تحریر: ابنِ ریاض
دستخط ایک لحاظ سے انسان کا شناختی نشان ہے۔ بچہ جب لکھنا پڑھنا شروع کرتا ہے تو حروف تہجی کے بعد اپنا نام لکھنا سیکھتا ہے یہ اس کی دستخط کرنے کی ابتدائی شکل ہوتی ہے۔ یوں بھی چھوٹے بچوں کو بڑے فراڈتو کرنے نہیں ہوتے تو ابتدائی جماعتوں میں نام ہی دستخط کے مترادف ہوتے ہیں۔
جوں جوں بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے دستخط کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے۔ شناختی کارڈ بنوانا ہو، بینک میں کھاتہ کھلواناہویا کسی اچھی جگہ داخلہ لینے کا معاملہ ہو دستخط ہر جگہ آپ کا ساتھی ہوتا ہے۔ بعض جگہ دستخط انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ذرا سی غلطی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے تو کچھ لوگ اپنے دستخط منفرد کرنے کے لئے نام کے ساتھ مختلف آڑی ترچھی لکیریں بھی لگاتے ہیں۔ خواہش ان کی یہ ہوتی ہے کہ کوئی ان کے دستخط نقل نہ کر پائے سو عجیب عجیب نمونوں کے دستخط کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے وہ خطاطی ہی کر رہے ہوتے ہیں مگر دیکھنے والوں کے لئے عجیب مضحکہ خیر اور ناقابل فہم چیزبن جاتے ہیں بالکل ہماری لکھائی کی مانند ۔ایسا اکثر وہی کرتے ہیں کہ جن کے پاس سے کسی کو پھوٹی کوڑی بھی ملنی نہیں مگر دستخط سے ظاہر یوں کرتے ہیں گویا عالمی بینک ان ہی کے قبضے میں ہے۔
بینکوں میں دستخطوں کا کردار بنیادی اور کلیدی ہوتا ہے۔ اب توپھر جدید دور آ گیا ہے اور شناختی کارڈ اور نادرا کے نظام سے تمام بینک منسلک ہیں سو چھوٹی موٹی غلطی فوری ٹھیک کر دی جاتی ہے۔ تاہم دس پندرہ برس پہلے تک ایسا کچھ نہ تھا۔ تمام نظام دستی تھا۔ اب شروع سے ہی ہمارا معاملہ ایسا رہا ہے کہ ہماری تنخواہ بینکوں میں آتی رہی ہےتو ہمیں اس سے خوب واسطہ بھی پڑا ہے۔ مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں جب ہم تنخواہ نکلوانے جانے تو ہمارے چیک پر لامحالہ اعتراض لگتا تھاکہ آپ کے دستخط بینک میں موجود آپ کے فارم میں موجود دستخطوں سے میل نہیں کھاتے۔ دراصل ایک ماہ میں ہم اپنے کیے ہوئے دستخط ہی بھول چکے ہوتے تھے۔ ذہن پر بہت زور دے کر پرانے دستخط کرتے مگر ابہام رہ ہی جاتا تھا۔ پھر انھیں ہم اپنا شناختی کارڈدکھاتےا ور دیگر کوائف بتاتے۔انھیں جب یقین ہو جاتا کہ یہی کھاتے دار ہے تو کہتے کہ آپ کے فارم میں ‘آئی ‘ ایسے نہیں کسی اور طرح ہے۔ یوں یہ سلسلہ کئی سال چلا۔ اب ہم چیک والا کام کرتے ہی نہیں ہی۔ اے ٹی ایم بنوایا اور چیک اور دستخط سے جان چھوٹی۔بینک اور دستخطوں سے ہمیں ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک دیہاتی عورت بینک میں چیک کیش کروانے گئی۔منیجر نے کہا ۔یہاں ‘سائن ‘کریں۔ خاتون نے استفسار کیا کہ وہ کیا ہوتا ہے؟منیجر کے کچھ لمحے توقف کر کے اسے سمجھانا یا ۔خط کے آخر میں جو لکھتے ہیں بس وہی سائن یادستخط کہلاتے ہیں۔عورت کے لکھا۔ فقط ۔ تواڈے کاکے دی ماں۔
