادت کہ جس کے ہم بہت مداح ہیں وہ ان کی ثابت قدمی ہے۔ حالات کیسے ہی مخالف کیوں نہ ہوں وہ اپننے ارادےمیں پختہ رہتے ہیں اور نتائج کو اپنے حق میں کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ 1992 کا ورلڈکپ کون بھول سکتاہے کہ جہاں پاکستان آخری پوزیشنوں پر تھا اور ٹورنامنٹ سے باہر ہوا ہی چاہتاتھا کہ اچانک ٹیم نےپلٹا کھایا اور ورلڈ کپ جیت لیا۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال بھی شروع میں ایک خواب دکھائی دیتا تھا مگر اب وہ ایک حقیقت ہے۔ سیاست میں بھی وہ بالکل نیچے سے اٹھے ہیں اور اب ملک کے صف اول کے سیاست دانوں میں شمار ہے ان کا۔تاہم ان کے معترضین کہتے ہیں کہ عمران خان ایک گھر تو چلا نہیں سکے ملک کیسے چلائیں گے؟ ظاہر ہے کہ یہ ان کی دو ناکام شادیوں پر طنز ہوتا ہے۔سو ان کو جواب دینے کے لئے خان صاحب نے تیسری شادی کر لی اور ان کا پختہ ارادہ ہے کہ وہ اس کو کامیاب بنائیں گے۔ ایک دو اننگز میں ناکامی سے کھلاڑی نہیں گھبراتا اور اگلی اننگز میں زیادہ رنز بنا کر یا وکٹیں حاصل کرکے وہ پچھلی ناکامیوں کے داغ دھو سکتا ہے اور یہی عمران صاحب کا مطمع نظرہے۔
عمران خان کی پہلی بیگم ایک یہودی خاندان سے تھیں جنھیں انھوں نے مسلمان کیا۔ دوسری بیگم ایک میڈیا خاتون تھیں اور اب تیسری کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ ان کی پیرنی ہیں۔ اس کے علاوہ پہلی شادی اکیس بائیس سالہ لڑکی سے کی، دوسری چلیس سالہ سے اور اب پچاس سالہ۔شادیوں کے حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عمران خان نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے۔مزید براں کہ ان کی خواہش ہے کہ وزیرِ اعظم والی شیروانی پہنیں۔وزیر اعظم والی تو ابھی کچھ دور ہے مگر وہ شادی کی شیروانی پہن کر اپنی خوایش کسی قدر پوری کرتے رہتے ہیں۔ نواز شریف کو عمران خان اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں۔ اتفاق دیکھیے کہ نواز شریف نے تین بار وزارتِ عظمٰی سنبھالی اور عمران صاحب نے تین شادیاں کی۔ایک اور قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ تاحال دونوں مدت پوری نہیں کر پائے۔تاہم ہماری خواہش ہے کہ اس بار عمران صاحب مدت پوری کریں ۔
پیروں کے پاس چونکہ ہر طرح اور ہر طبقے کے لوگ جاتے ہیں ۔ ان میں کھلاڑی، فنکار، ادیب سیاسی رہنما اور دیگر شعبوں سے متعلق مرد و زن شامل ہیں۔ ان میں دلکش اور نوجوان لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ اب دل تو پیروں کے بھی ہوتے ہیں اور انھیں شرع کا علم بھی زیادہ ہوتا ہے عام آدمیوں سے سو وہ انھیں شرع کے مطابق زینتِ حرم کر لیتے ہیںہ عمران خان چونکہ روایت شکن ہیں تو پیروں کے پاس گئے تو بھی اپنی طبیعت کو روایت پسندی پر مائل نہ کر سکےاور پیرنی کے دل کو ہی گھائل کر لیا۔ بعض لوگ اس پر معترض ہیں کہ عمران خان کو اپنی پیرنی کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور پیرنی کے مقام کو ملحوظ رکھنا چاہیے تھا کہ وہ روحانی استاد تھی عمران خان کی۔ان لوگوں کے لئے عرض ہے کہ استاد بھی تو شاگردوں سے شادی کر لیتے یا اس کے برعکس بھی ہو جاتا ہے۔