چور کی داڑھی میں تنکا «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • چور کی داڑھی میں تنکا

    تحریر: ابنِ ریاض

    فیس بک پر ایک پوسٹ لگی ہے جس میں ادیب و شاعر خواتین حضرات سے یہ پوچھا گیا ہے کہ اپنے متعلق بات کرتے ہوئے آخر وہ واحد متکلم کی جگہ جمع متکلم کا صیغہ کیوں استعمال کرتے ہیں۔بھلا ‘میں کی بجائے ‘ہم’ استعمال کرنے کیا کیا تک ہے؟ ہم کا استعمال گرائمر کی رو سے بھی غلط ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کام کئی افراد نے مل کر کیا ہے۔ اس کے علاوہ پرسٹ پر کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ ادیب و لکھاری حضرات کے تکبر و غرور کو ظاہر کرتا ہے۔ مزید براں یہ کہہ کر کہ ‘ہم’ تو کراچی والے واحد متکلم کے لئے استعمال کرتے ہیں، صوبائی عصبیت کو بھی ہوا دی گئی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ ہم کا صیغہ صرف باری تعالٰی کے ساتھ ہی  جچتا ہے اور عام لوگوں کو اس کے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

    جہاں تک رب باری تعالٰی کا تعلق ہے تو وہ تو مالک و مختار ہے اس پوری کائنات کا۔ جب پوری کائنات پر ہی اس کی حکمرانی ہے تو وہ جو چاہے استعمال کرے جہاں چاہے ‘ہم’ سے خود کو مخاطب کرے اور جب چاہے ‘میں’کہہ کر اپنا تذکرہ کرے وہ اس کا اختیار ہے مگر اتنا ہمیں معلوم ہے کہ جن ہم سے کوئی دوسرا مسلمان ملتا ہے تو خواہ وہ ایک ہی ہو، اس کے لئے السلام علیکم  جو کہ مخاطب جمع کا صیغہ ہے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی کسی مرد واحد کو السلام علیک یا خاتون کو السلام علیکِ نہیں کہا گیا۔اس کی تو جیہہ جو ہمیں بتائی گئی کچھ یوں ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دو کرامًا کاتبین بھی ہو جاتے ہیں اور اس کا ہمزاد بھی۔ اس لئے جمع کا صیغہ استعمال ہوتا ہے تو وہ اگر اپنے لئے خود جمع کا صیغہ استعمال کرے تو چہ معنی دارد؟  تاہم حیرت اس بات پر ہے کہ اگر کوئی شاعر یا مصنف اپنے لیئے ہم کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کا غرور و تکبر سے کیا ناطہ۔ وہ ایک لفظ کے استعمال سے منکسر سے متکبر کیسے ہو گیا؟

    قلم کار لوگ ایک قبیلہ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دوست ٖاور مونس و ساتھی۔ وہ کسی موقع پر اپنے ساتھیوں اور دوست قلم کاروں کو نہیں بھولتے۔ سو ہم ان کا تکیہ کلام بن جاتا ہے۔جہاں میں کا استعمال ہو سکتا اکثر وہاں بھی وہ ہم استعمال کر جاتے ہیں مگر یہ کوئی ایسی بڑی بات بھی نہیں کہ جو درگزر نہ کی جا سکے۔ آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہو گا کہ ایک لڑکا طالب علم رہنما تھا۔ سو کالج کی تمام لڑکیوں کو بہن کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ کالج کے کچھ عرصے بعد اسے اس کا ایک ہم جماعت ملا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے پوچھا کہ سنائو شادی ہوئی کہ نہیں تو رہنما صاحب شرما کے کہنے لگے۔ ابھی تو نہیں ہوئی مگر دو چار بہنوں سے بات جاری ہے۔

