تحریر: ابنِ ریاض
فرید احمد 1923ء میں کاکس بازار مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے۔ 1947ء تک وہ ایم اے انگریزی اور ایل ایل بی کی ڈگریاں کے ساتھ ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے۔ شروع سے ہی انھیں سیاست میں دلچسپی تھی۔ 1952ء میں انھوں نے نظامِ اسلام پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1954ء میں وہ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1955ء میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آئی آئی چندریگر کی کابینہ میں وزیر کے عہدے پر فائز رہے۔ 1962ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر 1965ء تک پنبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ 1964ء میں وہ مشرقی پاکستان متحدہ حزب اختلاف کے چیئرمین منتخب ہوئے اور 1965ء میں دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بنے۔
1965ء میں انھوں نے محمد علی باکسر پر ایک کتاب لکھی۔ 1967ء میں متحدہ جہموری تحریک میں شامل ہوئے اور ایوب خان کے خلاف تحریک میں حصہ لیا۔ 1969ء میں نظامِ اسلام پارٹی کے نمائندے کے طور پر ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ 1970ء کے الیکشن میں وہ عوامی لیگ کے سیلاب میں اپنی سیٹ نہ بچا سکے تاہم انھوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مخالفت کی اور مکتی باہنی کے خلاف پاکستان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ مشرقی پاکستان کے حالات سے پریشان ہو کر 10 اپریل 1971ء کو انھوں نے "مشرقی پاکستان مرکزی امن کمیٹی” قائم کی۔ دیگر حیثیتوں میں بھی وہ مشرقی پاکستان میں امن کے لئے کام کرتے رہے۔
یہ ایک سیاستدان کی بظاہر عام سی زندگی ہے اور اس میں ان کی بظاہر کوئی غیرمعمولی کامیابی بھی نہیں ہے مگر اس کے باوجود مولوی فرید احمد ہمارے لئے انتہائی معتبر ہیں اور ان پر لکھنے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔
مولوی فرید احمد کے نام کے ساتھ مولوی کا لفظ کیوں ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے کیونکہ ان کے متعلق بہت کم معلومات ہیں انٹرنیٹ پر۔ شاید نظامِ اسلام پارٹی کے اہم عہدے دار ہونے کے باعث انھیں مولوی کے نام سے پہچانا جاتا ہو۔ ان کی ایک خوبی جس کا ذکر بہت عام ہے وہ ان کا دلیر نڈر اور دبنگ ہونا ہے۔
ان کی بے جگری کے متعلق کچھ واعات جو تاریخ نے قلم بند کیے ہیں۔گوجرانوالہ کے پرانے ریلوے اسٹیشن کے سامنے اخباروں کے اسٹالز ہیں۔ وہاں پولیس کی ایک گاڑی رکی۔ ہتھکڑی لگے، کرتے پاجامے میں ملبوس ایک بارعب، باریش صاحب نیچے اترے۔ وہ اخبارات خریدنا چاہتے تھے ۔ یہ نظام اسلام پارٹی کے جنرل سیکرٹری مولوی فرید احمد تھے ۔ اسی اثناء میں ان کی پارٹی کا ایک کارکن وہاں پہنچ گیا۔ اس نے انہیں کوئی اپنا پولیس وغیرہ کا مسئلہ بیان کیا۔ اب مولوی فرید احمد دونوں ہاتھ ، اپنے دونوں کولہوں پر دھرے اس سے پوچھ رہے ہیں ’’کون ہے یہاں کا ایس پی جو تمہیں تنگ کرتا ہے ؟” کسی قسم کا خوف و شائبہ تو انھیں چھو کر بھی نہ گزرا تھا۔فیلڈ مارشل ایوب خان کو انھی کے دور حکومت میں ان کے آبائی علاقے ہری پور میں ‘فراڈمارشل کہا’ جس پر ان کے مغربی پاکستان میں داخلے پرپابندی لگ گئی اور انھیں پابند سلاسل بھی کیا گیا۔ مجیب الرحمان کو سر عام مجیب الشیطان کہاکرتے تھے۔ قومی اسمبلی میں بھی اپنی شعلہ بیانی سے باز نہیں آتے تھے۔ انھی خوبیوں نے انھیں ایک بہترین پارلیمنٹیرین بنا دیا تھا۔ ان کا اسمبلی فلور پر کہا ہوا ایک جملہ آج بھی اس زمانے کے لوگوں کو یاد ہے۔ فرمایا”تنگ پتلونیں اور نوکیلے بوٹ پہننے والے ٹیڈی در اصل ٹوڈیوں کے بچے ہیں‘‘۔یہ کوئی راز نہیں کہ وہ پاکستان کے کس وزیر خارجہ کوچو ٹ کر رہے تھے ۔
آمریت کے قلعے میں ضربیں لگانے والا یہ شخص اسلام اور پاکستان کا سچا شیدائی تھا۔ 1970ء کے الیکشن میں وہ ہار گئے تھے۔ ظاہر ہے جب ووٹ عقل کی بجائے جذبات پر دیے جائیں تو امیدوار کی اہلیت و لیاقت کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ مولوی فرید احمد نے الیکشن ہارا تھا مگر اپنا کردار، اپنا ضمیر اور اپنا وقار نہیں۔ ان کا موقف چونکہ اصولوں پر مبنی تھا تو انھوں نے نامساعد حالات میں بھی جھکنے سے انکار کر دیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کے احساس محرومی سے وہ واقف تھے تاہم ان کی خواہش تھی کہ مملکت کا حصہ رہتے ہوئے مشرقی پاکستان کو اس کے حقوق دیئے جائیں۔ وہ علیحدگی کے حامی نہیں تھے۔انھوں نے مقدور بھر حالات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔امن کمیٹی قائم کی اور اپنے زیر اثر لوگوں کو تحمل سے کام لینے کا درس دیا۔ تاہم حالات کا دھارا اس تیزی سے بدلا کہ متحدہ پاکستان کے حامی دیکھتے ہی رہ گئے اور ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر قائم ہو گیا۔
