اریبہ بلوچ کا شگوفہء سحر پر تبصرہ «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • اریبہ بلوچ کا شگوفہء سحر پر تبصرہ

    وقت کی شکن آلود پیشانی کی جھریاں گہری ہو چکی ہیں-ہر شخص اپنے اپنے غم کی تمازت میں مسلسل سلگتا جا رہا ہے۔زندگی میں آنکھ کو نم کر دینے والوں کی تعداد ،لمحہ بھر کے لیے لب وا کر دینے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔

    ایسے حالات و وقت میں اگر کوئی ڈاکیا آپکو خاکی لفافہ تھما جائے اور اسکو چاک کرتے ہی "شگوفہ سحر”آپکی نظروں کی گرفت میں آئے اور آپ اسے تیزی سے ہاتھوں میں تھام لیں کہ یہ کون شخص ہے جو مغموم شاموں میں طلوع صبح کی بات کرتا ہے،جو صبح میں کھلتے گلوں کا ذکر کرتا ہے۔
    یہ مصنف ابن ریاض ہیں!!جنکی نظر آدھے خالی گلاس سے پہلے گلاس کے آدھے بھرے حصے پر جاتی ہے!! جنکا زاویہ نظر انوکھا ہے!!جو تلخ کڑوے کسیلے حقائق کو مزاح کی قبائیں اوڑھا کر انکی بدصورتیوں کو کم۔کرتے ہیں!!
    اسٹیفن لیکاک کے مطابق
    "مزاح زندگی کی نا ہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام۔ہے جسکا فنکارانہ اظہار ہو جائے”
    ہمیں سمجھ نہیں آ رہی ہم شگوفہ سحر پر تبصرہ کریں یا ابن ریاض پر کیونکہ ابن ریاض ہی شگوفہ سحر ہیں۔لکھاری جب تک اپنی روح کو قلم میں اتار نہ دے تب تک اسکا قلم کوئی ایسا حرف لکھ ہی نہیں سکتا جو کسی کے دل پر اثرانداز ہو جو کسی مغموم کے دل کو مسرور کر جائے اور ابن ریاض کی روح بھی انکے مضامین کی طرح تروتازہ ہے!!
    عمران احمد اعوان یعنی ابن ریاض مصنف شگوفہ سحر جو کہ سعودی عرب میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔لگتا ہے جناب ابن ریاض کا جنت ہتھیانے کا پورا پورا ارداہ ہے اک تو پیشہ پیغمبری سے منسلک اور امتزاد یہ کہ ایسے بہت سے لوگوں کو مسکرانے کا کام تن دہی سے سر انجام دے رہے ہیں جنکی گالوں پر آنسوؤں کی دو لکیریں ہمہ وقت موجود رہتی ہیں! مصنف ابن ریاض کی پہلی تصنیف ہے!لکھنے کا آغاز کا کافی سال قبل کیا تھا پھر سلسلہ۔بڑھتا چلا گیا،مخلص لکھاری دوستوں نے ہمت بڑھائی تو آنشائیے اخبارات میں چھپتے گئے یوں یہ سلسہ بڑھتا چلا گیا اور ابن انشاء کا یہ پرستار اپنی پہچان بنانے اور ایک مزاح نگار کہلوانے میں کامیاب ہوتا گیا۔تحاریر مسکراہٹیں بکھیرتی گئیں ،پسندیدگی کی سند حاصل کرتی گئیں تو انہیں یکجا کر کے 2017 میں کتاب کی شکل میں لایا گیا۔
    ابن ریاض کی مزاح نگاری کا سفر بھی ابن انشاء کی طرح اچانک ہی شروع ہوا؛ابن انشاء قدرت اللہ شہاب کو خط لکھا کرتے تھے۔ایک دن قدرت اللہ نے ان سے کہا”انشاء آپ مزاح کیوں نہیں لکھتے ؟”
    وہ بہت کھلکھلا کر ہنسے اور ایک سال تک ایسے مشوروں پر ہنستے رہے لیکن پھر پہلا کالم لکھا تو اک سلسلہ چل پڑا بالکل ایسے ہی ابن ریاض نے کسی کے سوال کے جواب میں کمنٹ کیا تو فورم انتظامیہ نے رائیٹر کا رینک دے دیا اور پہلا کالم لکھا تو بس ایک سلسلہ چل پڑا!!!
    شگوفہ سحر جسکا سرورق دیدہ زیب اور نظروں کو خیرہ کرنے والے سکوں بخش سبز رنگ کا حامل ہے؛ابن ریاض نے بہت بڑی فنکاری کی ہے کتاب کی تحاریر میں تو جہاں لمحہ لمحہ گدگدایا ہے اور مسکرایا ہے وہیں سرورق کو بھی سکوں بخش رنگ سے مزین کیا ہے!!!کاغذ کا معیار بہت عمدہ،اور قیمت انتہائی مناسب ہے!!
