لنکاوی سے واپس آنے کے بعد ہمارے پاس دو دن باقی تھے۔ یہ دو دن ہمیں وہیں گزارنے تھے۔ ایک تو ہمارے پاس رقم کم تھی اور دوسرے صحت بھی زیادہ سفر کی متحمل نہیں تھی۔ہم نے وہ دن کانگر میں ہی گزارے۔ ان دو دنوں میں ہم اپنا سامان سمیٹتے رہے کہ کچھ رہ ۔۔۔مزید!
ہم نے ‘لنکاوی’ ڈھا دیا
ابھی ہم سعودی عرب میں ہی تھے کہ اپنے ایک رفیق کار سے ہم نے ملایشیا میں داخلے کا ذکر کیا اور بتایا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کا کچھ حصہ ہمیں ملائشیا میں گزارنا ہے۔ ہمارا وہ ساتھی اردن سے ہے مگر اس کی ماسٹرز ڈگری بھی ملایشیا سے ہی ہے۔ اس سے ہم نے ۔۔۔مزید!
نگران سے ملاقات
ہم کچھ دیر تو وہیں کھڑے رہے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔اگر غلط مقام پر جا پہنچے تو واپسی کی ہمت بھی نہیں ہونی۔ ہم نے اللہ کا نام لیا اور چل پڑے۔ کچھ ہی آگے چلے تھے کہ ایک طالب علم مخالف سمت سے آتا دکھائی دیا۔ہم نے اسے روک کے اپنے ۔۔۔مزید!
بالآخر ہم جامعہ پہنچ گئے
اگلےروز ہم اٹھے اورپائو کیمپس جانے کی تیاری شروع کی۔ گلا تو خراب تھا ۔سوچا کہ اگر نگران نے گانا سننے کی فرمائش کر دی تو اگلی ملاقات پر ٹال دیں گے۔ باقی تیاری ہم نے کر لی۔ کپڑے یعنی کہ پینٹ شرٹ ہم نےرات میں ہی استری کر دی تھی۔ باقی حاجات ضروریہ سے ۔۔۔مزید!
ڈھونڈنا ہمارا جامعہ کو
اگلے رو ز یعنی کہ پیر کو ہمیں جامعہ جانا تھا کہ اپنا وہاں بطور طالب علم اندراج کروا سکیں۔ اتوار کی رات ہی ہم نے کپڑےاستری کے لئے اور گوگل میں ہم نے کانگر کا نقشہ کھولا اور لگے ڈھونڈنے جامعہ کو۔مگر یہ کیا جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے نقشے ۔۔۔مزید!
کانگر کے ابتدائی شب و روز
ٹیکسی والے کو کرایہ اوردل ہی دل میں صلواتیں دینے کے بعد ہم نے ہوٹل استقبالیہ کا رخ کیا۔ استقبالیہ پر ایک خاتون تھی۔ بکنگ تو پہلے ہی ہو چکی تھی تا ہم انھوں نےہمارا پاسپورٹ لیا اور کچھ اندراج کرکے ہمارے حوالے کر دیا۔چابی لے کرہمارے ساتھ گئی اور ہمیں مطلوبہ کمرہ دکھا دیا۔ ۔۔۔مزید!