تحریر: ابنِ ریاض
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، اپنے ملک کی معیشت کو ہمیشہ حالتِ نزع میں ہی دیکھا ہے۔ مختلف ڈاکٹر (بمعنی حکومتیں) آئے۔ ہر ایک نے دعوٰی کیا کہ میرے لئے اس کو ٹھیک کرنا کوئی مشکل نہیں۔ بس کچھ ماہ انتظار کریں۔ تاہم معیشت کو مزید جھٹکا دے کر چلتے بنے۔ یہاں معیشت سے مراد ملکی معیشت ہے۔ ذاتی معیشت اس دوران روز افروں پھلتی پھولتی رہی ہے۔ہر حکومت نے اپنے سے پچھلی حکومت کو معیشت کی کمزوری کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ موجودہ حکومت کا موقف بھی دیگر نہیں۔
حکومت معاشی مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ ہے اور سی پیک جیسے منصوبوں کو پچھلی حکومت سے مخاصمت کے باوجود جاری رکھے ہوئے ہے۔اس سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
سی پیک اور اس جیسے دوسرے منصوبے کئی سالوں پر محیط ہیں اور ان کے فوائد اس کے بھی بہت عرصے بعد نظرآئیں گے تب تک کیا عوام مہنگائی کے طوفان میں پستے رہیں گے ؟ حکومت اپنی سی کوشش کررہی ہے مگر ان کے پاس وہ بصیرت ہی نہیں جس سے معیشت کے مسائل حل ہو سکیں۔ روایتی طریقوں کے اثرات تو پچھلے کئی عشروں میں نہیں نظرآئے سو اب بھی ان کی کامیابی کے امکانات صفر بٹا صفر ہی ہیں۔ ہماری معیشت کا اصل مسئلہ قرضے ہیں اور ہم لوہے کو لوہا کاٹتا ہے کے مصداق مزید قرضے لے کر اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔
میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
ہمارا خیال تھا کہ موجودہ حکومت ہماری صلاحیت سے فائدہ اٹھائے گی اور معیشت کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کر دے گی مگر اب بھی اقربا پروروں کو ہی نوازا گیا ہے۔وزیرِ خزانہ کے استعفٰے کے بعد سیٹ خالی ہوئی تو ہمیں امید لگی کہ شاید اس بار وزیر اعظم کی نظرقابلیت پر ٹھہرے مگر وہی ہوا جو پہلے سے ہوتا آیا ہے کہ ہماری معیشت کے نصیب میں نہیں شاید ٹھیک ہونا۔ہمیں تو عہدہ نہیں ملا مگر عوامی مفاد میں ہم اپنے منصوبے بتا دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا مقصد جلبِ منفعت نہیں خدمتِ عوام ہے۔وزارتِ خزانہ چاہے تو استفادہ کر لے۔
۔ ہم نے دیکھا کہ بعض بچے اکثرو بیشتر بیمار رہتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی دوائی انھیں چند روز سکون پہنچاتی ہے۔ مگر ان کی بے چین آتما کو قرار بیمار ہو کر ہی ملتا ہے۔انھیں کسی پیر یا عالم کے پاس لے کے جایا جائے تو وہ اپنا عمل کرنے کے بعد بتاتے ہیں کہ اس بچے کی صحت کے حساب سے اس کا نام بہت بھاری ہے۔ نام بدل دو تو بچہ ٹھیک ہو جائے گا۔ پھر وہ نام بھی تجویز کر دیتے ہیں۔کئی بچوں کو ہم نے دیکھا کہ نام بدلنے سے وہ صحتمند ہو گئے۔ ہمیں تو پاکستان کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ مسئلہ معلوم ہو رہا ہے۔ممکن ہے کہ نام بدلنے سے افاقہ ہو جائے اور اس کے مسائل جو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں، حل ہو جائیں۔ جب ایک صوبے کا نام بدلا جا سکتا ہے تو پورے ملک کا نام بدلنے میں کیا قباحت ہے۔ یوں بھی ملک کا نام ایک ایسی جس شخصیت نے رکھا جسے ہم نے یہاں رہنے دیا اور نہ اس زمین میں دفن ہونے کا اعزاز دیا ۔ اپنے ملک کا امریکہ نام رکھنے سے ملک میں نہ صرف دہشت گردی ختم ہو جائے گی بلکہ ہم سب پر دھونس بھی جما سکیں گے۔بھارت نام رکھ لینے میں بھی حرج نہیں۔ ہماری شہ رگ یعنی کشمیر کا ہمارے ساتھ الحاق ہوجائے گا ورنہ یہ مسئلہ تو مستقبل بعید میں بھی حل ہوتا نظر نہیں آتا۔
اگر ملک کا نام تبدیل کرنا گوارا نہیں ہے تو کرنسی کا نام بدلنے میں تو کوئی حرج نہیں۔ اپنے روپے کا نام ہم ڈالر رکھ لیں تو قرضے یک جنبش قلم ڈیڑھ سو گنا کم ہو جائیں گے۔ ڈیم کے لئے رقم بھی مل جائے گی۔ڈالر ہمارے وزن کی طرح ہے مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی روپیہ ہمارے کچھ ہم جماعتوں جیسا ہے جو ایک ہی ماہ میں پانچ پانچ کلو وزن کم کر لیتے ہیں۔روپے کو ڈالر سے تبدیل کرنے کے بعد ہم فی کس آمدنی میں اول نمبر پرآ جائیں گے اور ہر طرف دولت کی ریل پیل ہو جائے گی۔