    ‘ہم’ کے استعمال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے زیادہ تر دوست کئی شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار، کالم نویس اور ڈرامہ نگار کے ساتھساتھ شاعر بھی ہیں۔ ایک ڈائجسٹ میں ان کا قسط وار کالم آ رہا ہے تو ایک چینل پر ان کا ڈرامہ شروع ہونے والا ہے۔ کوئی ان سے خاص نمبر کے لئے افسانہ مانگ رہا ہے تو کسی اخبار کے کالم میں وہ ملکی صورت حال پر تبصرہ کرتے اور ملک کی نائو کو پار لگانے کے نادر مشورے دے رہے ہوتے ہیں۔ رات کو نیند نہ آئے تو ایک آدھ غزل ضرور آجاتی ہے۔ اخبار کی ایڈیٹری اس کے علاوہ۔ بعض تو ایسے باکمال ہیں کہ ان سب کے باوجود ازدواجی زندگی کی گاڑی بھی یوں چلا رہے کہ منہ سے کبھی اف تک نہیں نکالتے اور

    آہ نہ کر لبوں کو سی

    عشق ہے دل لگی نہیں

    کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ایسے ہمہ جہت افراداگر میں کی بجائے متکلم کا صیغہ استعمال کرتے ہیں تو ہماری دانست میں تو یہ ان کا حق ہے۔

    ہم کے استعمال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کلام کسی اور کا ہوتا ہے اور اس پر نام کسی اور کا۔آپ نے چوتھی پانچویں کے بچوں کو تقریر کرتے تو دیکھا ہو گا۔ تقریر جو کر رہا ہوتا ہے وہ اور ہوتا ہے اور ایسی شاندار تقریر لکھنے والا یقینًا وہ بچہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی بعض ادیبوں کا صرف نام ہوتا ہے اور اندر تحریر کسی اور مردِ درویش کی جو دنیاوی نام و نمود کو در خور اعتناء نہیں گردانتے۔ اس موقع پر ایک راست گو تحریر و تخلیق کے ذکر پر میں کہہ کر بھلا گنہگار کیوں کر ہو سکتا ہے۔

    ہم نہ تین میں نہ تیرہ میں، یعنی کہ نہ کبھی افسانہ لکھا نہ ہی ہماری کوئی غزل کبھی شایع ہوئی۔ ڈرامہ بھی ہم صرف گھر میں کرتے ہیں کبھی کبھی بوقت ضرورت مگر پھر بھی ‘ہم، کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم یہ سب نہ سہی مگر بیک وقت استاد و طالب علم ہیں۔ کرکٹ دیکھتے بھی ہیں اور تبصرہ بھی کر سکتے ہیں۔ اور بھی کچھ صفات ہیں جن سے ہماری ذات والہ صفات خالی نہیں۔ یوں ہم بھی اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ یہاں اداکارہ انجمن کا تذکرہ نہیں کہ باوجود کوشش کے ہم تو ان کے نصف بھی نہیں۔

     میں کا لفظ کچھ غیر مہذب سا بھی ہے کیونکہ یہ بکری کی آواز سے مشابہہ ہے۔یوں بھی ہمارے کالم  اکثر و بیشتر ہماری آپ بیتیاں ہوتے ہیں تو اگر ہم میں لکھنا شروع کر دیں تو کالم میں اتنی میں میں ہو گی  جتنی کہ میمنا بھوک کے وقت بھی نہیں کرتا ہو گا۔اقبال کا ایک مصرعہ ہے بکری سے متعلق کہ

    یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی

    بکری کی میں میں سے تنگ آ کر ہی تو ڈاکٹر صاحب نے قوم کو درس دیا کہ اس کی میں میں پر نہ جائو اور اپنی ‘میں ‘ کو پہچانو۔  ابھی تک بہت سے لوگ اقبال کی بات کو سمجھ نہیں پائے اور اسی میں کے ساتھ اپنی میں ملا دیتے ہیں مگر ہم نے میں کو ہم کر دیا ہے۔

    یہ تو ہماری رائے تھی جس کو نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی گردانیے مگر دیکھیں کہ بڑے بڑے شاعر کیسے مغرور تھے اور ساتھ ساتھ الطاف بھائی سے اظہار یکجہتی بھی کرتے نظر آتے ہیں

