ایوانِ صدر میں عید «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ایوانِ صدر میں عید

    تحریر: ابنِ ریاض

    ہم پر چھری چل گئی اور ہمیں لکھنے پر مجبور کر دیا گیا- ہم پیشہ ور لکھاری تو ہیں نہیں کہ ہر موضوع پر قلم کشائی کر سکیں مگر یہ بات لودھی(ابن نیاز)  کو سمجھانے سے بہتر ہے کہ بندہ بھینس کے آگے بین بجا لے- ہم کورا جواب دیں تو جناب  روٹھی ہوئی بیگم کی طرح اٹوانٹی کھٹوانٹی لئے پڑے رہتے ہیں  سو ہم ہی یہ سوچ کر دو چار سطریں لکھ مارتے ہیں کہ اس عمر  میں ان کی عادتیں سنوارنے سے بہتر ہے کہ بندہ صفحے کالے کر لے-

    اس بار ہم نے سوچا کہ دیکھا جائے کہ صدرِ مملکت کیسے عید مناتے ہیں سو ہم سلیمانی ٹوپی اوڑھ( سلیمانی ٹوپی کیا ہو سکتی ہے خود سوچ لیں ۔۔۔۔ ویسے اب تو سمجھنا آسان ہے کہ حریم شاہ اگر وزارتِ خارجہ کے دفاترمیں جا سکتی ہے تو باقی بھی اسی ملک کے شہری ہیں) کے صدارتی محل جا پہنچے اور موقع ملتے ہی اندر گھس گئے- اور ایک کمرے میں صدر صاحب کو جا لیا- ہم ایک کونے میں جا بیٹھے کہ جہاں سے ہم ساری کارروائی بآسانی دیکھ اور سن سکیں-  تو آئیے دوستو آپ کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں-

    صدر: اس بار عید کب ہے ؟

    سیکرٹری: جناب ڈائری دیکھ کے بتاتا ہوں- (ڈائری میں نہیں ملتی تاریخ تو سیکرٹری تھوڑا پریشان ہوتا ہے مگر جواب دیتا ہے) جناب جس دن آپ چاہیں  عید کا اعلان کر دیں گے-

    صدر: ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے- ہم مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں -متحدہ والوں سے پوچھ لو کہ کب عید کرنا چاہیں گے ؟

    سیکرٹری: جناب اطلاع آئی ہے کہ عید سات( 7 نومبر 2011)  تاریخ کو ہے-مفتی منیب الرحمان نے پہلے ہی مفاہمت کر لی تھی سب سے۔

    صدر: سات تو آنے والی ہے۔ ہم اس بار عید سادگی سے منائیں گے کیونکہ ابھی مادرِ جمہوریت کے انتقال کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔سیکرٹری کیا اس عید پر قربانی کی جاتی ہے؟

    سیکرٹری: جی سر کی جاتی ہے قربانی۔

    صدر: اس بار ہم بھی قربانی کرنا چاہتے ہیں- کوئی سستا سا جانور بتاؤ۔

    سیکرٹری: جناب سستا جانور قربانی کے لئے جائز نہیں ہے اور جو جائز ہے وہ سستا نہیں ہے-

    صدر: ہم فلسفہ نہیں سننا چاہتے۔ ہم قربانی کرنا چاہتے ہیں۔

    سیکرٹری: جناب معمولی سے معمولی قربانی پچاس ہزار سے کم نہیں ہے۔ بلی جتنا بکرا آتا ہے اتنی رقم میں-

    صدر: ہماری رقم تو باہر ہے اور وہ اندر نہیں آ سکتی ۔ اب ہمیں اس مسئلے کا حل بتائو-

    سیکرٹری: جناب آپ کو قربانی کی کیا ضرورت ہے؟ قربانی تو سال میں ایک دفعہ کرنی ہوتی ہے تا کہ یہ احساس دل میں رہے کہ اللہ کی  رضا کے لئے کچھ بھی قربان کیا جا سکتا ہے- آپ تو روز عوام کی قربانی کرتے ہیں- سولہ ہزار عوام تو آپ نے تین  سال میں  قربان کر دئے ہیں-

    صدر: وہ تو ہماری مفاہمت کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ہم تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں- ہم کوئی رائے ونڈ کےمولوی کی طرح سیاسی تنہائی کا شکار تو نہیں ہیں ناں- ہماری سیاست کھپے کھپے کھپے-

    سیکرٹری: بجا فرمایا حضور آپ نے۔ آپ کا مقابلہ کون کر سکتا ہے- آپ کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا- آپ کے دور میں ہی تو اٹھارویں تومیم ہوئی۔ حقوقِ بلوچستان بل منظور ہوا۔ اپنے اختیارات آپ نے ہی تو پارلیمنٹ کو بخشے۔ آپ عظیم ہیں عظیم

    صدر: ہمیں قربانی کرنی ہے- اور رقم نہیں ہے قومی خزانے میں-(کیونکہ ہم وہاں کچھ رہنے ہی نہیں دیتے)۔ آخر سفیروں نے ہمیں عید ملنے آنا ہے تو ہم انھیں کیا پیش کریں گے؟

    سیکرٹری: جناب آپ وزیرِ خزانہ سے مشورہ لیں۔

    صدر: نہیں وزیرِ خزانہ اپنا رونا شروع کر دیتا ہے- تم وزیرِ داخلہ اور سابق وزیرِ قانون کو بلا لاؤ- وہ ہر مسئلے کو سلجھا لیتے ہیں-

    (دونوں حضرات کو بلایا جاتا ہے اور سلام دعا کے بعد مسئلہ بیان کیا جاتا ہے)

    سابق وزیرِ قانون: یہ سب تختِ لاہور والوں کی سازش ہے مگران سیاسی اداکاروں کو آخر کار مات ہونی ہے۔ ڈینگی تو ان سے قابو آتا نہیں اور قربانی کر رہے ہیں- یہ عوام کی خون پسینے کی کمائی  قربانی پر ضائع کے رہے ہیں مگر یاد رکھیں کہ مشکل وقت آیا تو یہ جدہ بھاگ جائیں گے۔ہماری پارٹی کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ابھی چند روز  پہلے ہماری پارٹی میں ایک اور شہید کا اضافہ ہوا ہے- یہ لوگ تو مچھروں سے ڈر کے بیرونِ ملک بھاگ جاتے ہیں جبکہ ہم لوگ جیلیں کاٹتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں-

    وزیرِ داخلہ: ہماری دہشت گردوں پر نظر ہے اور جلد ہی ہم انھیں پکڑ لیں گے۔ انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور انھیں حکومتِ پنجاب کی حمایت حاصل ہے۔ تا ہم میں واضح کر دوں کہ ہم سب سے آہنی ہاتھوں سے نبٹیں گے-  قربانی  کی آڑ میں ہم ان دہشت گردوں کو چھپنے نہیں  دیں گے۔آپ ہمارے عزم کا اندازہ ہمارے کراچی آپریشن سے لگا سکتے ہیں-

    ابھی ہم اس گفتگو سے محظوظ ہو رہے تھے کہ ہمارے موبائل پر کال آنے لگی- کال گھر سے تھی، ہم سے اٹھائی تو گھر والے ہمیں بلا رہے تھے کہ گھر پہنچو ابھی جانور ڈھونڈنے بھی جانا ہے- سو ہم نے یہ کارروائی نظرانداز کر کے گھر جانے کا فیصلہ کیا اور ایوان صدر  سے باہر نکل آئے-

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