یوں بھی بزرگ بھی بچے ہی ہوتے ہیں اور بچوں کی اکثریت کا پہلا پیار اپنی استانی سے ہی ہوتا ہے۔عمران خان نے اس پیار کو شرعی حیثیت دے دی۔ یوں بھی عمران خان ایک معروف و مصروف شخصیت ہیں۔کبھی سیاست کے جھنجھٹ ، کبھی شوکت خانم کے لئے فنڈز کی فراہمی اور کبھی بچوں سے ملاقات ۔ سو ان کا ایک پیربنی گالہ میں ہوتا ہے اوردوسرا کسی اور شہر میں بلکہ اکثر دساور میں۔ان حالات میں عمران کےلئے پیرنی کے پاس بار بار جانا مشکل تھا اور سیاسی معاملات ایسے ہوتے کہ سو دشمن ۔سو فوری رہنمائی درکارہوتی ہے اپنے پیر کی مرید کو۔سو عمران نے اس کا بہترین حل نکالا کہ پیرنی کو گھرلے آئے تاکہ ہر وقت ان کی رہنمائی میں زندگی بسر کریں۔
عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی معاملے بالخصوص شادی والے معاملے کو خفیہ نہیں رکھ پاتے ہیں۔ریحام خان سے انکی شادی کی خبر بھی ان کے اعلام سے پہے ہی اخفاہو چکی تھی۔اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اگرچہ عمران خان شریفوں کے سخت مخالف ہیں مگرکہتے ہیں کہ حکمت کسی سے بھی ملے لے لینی چاہیے ۔ تو ہمارا عمران خان کو یہ مشورہ ہے کہ شادی خفیہ رکھنے کا گر وہ شہباز شریف سے سیکھیں کہ جنھوں نے کئی شادیوں کر رکھی ہیں مگر مجالہے کہ میڈیا کو خبر ہونے دی ہو۔
عمران خان نے جوانی کا بڑا حصہ پونکہ یورپ میں گزاراتو اسکے اثرات انھی تک ان پر ہیں۔ وہ اپنی تقریروں میں اکثریورپ کی مثالیں دیتے رہتے ہیں۔ یورپ میں بچے پہلےہوتی ہیں اور ہمارے ہاں شادی۔ ایسے ہی ہمارے ہاں پہلے شادی ہوتی ہے اور بعد میں شوہر ‘رن مرید’ کا مرتبہ پاتا ہے مگر عمران خان یورپ کی تقلید میں پہلے مرید ہوئے اور بعد میں شوہر کا رتبہ پایا۔
ہم نے ان گنت جوڑے دیکھے مگر ہم حلفاً کہہ سکتے ہیں کہ اتنا فائدہ کسی کو اس کی حاضر سروس بیوی نے نہیں پہنچایا جتنا کہ زرداری کو اس کی بیوہ نے اور عمران خان کو اس کی مطلقہ بیگم نے پہنچایا۔ہم دعاگو ہیں کہ انھیں اتنے بلکہ اس سے بھی زائد فوائد نئی دلہن سے حاصل ہوں۔
وحید علی
بتاریخ جنوری 20th, 2018
بوقت 4:27 شام:
ﺍﺑﻦ ﺭﯾﺎﺽ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎﻓﯽ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺗﻬﯽ. ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ
ﮐﯿﺎ ﭘﺘﮧ ﺍﺑﻬﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮔﻞ ﮐﻬﻼﺋﯿﮟ ﮔﺌﮯ. ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺳﮩﯽ ﮐﮯ ﭨﺎﺋﭩﻞ ﮐﻮ
ﻣﺨﻔﻮﻅ ﺭﮐﻬﯿﮯ ﮔﺎ.ﺷﺎﯾﺪ ﭘﻬﺮ ﺍﺳﯽ ﺗﻠﮯ ﻗﻠﻢ ﺍﭨﻬﺎﻧﺎ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯ.
ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺑﮍﮮ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﮯ ﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﮮ
ﭼﮑﮯ. ﺍﺏ ﭘﯿﺮﻧﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻬﮧ ﻣﻞ ﮐﺮ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﻬﯿﮟ ﮔﺌﮯ. ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﻢ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ
ﻋﺠﻮﺑﮯ ﮨﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﯿﮟ