تحریر: ابنِ ریاض
چائے کو کون نہیں جانتا۔ مشرق سے لے کر مغرب تک ہر دوسرا شخص اس کے عشق میں ڈوبا ہوا ہے اور اس میں رنگ و نسل، پیر و جوان اور مرد و زن کی تخصیص نہیں۔ انھی خصوصیات کی بنا پر چائے کے عاشق اسے ‘اشرف المشروبات’ بھی کہتے ہیں۔چائے سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگا دیں کہ خیبر پختون خواہ کی گزشتہ حکومت پانچ سال میں دو ارب کی چائے پی گئی اور ڈکا ر بھی نہ مارا(ویسے چائے سے ڈکار آتے بھی نہیں ہیں)۔ یوں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ اکثرسرکاری ملازمین تو دفتر جاتے ہی چائے پینےاور اخبار پڑھنے کے لئے ہیں۔ گھر میں اتنی چائے مانگنے پر بیگم نے وہ سنانی ہیں کہ انھیں چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا۔ دودھ تو چھٹی کا مل جاتا ہے مگر پتی نہیں ملتی کہ چائے بن سکے۔اگر ہم بطور قوم چائےہی آدھی کر دیں تو ملک کا کافی زرِ مبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔بھینسوں کے بعد حکومت کا اگلا ہدف چائے ہونی چاہیے اور عوام کو حکومت بتائے کہ پچھلی حکومتیں چائے کی کیسی عیاشی کر گئی ہیں۔ حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ انھی بھینسوں کا دودھ چائے میں بھی استعمال ہوتا تھاگویا کرپشن پر کرپشن۔
چائے کے عاشقین میں ہمارا بھی شمار ہے۔ ہمارے لئے پراٹھا اور چائے پٹرول کا کام کرتے ہیں یعنی ان کے بغیر ہماری صبح ہو جائےتو ہمیں اپنا آپ بیگانہ سا محسوس ہوتاہے۔ چائے کے ہم بچپن سے ہی شوقین ہیں۔ صبح شام چائے ہماری ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی مل جائے تو انکار کر کے کفرانِ نعمت کے مرتکب نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ سارا دن چائے پیتے ہیں۔ پندرہ بیس پیالیاں تو ان کے لئے عام بات ہے۔ ایسے لوگوں کی شریانوں میں چائے خون بن کر دوڑتی ہےاور اگر ان کا خون کا گروپ معلوم کیا جائے تو وہ ٹی پازیٹو نکلتا ہے۔ بچپن میں ہمیں دادی ایک مرتبہ جنت کے متعلق بتا رہی تھیں کہ وہاں شہد ہو گا، ہر قسم کے لذیذ پھل ہوں گے اوردودھ کی نہریں جاری ہوں گی۔ہم نے بے ساختہ پوچھا کہ دادی جنت میں چائے ملے گی ؟ دادی نے کیا جواب دیا یہ یاد نہیں مگر جب بھی بات ہماری چائے پر آئے تو ہمیں یہ جملہ یاد کروا کر شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔
چائے بھی عجیب چیز ہے۔ اگر کسی کو ٹھنڈ لگ رہی ہے تو چائے گرم کر دے گی جبکہ گرمی کی صورت میں ٹھنڈا کرنا اسی مشروب کا کام ہے۔ اگر افسردہ ہیں توآپ کاموڈ ٹھیک کر دے گی اور اگر کسی معاملے میں آپ بہت زیادہ جوشیلے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو آپ کو پرسکون کردے گی۔
چائے کے بنیادی اجزا پتی اور دودھ ہیں۔ سعودی عرب میں چائے بغیر دودھ کے بھی ہوتی ہے۔ ہمیں تو وہ پتی اور ابلا ہوا پانی ہی محسوس ہوتا ہے سو ہم نے کبھی اس پر نظرِ التفات نہیں کی۔ دودھ کے بغیر چائے ایسی ہی ہے جیسے مفتی منیب الرحمان کے بغیر روئیتِ ہلال کمیٹی۔ چائے کی کچھ اقسام بھی ہیں۔ جیسے کشمیری چائے۔یہ کشمیر کی طرح بہت خوبصورت اور لذیذ ہوتی ہے لیکن جیسے کشمیری پاکستانیوں سے عام نہیں مل سکتے ایسے ہی پاکستانیوں کوکشمیری چائے بھی عام نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ سبز چائے بھی ہوتی ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ بسکٹ کیک رکھنے کا رواج نہیں ہے سو کفایت شعار گھرانے اس کو زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹی بیگز والی چائے بھی ہوتی ہے۔وہ بن جلدی جاتی ہے مگر ذائقہ میں پتیلے میں بننے والی چائے کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کچھ لوگ دودھ زیادہ پسند کرتے ہیں تو کچھ کو زیادہ پتی والی چائے مرغوب ہوتی ہے۔ہمارا شمار آخر الذکر میں ہے۔ جب تک جائے کڑک نہ ہو پینے میں مزہ نہیں آتا۔