ہمارے بیرونی قرضے سو ارب ڈالرز تک جا پہنچے ہیں۔ان کی ادائیگی کے بغیر معیشت کا مکمل استحکام ممکن نہیں۔ محمد بن سلیمان نے کچھ عرصہ قبل اقرار کیا ہے وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں ۔سو محمد بن سلیمان سے کہیں کہ ہمیں سو عرب چاہییں ۔ بھلے سزائے موت کے قیدی ہی کیوں نہ ہوں بس ہمارے حوالے کر دو۔ساتھ ایک ڈالر بھی لیں۔ان عربوں اور ڈالر کو بین الااقوامی اداروں کو دیں اور کہیں کہ یہ لو اپنے سو عرب ڈالر۔ ہمارا تمھارا ادھار ختم ۔ اگر وہ ارب اور عرب کی بحث میں پڑیں تو انھیں ایک آزاد قوم کی طرح بتا دیا جائے کہ ہمارے عرب تمھارے اربوں سے زیادہ قیمتی ہیں۔ اندرونی ادارے اگر قرضہ مانگیں تو ان کو آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائے۔ یوں معمولی کوشش سے تمام قرضوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
قرضوں کی ادائیگی کیے بعد معاشی سرگرمیوں کے لئے رقم وافر مقدارمیں موجود ہونی چاہیے۔ س کا حل یہ ہے کہ حکومت پیسے چھاپ کر لوگوں کو دے ۔ پچھلے دور حکومت میں دو ارب کے نوٹ روز چھپا کرتے تھے۔اب حکومت تنہا نوٹ چھاپے گی تو ملکی ضروریات پوری ہونا بہت مشکل۔ بیس کروڑ کی آبادی اور محض دو ارب روپیہ۔ یعنی فی کس دس روپے بنتےہیں۔ اس سے غربت و مہنگائی کیا کم ہو گی۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ کرنسی نجی شعبے کے حوالے کر دے۔ بلکہ عوام کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ خود نوٹ چھاپ لیں۔ کرنسی نوٹ چھاپنے والی میشینیں حکومت ارزاں نرخوں پر فراہم کرے۔
معاشیات کے ماہر کہتے ہیں کہ نوٹ چھاپنے کے لئے ایک مقرر مقدار میں سونا موجود ہونا چاہیے تو سونے میں بھی یہ قوم خود کفیل ہے۔ ستر سال سے قوم سو ہی رہی ہے۔ ان کے خراٹوں کے ساتھ مشین لگا دی جائے توہم ساری دنیا کو نوٹ تقسیم کر سکتے ہیں۔
ہماری عوام فضول خرچ بھی ہے سو بعض غیر ضروری اشیاء پر ٹیکس بھی لگایا جا سکتا ہے تاکہ ان کے غیر ضروری استعمال کی حوصلہ شکنی ہو۔ حکومت کوشش تو کرتی ہے مگر کوئی نہ کوئی چیز ٹیکس کی مد میں آنے سے رہ ہی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم مشورہ دیتے ہیں کہ حکومت کو سانس پر ٹیکس لگا دینا چاہیے۔ اس سے آکسیجن کی بچت ہو گی اور وہی آکسیجن پانی بنانے کے کام آئے گی اور یوں آبی وسائل میں بھی ہم خود کفیل ہو جائیں گے۔
امیروں کو بیرونِ ملک پیسے رکھنے کی سہولت دی جائے ورنہ ملک میں امیروں کا قحط پڑ جائے گا۔ یوں بھی امیر ملک میں ہیں ہی کتنے۔ تاہم اگر وہ ملک میں پیسہ رکھنا چاہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ان کی رقم پر ٹیکس ہو نہ زکوۃ۔ اس کے علاوہ کھربوں لوٹنے والوں سے کچھ کروڑ لے کر انھیں ایمنسٹی دے دی جائے۔ یوں بھاگتے چور کی لنگوٹی تو ہمیں مل جائے گی۔
موجودہ حکومت پاکستان کو سیاحت میں سوئٹزرلینڈ بننا چاہتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ طویل المیعاد منصوبہ بندی ہے۔ ہمیں ان جیسا انفرا سٹرکچر اور ہوٹلز بنانے میں سالوں لگ جائیں گے۔ہم کیوں نہ کالے دھن میں سوئٹزرلینڈ کی پیروی کر لیں۔ دنیا بھر کے لوگوں کو ترغیب دیں کہ ہمارے ہاں اپنا کالا دھن جمع کروائیں اور سفید کر کے لے جائیں۔
ضرورت سے زائد اور لگثری گاڑیاں بیچنے میں کوئی قباحت نہیں ۔اس سے عوام کو سادگی اور کفایت شعاری کا پیغام ملتا ہے مگر مستعمل گاڑیاں اور بھینسوں کی فروخت سے ذخائر میں اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ والی بات ہے۔کچھ اچھی باتیں ماضی کی حکومتوں سے بھی لی جا سکتی ہیں۔ ایک حکومت نے اپنے دور میں ڈالر کو ساٹھ سے ایک روپیہ اوپر نہیں جانے دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے تجارت کی۔ انسانوں کی تجارت اور امریکہ کے مطلوب بندے بیچ کر لاکھوں ڈالرز زرِ مبادلہ کمایا۔ اب بھی بھارت کو پلوامہ واقعے کے بعد ایک شخصیت مطلوب ہے۔چونکہ ملک کے لئے قربانی دینے والوں کی کمی نہیں سو ایسی مزید شخصیات بھی آرڈر پر تیار کی جا سکتی ہیں۔ اور لاکھوں بلکہ کروڑوں ڈالرز سالانہ زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