    غالب فرماتے ہیں

    پوچھتے ہیں حضور ٖغالب کون ہے

    کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا

    احمد فراز کی بھی سنیں

    ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت

    ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا

    اور تو اور طاہرہ سید کو دیکھ کے انھوں نے فورًا یہ کلام کہا  کہ

    ہم سا ہو تو سامنے آئے(معلوم نہیں کہ مصرعہ کتنوں نے مل کر تخلیق کیا)

    ناصرکاظمی بھی کہ جداگانہ حیثیت کے مالک تھے اس شعر میں ‘موج  ہے دریا میں’ کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں

    دائم آباد رہے گی دنیا

    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

    اور تو اور ہمارے انشاء جی جو کہ عجز و انکسار کی تصویر تھے، یہاں وہ  بھی بھول کر بیٹھے مگر ان کو ہم دوش نہیں دے سکتے کہ انھیں تو کراچی میں رہنا تھا

    ہم جنگل کے جوگی لوگو ہم کو چین کہاں آرام کہاں

    آج یہاں اور کل ہیں وہاں، صبح کہاں اور شام کہاں

    بھارتی گلوکار طلعت محمود کا ایک گانا بھی ذہن میں آ رہا ہے جس کے بول ہیں

    ہم سے آیا نہ گیا ان سے بلایا نہ گیا

    فاصلہ پیار میں ‘دونوں’ سے مٹایا نہ گیا

    یعنی کہ ہم اور ان مل کے دو ہوئے ورنہ یہاں سینکڑوں کا لفظ زیادہ جچتا ہے۔

    نوے کی دہائی میں ہم ایک بار گرمی کی چھٹیوں میں لاہور تھے۔ وہاں بھارت کا دور درشن آتا تھا اور ہفتے کی رات شاید وہ فلم دکھاتے تھے۔ ہم نے زندگی میں کوئی چھ سات فلمیں دیکھی ہیں۔ انھی میں سے ایک فلم ‘شکتی’ بھی تھی۔ دلیپ کمار، امیتابھ بچن اور سمیتا پاٹیل تھے اس فلم میں۔ اس فلم کا ایک گانا سمیتا پاٹیک پر تھا جو آج بھی بہت مقبول ہے

    ہم نے صنم کو خط لکھا

    یہ گانا لتا جی کا ہے اور سمیتا پاٹیل پر ہے۔ فلم میں صرف سمیتا اور امیتابھ ہی پورے گانے میں تھے۔ اگر آج کا دور ہوتا اور سمیتا کے ساتھ دو ہزار لوگ اور بھی یہی کہہ رہے ہوتے کہ’ ہم نے  صنم کو خط لکھا’ تو ان میں سے اصلی کاتب کا پتہ چلانے میں ہیرو کو لگ پتا جاتا۔

    درج بالا مثالوں سے بھی یہ بات بالکل واضح ہے کہ ‘ہم’ ہی ‘میں’ ہے اور ‘میں’ ہی ‘ہم’ ہے۔ (ریاضی کے استاد کی روح در آئی ہمارے اندر)۔اگر ابھی بھی سمجھ نہیں آئی تو اس کو  رٹ لیں کہ امتحان میں اس سوال کے آنے کے امکانات روشن ہیں۔

    ہمیں امید کیا یقین ہے کہ وہ پوسٹ ہمارے متعلق نہیں تھی۔اتفاقًا ہی ہمیں اس میں منسلک کر دیا گیا تھا مگر ایک محاورے کے مطابق ہمیں محسوس ہوا کہ اس کے مخاطب ہم ہیں کہ ہم بھی اس لفظ کا استعمال بکثرت کرتے ہیں تو ہم نے وضاحت دے دی۔ تمام ‘ہم’ استعمال کرنے والے دوست اس تحریر کوبچوں کی پہنچ سے دور رکھیں اور بوقت ضرورت ہماری ہدایت کے مطابق استعمال کریں۔ شکریہ۔

    ٹیگز: , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