چائے ایسا مشروب ہے جو ہر کوئی بناسکتا ہے حتٰی کہ ہم بھی۔تاہم ہمارا مشورہ ہے کہ سست لوگوں کو کبھی اچھی چائے نہیں بنانی چاہیے، اگر اچھی بن جائے تو خود ہی ساری پی لیں۔ اگر گزارے لائق بنے تو سب میں تقسیم کر دیں۔ اچھی چائے بنانے کی صورت میں گھر والے چائے بنانا آپ کی ذمہ داری میں شامل کر دیں گےاور دن میں کئی مرتبہ یہ فریضہ آپ کو سر انجام دینا پڑے گا۔ ایک مرتبہ ہمارے گھر ایک صاحب آئے۔ چائے بنانے کی ذمہ دار ی گھر والوں نے ہم پر ڈالی۔ ہم نے سرِ تسلیمِ خم کیا۔ چائے بنا کے پیش کی تو پینے والوں نے پہلا گھونٹ بھرتے ہی چائے رکھ دی۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ہوا تو کہا کہ خود پی کر دیکھیں۔ ہم نے ایک گھونٹ بھرا تو ہمارے پاس بھی چائے رکھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا کہ ہم نے چائے میں چینی کی جگہ کئی چمچ نمک ڈال دیا تھا۔ اس کے بعد گھر والوں نے ہمیں چائے بنانے کی زحمت نہیں دی۔
چائے ہمارے ہاں انگریز لایا تھا۔ اس سے پہلے برصغیر کے لوگ اس سے ناآشنا تھے۔ لسی پی کر دن میں بھی سوئے رہتے تھے۔اب رات میں بھی جاگتے ہیں۔ ہم اس بات کو نہیں مانتے۔ ہم تو چائے پی کر فوراً سو سکتے ہیں۔ اس کےعلاوہ بھی چائے کے متعلق کچھ غلط فہمیاں ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ چائے پینےسے رنگ کالا ہو جاتا ہے اور پھر رشتہ نہیں ملتا۔۔ہمارا تو آ ج تک رنگ کالا نہیں ہوا۔ یہ تصویر میں جو آپ کو دکھائی دے رہا دراصل یہ تصویر اندھیرے میں لی گئی ہے۔
چائے پینے کا کچھ لوگوں کو اپنا انداز ہوتا ہے۔ وہ چائے کے ہر گھونٹ کے ساتھ سُڑ سُڑ کی آوازیں نکالتے ہیں۔ یہ آوازیں بعض لوگ تو برداشت کر لیتے ہیں اور بعض کی سماعتوں پر یہ ناگوار ناگوارگزرتی ہیں اور وہ اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ اب چائے پینے والے کوشش تو کرتے ہیں کہ آواز نہ نکالیں مگر ان کی پھر حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسی کسی شاعر نے نئی غزل لکھی ہو اور اسے وہ غزل سنانے سے منع کر دیا جائے۔ پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تنگ ہونے والوں کو مزید تنگ کرنے کے لئے جان بوجھ کر ایسی آوازیں نکالتے ہیں۔ ہماری ہمشیرہ کو بھی بچپن میں ایسی آوازیں بہت بری لگتی تھیں۔ سو ایک مرتبہ اسے چڑانے کے لئے ہمارے نانا ابو اور ماموں آمنے سامنے بیٹھے تھے چائے پیتے ہوئے سڑڑ کی آوازیں دانستہ نکال رہے تھے۔ مقصدہمشیرہ کو تنگ کرناتھا۔ ہماری ہمشیرہ کے چہرے کے زاویے اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ اس صورتحال سے بالکل خوش نہیں ہے مگر چونکہ دونوں بڑے ہیں توکچھ کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی۔ سو وہ روہانسی ہو گئی۔ نانا اور ماموں دونوں اپنی منصوبہ بندی کی کامیابی پر بے اختیار ہنسے تو ان کے منہ سے نکلی چائے ایک دوسرے کے کپڑوں پرجا گری۔ اب دونوں کو اپنے کپڑوں کی پڑ گئی۔ پانی اور نمک سے داغ دھوئے اور پھر کھسیانے ہو کر چائے پینے لگے جبکہ اب ہماری ہمشیرہ کی باری تھی کھلکھلانےکی۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اگست 1st, 2019
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: humor, Humour, Ibn e Riaz, Shagufa e seher, tea