فیس بک پر ایک پوسٹ میں پوچھا گیا ہے کہ اگر بھائی لوگ نہ ہوتے تو دنیا کیسی ہوتی؟ ہمیں تو اس سوال کی سمجھ نہیں آئی کہ جن محترمہ نے سوال کیا ہے ان کا مقصد کیا ہے۔ وہ کسی پر طنز کر رہی ہیں یا دریافتِ معلومات ان کا مطمع نظر ہے۔ اگر وہ طنز کر رہی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ انھیں لڑکیوں کی دوستی کی بہت پیشکشیں وصول ہوتی ہوں اور جس کو بھی وہ دوست کا اعزاز بخشتی ہوں وہ بھائی نکل آتا ہو۔ہم تو چونکہ ایسی پوسٹس پر محض تفریح طبع کےلئے جاتے ہیں سو ہمارا تو جواب تھا ‘ بھائیوں کے بغیر یقینًا دنیا ایسی ہی ہے جیسا کراچی بھائی کے بغیر ہے’۔
تاہم اس میں کلام نہیں کہ بھائی بہنوں کا سایہ اور مان ہوتے ہیں۔ ۔ بڑے بھائی تو باپ کی جگہ ہوتے۔ شادی کے بعد ان کا میکا اور شادی سے پہلے ان کی عزت و آبرو کے محافظ۔۔ غمگسار اور دوست۔ بہن کو سہیلی کے گھر چھوڑنا، وہاں سے لے آنا، ٹیوشن سے لانا لے جانا، بہن کے نوٹس ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا سب بھائیوں ہی کے تو فرائض ہوتے۔بعض بہنیں تو بھائیوں کی اتنی عادی ہو جاتیں کہ سکول کالج جامعہ حتٰی کہ فیس بک پر بھی بھائیوں کی کھیپ تیار کر لیتی ہیں۔ گاہے گاہے پھر ان بھائیوں سے کام بھی لیتی رہتی ہیں۔ ہر اجنبی کو بھی بھائی کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔۔حالی کا وہ شعر یہاں بھی صادق آتا ہے
چاہِ یوسف سے آ رہی ہے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
فیس بک بھائی حقیقی بھائی کا کبھی نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے احباب میں ایک لڑکی ہے کہ جنھیں اپنے دورِ تدریس میں چھوٹے بھائی سے پک اینڈ ڈراپ لینا پڑتی تھی۔ اب بھائی ان کا چھوٹا تھا اور وہ سائیکل پر براہِ راست نہیں چڑھ سکتاتھا سو پہلے دونوں بہن بھائی کوئی اونچی جگہ تلاش کرتے اور اس کے بعد بھائی سائیکل پر بہن کو کالج چھوڑنے جاتا۔ اب اکثر کالج کے قریب کوئی اونچی جگہ نہ ملتی تو بہن کو وہیں سجدہ کرنا پڑتا مگر بہن بھائی کی محبت مثالی تھی۔ نہ بھائی نے کبھی اپنے کام میں کوتاہی برتی اور نہ بہن کے ماتھے پر شکن آئی۔
ایک لڑکی کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ صرف ایک بہن تھی۔ ایک دن لڑکی کی دادی نے اس سے کہا کہ اللہ تمھیں بھائی دے۔ لڑکی چھوٹی تھی۔ اس نے پوچھا کہ اگر اللہ نے بھائی دے دیا تو مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ دادی نے کہا کہ وہ تمھیں ایک جگہ سی دوسری جگہ لے جائے گا۔ لڑکی نے کہا کہ دادی پھربھائی کی بجائے پجیرو کی دعا دیں کہ وہ بھی یہی کرتی ہے۔ اس خوبصورت بیان کے بعد دادی نے اسے کو لعن ملامت کی، وہ آپ سب بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
ہمارے مذہب اسلام میں بھی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ مگر بھائی دوسرے کو اتنا بھائی نہیں سمجھتا جتنا کہ صیغہ تانیث والے اسے بھائی بنا دیتے۔ اسلام میں بہن بھائی صرف اپنے خون کے ہی ہوتے ہیں۔ تاہم ضرورت کے وقت تو گدھے کو بھی باپ بنایا جا سکتا ہے تو بھائی بہن بنانے میں کیا حرج ہے۔ بعض مواقع پر تو طوہًا و کرہًا بھی ایسا کرنا پڑتا ہے بالخصوص سیاستدانوں اور مقررین کو۔ وہ اپنے ہر خطاب میں موقع بموقع بہن اور بھائی استعمال کر کے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقصد نکل جانے کے بعد پھر وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا کہ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ سیاستدانوں کے ساتھ کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ ایک معروف خاتون سیاستدان جو کہ قومی اسمبلی کی رکن بھی رہ چکی ہیں کے والد بھی اپنے علاقے میں معروف سیاست دان تھے۔ ان کا نام ‘عاشق حسین’ تھا۔ ایک بار وہ خواتین کے جلسے میں خطاب کرنے گئے۔ مدعا وہی کہ ووٹ ہمیں دو۔ اب ان کو وہاں یہ کہنا تھا کہ میں تو آپ کا اپنا ہوں، مجھے اپنا سمجھیں اور ووٹ دیں۔ مگر ان کی زبان پھسلی اور کہ گئے ‘ بہنوں میں تہاڈا آپنا عاشق(جو کہ ان کا نام تھا) آں'(یعنی کہ میں آپ کا اپنا عاشق ہوں)۔ بس اس کے بعد عاشق صاحب تھے اور ان خواتین کی جوتیاں تھیں۔ عشق کا تو امتحان ہی ایسے موقع پر ہوتا ہے مگر وہ سچے عاشق نہ نکلے اور موقع ملتے ہی بھاگ گئے اور پھر اس علاقے میں کبھی نہیں گئے۔
سالوں پہلے پاکستان ٹیلی ویژن ہی ہوتا تھا اور اس پر ہفتہ وار فلم بھی لگا کرتی تھی، ایک بار ‘سہیلی’ فلم لگی ہوئی تھی۔ درپن، شمیم آراء اور نیر سلطانہ اس فلم کے بڑے اور اہم اداکار تھے۔ اس کےگانے بھی بہت مشہور تھے۔ ‘ ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے’ اور ‘کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا’آج بھی سدا بہار گیتوں میں شامل ہیں۔ اس فلم مین شادی کا بھی ایک منظر تھا۔ شمیم آراء کی شادی تھی فلم میں۔وہ رو رہی تھیں۔اس زمانے میں شاید میک اپ اتنا ترقی یافتہ نہیں ہوگا کہ رونے پر بہہ جائے۔ اب تو باقاعدہ منع کیا جاتا ہے اور اگر کوئی شدت جذبات سے رونا بھی چاہے تو دوسرےیاد دلا دیتے ہیں کہ اتنے لاکھ کا میک اپ ہے باجی۔ بہرحال ان کا بھائی رو رہا ہوتا ہے۔ شمیم آراء انتہائی جذباتی آواز میں کہتی ہے’ بہنوں کی شادی میں بھائی روتے کیوں ہیں’۔ اداکار نے کیا جواب دیا ہمیں یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ ہمارے ماموں نے فورًا جملہ بولا جو کہ آج بھی ہمیں بے اختیار مسکرانے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ کہا ‘کیونکہ وہ گھر کا سارا سامان جو ساتھ لے جاتی ہیں’۔