تحریر: ابنِ ریاض
وقار یونس کا شمار دنیا کے بہترین تیز رفتار گیند بازوں میں ہوتا ہے اور ہمارے پسندیدہ کھلاڑیوں کی فہرست میں وہ ابتدائی نمبروں پر ہیں ۔ تیز رفتار گیند بازی کو وقار یونس نے ایک نئی جہت عطا کی۔ وقارسے قبل باؤنسر تیز گیند باز کا ہتھیار تھا اور اس سے وہ مخالف بلے باز کو خوفزدہ کر کے اسے آؤٹ کرتے تھے تاہم وقار یونس نے گیند آگے کرنے اور ریورس سوئنگ کرنے کو ترجیح دی۔ ان کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وقار یونس کو کھیلنے کے لئے آپ کو ہیلمٹ کی ضروری نہیں بلکہ اپنےپنجوں کو بچانے کے لئے کوئی گارڈ استعمال کریں ۔
وقار یونس اس وقت سامنے آئے جب ہمیں کرکٹ دیکھے تین چار برس ہونے کو تھے سو اس کھیل سے ہمارا لگاؤ اب جنون میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اسی کی دہائی کے اختتامی سالوں میں بھارت انڈر 19 کی ٹیم نے پاکستان انڈر 19 کا دورہ کیا۔ اس سیریز میں بھارت کی جانب سے’ پرنجا پی ‘نے زبردست بیٹنگ اور ‘اکرم قادری ‘نے کمال بائولنگ کی۔ پاکستان انڈر 19 کے کپتان باسط علی تھے۔ انھوں نے 189 کی ایک اننگز کھیلی۔ اس کے علاوہ وقار یونس اور مشتاق احمد بھی اس ٹیم میں تھے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی غیر معمولی نہیں تھی مگر انھوں نے بعد ازاں کافی نام کمایا جب کہ بھارت کے دونوں کھلاڑی گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔
وقار یونس قدرتی تیز رفتار گیند باز تھے۔ان کی خوش قسمتی کہ انھیں عمران خان جیسا کپتان ملا جس نے ان کی تیز رفتاری کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں لائن اور لینتھ کی زیادہ ہدایات کر کے ان کی قدرتی صلاحیت کو زنگ نہیں لگایا۔وقار یونس کا آغاز غیر معمولی نہ تھا۔ شارجہ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک روزہ میچز کا آغاز کیا۔ ڈیسمنڈ ہینز ان کے پہلے شکار بنے۔ وہ نہرو کپ جیتنے والی ٹیم میں بھی شامل تھے۔ اسی سال بھارت کے خلاف کراچی میں ٹیسٹ ڈیبیو کیا۔ یہ ٹیسٹ اس لئے یادگار ہے کہ ٹنڈولکرکا بھی وہ پہلا میچ تھا۔ ٹنڈولکر کو پہلی بار وقار یونس نےہی آؤٹ کیا جبکہ سنجے منجریکر ان کا پہلا شکار بنے ۔
اپنی رفتار کی وجہ سے وہ ‘بوریوالہ ایکسپریس’ کہلائے. جنوبی پنجاب کا یہ چھوٹا سا شہر ان کا آبائی علاقہ ہے اور وقار کی وجہ سے یہ علاقہ پوری دنیا میں مشہور ہو گیا۔1990 سے 1995 تک وقاریونس پانچ سال تک لگاتار بلا شرکت غیرے دنیا کے نمبر ایک گیند باز تھے۔ اپنی رفتار اور اس کے ساتھ ریورس سوئنگ سے انھوں نے دنیا بھر کے بلے بازوں کو نشانہ بنایا۔ وسیم اکرم اور وقار یونس بلے بازوں کے لئے دہشت کی علامت جوڑی تھی۔ نئےآںے والے نچلے نمبرز کے بلے بازوں کو تووہ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتے تھے۔ 1992 میں لیڈز ٹیسٹ میں ایک موقع پر برطانیہ کا اسکور 292 پر دو آؤٹ تھا کہ ایک وکٹ گری اور پھر وقار یونس نے پانچ وکٹیں لے کر انگلستان کی بساط 320 پر لپیٹ لی۔ 1993 میں نیوزی لینڈ کو پاکستان کے خلاف چوتھی اننگز میں جیتنے کے لئے 123 رنز کا ہدف ملا مگر وقار یونس اوروسیم اکرم ان پر قہر بن کر ٹوٹے اور پوری ٹیم کو 93 کو آئوٹ کر دیا۔ 1993 میں ہی پاکستان ٹیم جنوبی افریقہ میں سہ روزہ سیریز میں حصہ لے رہی تھی۔ پہلے میچ میں پاکستان نے 207 رنز بنائے اور ایک موقع پر جنوبی افریقہ نے ایک وکٹ پر 158 رنز بنا لئے تھے۔ جنوبی افریقہ کی قریب پوری ٹیم باقی تھی اور محض پچاس رنز درکار تھے کہ وقار یونس کا جادو چلا اور پاکستان وہ میچ پانچ رنز سے جیت گیا۔ کتنے ہی میچ ایسے ذہن میں ہیں جو پاکستان بظاہر ہار چکا تھا مگر وقار یونس نے اپنی گیند بازی سے ہارے ہوئے میچوں میں فتح پاکستان کی جھولی میں ڈالی۔