    مزاح زندگی کی دھوپ میں برگد کے ٹھنڈے سائے جیسا ہے۔اب جب کہ حالات و وقت نے آئینوں کے عکس دھندلا دیے ہیں اور ہر شخص اپنا چہرہ پہچاننے سے قاصر ہے۔عجب بے چہرگی کا موسم ہے! اور ایسے بے چہرگی کے موسموں میں ایک "چہرہ دار” اٹھتا ہے جو نا صرف لوگوں کے چہروں کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ان پر موجود برف زدہ لبوں کو مسکراہٹ کی جنبش دینے کو قرطاس پر چند لفظ گھسیٹ دیتا ہے تو ایسے چہرہ دار کی کاوش کی کامیابی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا یہ مزاح نگاری میں انکا پہلا قدم ہے اور وہ قدم جمانے میں کامیاب رہے ہیں!!!
    ابن ریاض کی مزاح نگاری۔مزاح کی ارفع ترین صورت ہے کہ جس میں نہ تو کوئی من گھڑت کہانی بنا کر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ایک مزاحیہ کردار تشکیل دے کر مزاح پیدا کرنے کی۔کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ایک مزاحیہ کردار تشکیل دے کر اس سے مزاح پیدا کیا گیا ہے۔ابن ریاض کے انشائیوں میں بے تکی باتوں سے تک کی باتیں نکالی گئی ہیں،طنز و مزاح سے بھرپور انشائیے لیکن کہیں بھی تلخی کی اتنی مقدار محسوس نہیں ہوئی جسے مکمل طنز کہا جائے!
    کہیں پڑھا تھاکہ
    "مزاح نگاری ادب کی سنجیدہ ترین صنف ہے”!!!
    اور بلاشبہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔مزاح لکھنا مشکل ترین کام ہے لیکن اگر لکھنے والا ابن انشاء کا مداح ہو تو اس سے ایسی ارفع پائے کی مزاح نگاری کی ہی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
    مصنف ابن ریاض کے انداز تحریر میں ابن انشاء سے مماثلت تو ہے لیکن مکمل طور پر ابن ریاض کی تحاریر کو ابن انشاء سا کہنا کم از کم ہناری ذاتی رائے میں تو مناسب نہیں کیونکہ ابن ریاض کے کالم انکی اپنی ریاضت ہیں!!
    کرکٹ سے متعلق مضامین بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔کہیں پڑھا تھا کہ
    "کرکٹ پر تبصرہ نگاری اک آرٹ ہے اور یہ کام بہتر طریقے سے صرف ایک آرٹسٹ ہی کر سکتا ہے”!!اور ابن ریاض بلاشبہ اک بہترین آرٹسٹ ہیں!!!عام فہم و سادہ انداز میں کرکٹ سے متعلقہ مسائل بھی بیان کرتے ہیں اور انکا حل بھی!ابن ریاض کی مشاہداتی صلاحیت بھی کافی تیز و لطیف ہے جسکی عمدہ مثال ہم "عینک ہے بڑی چیز”،”تصویر”،”پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ”،طلبا کی اقسام اور سمسٹر کے اختتامی امتحانات” میں دیکھ سکتے ہیں۔ اک نمونہ ملاحظہ کیجیے
    "عینک کو چشمہ بھی کہتے ہیں کیوں کہتے ہیں کوئ ہمیں بھی سمجھائے۔ہماری ناقص رائے میں تو اس کی وجہ خواتین ہیں جو اتنا روتی ہیں اتنا روتی ہیں کہ انکی عینک چشمے کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں۔”
    ہر سنجیدہ بات سے لطیف پہلو نکالنا اور پیش کرنا ہی ایک مزاح نگار کا کمال ہوتا ہے اور ابن ریاض نے یہ کمال بہت سے مضامین میں دکھایا ہے جن میں "آنکھ بیتی” و "روزمرہ مشورے” بھی سر فہرست ہیں
    "گرمیوں میں آپکا فریج ٹھیک سے ٹھنڈک پیدا نہیں کرتا۔چیزیں خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہےاور اکثر پھل سبزی اور دیگر اشیا خراب ہو بھی جاتی ہیں۔اسکی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ فریج کو ان اشیا کے لیے بنایا ہی نہیں گیا۔یہ اشیا تازہ ہی استعمال کرنی چاہیے۔فریج کی ساخت پر غور کریں تو آپ کو اسکے اندر تین سے چار جالی دار خانے نظر آئیں گے۔یہ خانے دراصل تہہ کیے ہوئے کپڑے رکھنے کے لیے ہیں۔تین خانوں میں میاں،بیوی،اور بچے اپنے اپنے ملبوسات رکھ سکتے ہیں اور نیچے جو ٹرے ہے اس میں بنیان،موزے وغیرہ گانٹھ لگاکر رکھ لیں۔پھر دیکھیں کہ آپکے فریج کی کارکردگی کتنی بہترین ہے۔”
    بات سے بات نکالنے کے ساتھ ساتھ واقعات کو بھی نہایت لطافت و ظرافت سے بیان کرتے ہیں:
    "ہم گاؤں میں ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ہمیں دیکھ کر بھڑیں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور تمام۔شرم و حیا بالائے طاق رکھتے ہوئے سر راہ ہمارے دونوں گالوں پر اپنی محبت کے نشان ثبت کیے اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔ہم تو مشرقی مرد اس پر چپ ہی رہتے مگر ہمارے دونوں گال پھول گئے اور اسکا پتہ تمام گاؤں کو چل گیا”
    انکا طنز بھی منفرد ہے جس میں طنز والی تلخی اور کاٹ ہی نہیں اتنا شیریں طنز کہ تسکین بخش احساس چھوڑ جاتا ہے اور مزاح بھی ایسا تروتازہ و شائستہ کہ جب بھی پڑھیں مسکان لبوں پر رینگنے لگتی ہے!