یہ نیا ملک اب ایک زندہ حقیقت تھا۔ اب ان کے پاس کوئی راہِ فرار نہ تھی کیونکہ یہ ملک ان کی جنم بھومی تھی اور اپنے والدین کی قبریں اسی مٹی میں تھیں۔ اس موقع پر اگر وہ بنگلہ دیش کو قدرت کا لکھا سمجھ کر راضی برضا ہو جاتے تو شاید انعام و اکرام اور شاندار مستقبل کے سزاوار ٹھہرتے مگر چونکہ وہ روشن ضمیر تھے تو انھیں یہ آدھا ملک گوارا نہ ہوا۔ اس نئی مملکت کو وہ تسلیم نہ کر پائے اور چونکہ معروف شخصیت تھے تو مکتی باہنی والے انھیں اپنے مخالف کے طور پر جانتے بھی تھے۔16 دسمبر کو پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد مکتی باہنی والوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملا اور انھوں نے پاکستان سے ہمدردی رکھنے والوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کر دیا۔ 23 دسمبر 1971ء کو وہ مکتی باہنی والوں کے ہتھے چڑھ گئے تو مکتنی باہنی والوں نے ان سےان کے موقف کے متعلق معلوم کیا۔ اگر وہ اپنی جان بچانے کے لئے بنگلہ دیش زندہ باد اور پاکستان کے خلاف چند نعرے لگا لیتے تو یہ عین مصلحت تھی اور اسلام میں تو اپنی جان بچانے کے لئے اپنا اسلام تک ظاہر نہ کرنے کی اجازت ہے۔ چونکہ مولوی ایک نڈر اور دلیر انسان تھے تو انھوں نےبجائے مصلحت کا مظاہرہ کرنے کے صاف کہا کہ وہ مکتی باہنی والوں کو غدار سمجھتے ہیں۔ وحشیوں اور خون آشام درندوں کے نرغے میں یہ بات کہنا ہمت و بہادری کی انتہا ہے۔یقیناً انھیں اپنے اس سچ کا انجام معلوم تھا مگر ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ ہجوم مولوی فرید احمد پر پل پڑا۔ مولوی فرید احمد ہجوم کے مطابق غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔ سو ہجوم نے ان سے معافی مانگنے اور اپنی بات واپدس لینے کا مطالبہ کیا۔ مولوی صاحب نے چونکہ اپنے دل کی بات کہی تھی تو انھوں نے معافی مانگنے سے صاف انکار کر دیا۔ گوگل بتاتی ہے کہ انھیں قتل کر دیا گیا مگر یہ آدھی حقیقت ہے۔ ہجوم نے انھیں اذیت ناک موت سے ہمکنار کیا۔ان کے عضو ایک ایک کر کے کاٹے جاتے رہے اور ان سے پاکستان مردہ باد کہنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا لیکن وہ اپنا جسم کٹواتے رہے اور انھیں انکار کرتے کرتے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔
گفتار کے غازی ہمارے ارد گرد بہت ہیں۔ بہت لوگ خون کے آخری قطرے تک وطن کا دفاع کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں مگر وقت پڑنے پر ان کا دعوٰی سراب ثابت ہوتا ہے۔ ایک ہفتہ قبل ہی تو خون کے آخری قطرے تک دفاع کرنے والوں نے دشمان کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔مولوی صاحب کا ہم نے ایسا کوئی دعوٰی نہین پڑھاممکن ہے کبھی انھوں نے بھی کیا ہوتاہم وقت پڑنے پر اسے نبھاتا وہی ہے کو انتہائی نڈر اور مخلص ہو اور مولوی فرید احمد نے اپنے عمل سے خود کو محب وطن ثابت کیا۔ مولوی فرید احمد نے اپنے عمل سے خود کو حسین ابنِ علی کا جانشین ثابت کیا اور آخری سانس تک باطل کے خلاف ڈٹے رہے اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ہر زمانے میں کربلا ہوتی ہے اور ہر زمانے میں ایلِ حق ھضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی کی سنت کی پیروی کرتے ہیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کو خراج تحسین پیس کرتے ہوئے مظفر وارثی کے الفاظ جو مولوی فرید احمد پر بھی صادق آتے ہیں۔
باطل کی ا س نے کبھی خیر خواہی نہ کی
کٹ گیا بیعتِ جبرِ شاہی نہ کی
آج ہم اگر لفظ مولوی اور سیاست دان کی عزت کرتے ہیں اور ہمارے لئے بنگلہ دیش اسلامی برادر ملک ہونے کے علاوہ کسی وجہ سے محترم ہے تو وہ وجہ مولوی فرید احمد اور ان جیسے دیگر شہداء ہیں جو اس مٹی میں بے نام و نشان محوِ استراحت ہیں ۔ اللہ مولوی فرید احمد پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: دسمبر 22nd, 2021
زمرہ: صفحہ اول تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: 1971 war, Ayub Khan, Bangladesh, Dhaka, East Pakistan, Moulvi Farid Ahmad, mujeeb ur rehman, Mukti bahni