2005 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بنگلور ٹیسٹ میچ جاری تھا۔ ابتدائی دو وکٹیں گرنے کے بعد انضمام اور یونس نے شاندار بیٹنگ کی اور سینکڑے جڑ دیئے۔ چائے کے وقفے کے بعد انضام اور یونس بیٹنگ کے لئےآئے تو کمنٹری سنجے منجریکر اور عامر سہیل کر رہے تھے۔ سنجے نے عامر سے کہا ‘کتنی ہی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ فیلڈنگ ٹیم کو معلوم ہوتا ہے کہ بلے باز کی لاپرواہی اور سہل پسندی کے علاوہ وکٹ گرنے کا کوئی امکان نہیں مگر پھر بھی ضوابط کے تحت کھلاڑیوں کومیدان میں اترنا ہوتا ہے۔۔۔عامر آپ کے ساتھ ایسا کتنی مرتبہ ہوا؟’ عامر نے جو جواب دیا وہ آج بھی حرف بحرف یاد ہے۔’ ایک مرتبہ بھی نہیں۔ میں نے ساری کرکٹ وسیم اور وقار کے ساتھ کھیلی۔ ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ ایک گیند کی بات ہے۔ ایک وکٹ گرنے کی بات ہے اور پھر وکٹوں کی جھڑی لگ جائے گی۔ وسیم اکرم بھی باکمال اور عظیم بولر تھے مگر وقار یونس پاکستان کے سب سے بڑے میچ ونر تھے۔ وہ چار اوورز کے اسپیل میں ہی میچ ختم کر دیتے تھے۔ ابھی دو آئوٹ ہیں اور آدھ گھنٹے بعد مخالف کی آٹھ وکٹیں گر چکی ہوتی تھیں’۔
پونے آٹھ سو بین الاقوامی وکٹیں کوئی مذاق نہیں ہے۔ یہ ان کی اپنے شعبے میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ان کی اسی کارکردگی کو بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے بھی تسلیم کیا ہے اور انھیں ‘ہال آف فیم ‘ میں شامل کیا ہے۔ پاکستان میں اڑسٹھ سال سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلی جا رہی ہے اور پاکستان سے وقار یونس سمیت چھ لوگ اس میں شامل ہوئے ہیں جس سے وقار یونس کے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
وقار یونس کی خاص بات ان کی سیکھنے کی لگن تھی۔ جب وہ ٹیم میں آئے تو عمران خان،وسیم اکرم اور عاقب جاوید پہلے سے موجود تھے سو انھیں نئی گیند نہیں ملتی تھی۔ انھوں نے پرانی گیند پر مہارت حاصل کی اور اتنی محنت کی کہ ریورس سوئنگ کو فن کا درجہ مل گیا۔ ریورس سوئنگ وقاریونس کی ایجاد نہیں۔ یہ سرفراز نواز نے شروع کی تھی اور پھر عمران خان کو سکھائی۔ تاہم اسے بامِ عروج پر وقار یونس نے پہنچایا۔ جب انھیں کمر کی تکلیف ہوئی اور ان کی رفتار پہلے جیسی نہیں رہی تو انھوں نے نئی گیند کا استعمال سیکھا اور اپنے کیریئر کو طول دیا۔
وقار یونس مکمل کرکٹر تھے۔ وہ کرکٹ کو کھیلتے ہی نہیں بلکہ سمجھتے بھی تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ کھلاڑی کے لئے سب سے زیادہ اہمیت اس کی فٹنس ہوتی ہے سو انھوں نے اس کا خاص خیال رکھا۔ اپنے پندرہ سالہ کیریئر میں وہ کبھی دوران میچ ان فٹ نہیں ہوئے۔ 1995 میں انھیں کمر کی تکلیف ہوئی تھی جس کی بنا پر ان کی رفتار میں کچھ کمی آئی مگر اس کی وجہ ان کی زیادہ بائولنگ تھی نیز یہ کہ اس زمانے میں کھیل ایسا سائنسی نہیں تھا کہ کھیلوں کے ماہر ڈاکٹر ساتھ ہوں۔