    "ہم۔ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل پائے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو یہ گمان کیونر ہوا ہے۔ساڑی اور فراک میں آج تک ہمیں کسی نے نہیں دیکھا اور ایسے بے شرم کہ دوپٹہ تو آج تک ہم نے گلے میں بھی نہیں لٹکایا۔ظاہری شباہت میں تو ہمیں اپنے میں کوئی زنانہ خوبی نظر نہیں آتی ماسوائے اسکے کہ ہم کلین شیو ہیں۔سر کے بال تو اتنے زیادہ ہیں کہ خواتین غش کھا کر گر جائیں گھر کے کاموں میں بھی ملکہ حاصل نہیں سوائے خیالی پلاؤ کے کوئی ڈش بھی ہم نہیں بنا سکتے”
    تمام انشائیوں کا اسلوب سادہ و عمدہ ہے۔مزاح نگار بہت ظرف کا حامل ہوتا ہے اپنی ذات پر مزاح کرنا بڑا دل گردے کا کام ہے اور یہ کام ابن ریاض نے شگوفہ سحر میں بارہا کیا ہے خود پر ہنسنے کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے اور ابن ریاض کافی حوصلہ مند ہیں!!ایک اقتباش ملاحظہ کیجیے:
    "اس زمانے میں ہاکی میں بھی پاکستان کا شمار صف اول کی ٹیموں میں ہوتا تھا۔ہم اس میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔ہاکی تو ہماری قوت خرید سے باہر تھی مگر ایک ڈنڈے(جس سے خواتین کپڑے دھوتی ہیں)کو ہم ہاکی کے طور پر استعمال کرتے تھے اور دو روپے کی ایک گیند کے ساتھ اپنے صحن میں چھوٹے بھائی کے ساتھ کھیلتے تھے۔اور گول پر گول داغتے تھے۔ایک بار ہم نے سکول ٹیم میں بھی اپنا نام لکھوایا۔اور اتفاق سے ہمیں کھیلنے کا موقع بھی ملا۔وہاں ہمیں انہوں نے اپنے ڈنڈے کی بجائے اصلی ہاکی سے کھیلنے پر اصرار کیا۔اب ہم تو اس ڈنڈے سے کھیلنے کے ماہر تھے سو اتنی بھاری ہاکی سے ہم اپنا قدرتی کھیل پیش نہ کر پائے۔الٹا میدان کے دو چکر لگانے کے بعد گر گئے اور چار دن اپنی ٹانگوں کی مالش کرتے رہے یوں یہ شوق بھی حسرت ہوا۔”
    ابن ریاض کے اسلوب میں مٹھاس ہے،اک سحر ہے،اک ہنسی کا جنتر منتر ہے کہ جس نے پڑھ لیا وہ مسحور ہو گیا،مبہوت ہو گیا،مسرور گیا اور ابن ریاض کا گرویدہ ہو گیا !!
    ابن ریاض نے اپنی منزل متعین کرنے یعنی قلم تھامنے اور لکھنے میں بہت تاخیر کر دی لیکن ہر کام اپنے مقرر وقت پر ہی ہوتا ہے،ابن ریاض نے قلم تھامنے میں تاخیر ضرور کی لیکن جس عمر میں تھاما تب تک انکا مطالعہ بہت وسعت حاصل کر چکا تھا اور ابن انشاء کے انداز تحریر سے متاثر بھی تھے ،پھر قلم تھاما تو وہی ہوا "وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا”!!ہم یہ بات نہیں کریں گے کہ ابن ریاض ایک بڑے مزاح نگار ہیں یا نہیں ہم صرف یہ اعتراف کریں گے کہ ابن ریاض "منفرد” مزاح نگار ہیں!!!
    ابدال بیلا نے ممتاز مفتی سے کہا تھا کہ "مجھے لبیک ہو گئی تھی،وہ مجھے چمٹ گئی تھی”اور وہ گریز اناٹمی کی کتاب میں لبیک چھپا کر پڑھتے رہے اور اب نسل نو کو "شگوفہ سحر” ہو جائے گی ہمیں یقین واثق ہے!جیسے ہم جیسے اسٹوڈنٹ پائلٹ "پرنسپلز آف فلائیٹ” کی کتاب میں "شگوفہ سحر” چھپا کر پڑھتے رہے وہیں بہت سے انجنیئرز و ڈاکٹرز کا بھی یہی عالم ہو گا!!مصنف ابن ریاض آپ نے اپنے حصے کی جو شمع جلائی ہے اسکی روشنی کو دوام نصیب ہو گا ان شا اللہ۔!!

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