وقار یونس کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہار نہیں مانتے تھے۔ اوپر کچھ میچوں کا ذکر ہے کہ جو ہاری ہوئی جگہ سے انھوں نے تبدیل کیے۔ شارجہ کا 1991 کا میچ بھی ذہن میں آ رہا ہے۔جب ویسٹ انڈیز کو چار گیندوں پر جیتنے کے لئے دو رنز درکار تھے مگر وقار یونس نے بشپ کو آؤٹ کر کے میچ پاکستان کے نام کیا تھا۔ ایسا ہی میچ نیوزی لینڈ میں 1994 میں آکلینڈ میں بھی ہوا تھا۔ پاکستان کی ٹیم نے 160 رنز بنائے تھے۔نیوزی لینڈ نے جواب میں 123 رنز بنا لئے تھے اور اس کے تین آئوٹ تھے کہ وقار نے ایک وکٹ لی اور پھر وہ میچ ٹائی ہوا۔ وہ میچ پاکستان جیت بھی جاتا اگر آخری اوور میں ایک اوور تھرو نہ ہو جاتی۔ ہمارے نزدیک وقاریونس کا برائن لارا کو راولپنڈی میں ان سوئنگ یارکر پر آئوٹ کرنا اور وہ بھی ایسے کہ لارا جیسا عظیم کھلاڑی زمین بوس ہو گیا، اس صدی کی بہترین گیند تھی کیونکہ گیند کے ساتھ ساتھ سامنے موجود کھلاڑی کا معیار بھی تو دیکھا جانا چاہیے۔
وقار یونس کا رن اپ بھی ایک دیدہ زیب نظارہ تھا۔ شعیب اختر نے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ وقار یونس کا رن اپ ایسا تھا جیسے کوئی جہاز پرواز کے لئے رن وے پر دوڑ رہا ہو۔ سری لنکا کے رمیش رتنائیکے اور ویسٹ انڈیز کے این بشپ کے رن اپ بھی بہت خوبصورت تھے مگر وقار کا اس معاملے میں کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ اس وقت دنیا کے بہترین اتھلیٹ یوسین بولٹ بھی وقار یونس کے مداح ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ وقار یونس کی مانند گیند بازی کرنے کی کوشش کرتے تھے تاہم ان کے کوچ نے کہا کہ تم میں دوڑنے کی صلاحیت ہے سواس طرح انھوں نے اتھلیٹکس کی دنیامیں قدم رکھا۔
کرکٹ اعداد کا کھیل ہے۔ مگر اعداد ہی سب کچھ نہیں ہوتے۔ کئی کھلاڑیوں کی بلے بازی کی تکنیک اتنی دلکش ہوتی ہےکہ وہ آنکھوں پربوجھل نہیں محسوس ہوتے مگر ان کا ریکارڈ واجبی سا ہوتا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے کارل ہوپر اس کی بہترین مثال ہیں تاہم وقار یونس کے اعداد کسی بھی عظیم گیند باز سے کم نہیں۔ دو سو سے زائد وکٹیں لینے والوں میں صرف ڈیل اسٹین کا اسٹرائیک ریٹ( ایک وکٹ کے لئے گیندوں کی تعداد) ان سے بہتر ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وقار یونس نے اس دور میں وکٹیں لیں جب ہماری فیلڈنگ کا معیار آج سے بھی بدتر تھا۔ نہ ہی جدید ٹیکنالوجی تھی کہ امپائر کا فیصلہ چیلنج کیا جا سکے اور نہ ہی ہر میچ میں تمام امپائر غیر جانبدار ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ون ڈے میں اب بھی سب سے زیادہ مرتبہ ایک اننگز میں پانچ یا زائد وکٹیں لینے والے گیند باز ہیں۔
وقار یونس کو کرکٹ کھیلنا چھوڑے پندرہ برس ہو چکے ہیں مگر کرکٹ کے میدانوں میں ان کی گھومتی ہوئی گیندیں اب بھی شائقین کے دل و دماغ میں نقش ہیں۔ کرکٹ کھیلنا ضرور چھوڑی مگر کرکٹ سے ان کی وابستگی کم نہ ہو سکی۔ کبھی وہ کمنٹری کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی اپنا تجربہ دوسرے کو منتقل کرنے کے لئے کوچنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ کوچنگ کا ان کا تجربہ زیادہ اچھا نہیں مگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ استاد سے سیکھتا وہی ہے جو مودب ہو اوراس میں آگے بڑھنے کی جستجو ہو۔