دستخط اس کے علاوہ بھی بڑے کام کی چیز ہیں ۔ایک زمانے میں پاکستان کی شرحِ خواندگی دستخطوں کی مرہون منت تھی۔۔ پاکستان کی ابتدائی مردم شماریوں میں ہر اس شخص کو کہ جو اپنا نام لکھنا جانتا تھا اور دستخط کر لیتا تھا، تعلیم یافتہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی خواندگی تینتیس فیصد سے بھی بڑھ گئی۔ سکول اور کالجوں میں بچوں کی اکثر حاضری ان کا نام پکار کر لی جاتی ہے۔ یونیوسٹی میں اکثر اساتذہ بچوں پر اعتماد کرتے ہوئے یا اہنا وقت بچانے کے لئے حاضری والا صفحہ بچوں کے حوالے کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنا نام لکھ کر اور دستخط کردیں۔ یہ ان بچوں کی حاضری شمار ہوتی ہے ۔ تاہم طلبا کی اپنی ہی نفسیات ہوتی ہے۔ ان کے لئے یہ اپنے دوستوں کی ‘پراکسی’ لگانے کا اور حقِ دوستی نبھانے کا بہترین موقع ہوتا ہے اور وہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک استاد نے حاضری والا کاغذ کلاس کے حوالے کیا اور خود لیکچر دینا شروع کر دیا۔ اب لڑکوں نے اپنے رولنمبر کے سامنے تو اپنا نام لکھ رک دستخط کر دئیے تاہم جو لڑکے غائب تھے ان کے فرضی نام لکھ کے فرضی دستخط کر کے استاد محترم کو صفحہ واپس کر دیا۔انھوں نے دیکھا کہ کلاس میں بچے تو چند ایک ہیں مگر حاضری تمام کی لگی ہوئی ہے تو انھوں نے حاضری پکارنا شروع کر دی۔ وہ رول نمبر پکارتے۔ جو موجود ہوتا وہ یس سر کرتا اور جو غائب ہوتا وہاں خاموشی چھا جاتی۔ اس پر استاد ب طالب علم کا نام پکارتے۔مثلاً رول نمبر16۔ خاموشی۔ سر نے پکارا۔محمد علی۔ کلاس کا قہقہہ نکل گیا کیونکہ اس نام کا کوئی بندہ ہمارا ہم جماعت نہ تھا۔ روم نمبر 22- خاموشی۔درپن۔ مزید قہقہہ۔ رولنمبر 29- شمیم آراء نکلیں۔ ایسے ہی وحید مراد، میڈم نور جہاں اور معین اختر کے نام بھی لڑکوں نے غائب طالب علموں کی جگہ لکھ ڈالے تھے۔رول نمبر 80 پر ایک مرتبہ پھر خاموشی تھی۔ سر نے پکارا۔ عمر شریف۔ ایک لڑکا ہڑ بڑا کر اٹھا اور بولا ۔ یس سر۔ سر نے حیرت سے پوچھا کہ کیا تمھارا نام واقعی عمر شریف ہے؟اس نے کہا جی سر۔ سر نے کہا اچھا میں تو سمجھا آج ساری شوبز انڈسٹری ہی میری کلاس پڑھ رہی ہے۔کلاس والوں کا قہقہہ ے ساختہ تھا۔
دستخط کتنے مرضی مشکل اور منفرد بنا لیں ، جعل سازی کرنےوالے اپنا کام کر ہی لیتے ہیں ۔ پاکستان میں ہر کاغذخواہ وہ تعلیمی سند ہو، بجلی و گیس کا بل ہو یا عدالتی اسٹامپ پیپر، پر افسر درجہ اول کی تصدیقی مہر اور دستخط درکارہوتے ہیں اور بعض جگہ تو ایک ایک امیدوار کو چالیس پچاس پچاس دستخط چاہیے ہوتے ہیں سواس کا آسان حل پاکستانی معاشرے میں یہ ہے کہ اس کی مہر لو اور اپنی دستاویزات پر لگا دو۔ اس کے بعد اس کے دستخطوں کی نقل کرلی جاتی ہے اور نقل کرنے میں تو ہم اتنے ماہر ہیں کہ اصل سے بہتر ہماری نقل ہوتی ہے۔ اس نقل کی ایک مہارت ‘ایگزیکٹ’والے ہیں کہ جن کی جعلی ڈگریاں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور ظاہر ہے کہ ان پر انھوں نے متعلقہ جامعات کے افسروں کے دستخط اس خوبی سے کیے کہ ابھی بھی ان سے سند یافتہ لوگ انتہائی اعلٰی عہدوں پر فائز ہیں۔
موجودہ دور میں دستخطوں کی جگہ پاس روڈز یعنی کہ ہندسوں اور حروف نے لے لی ہے۔ ای میل ہو، فیس بک ہو یا اپنا موبائل، آپکے منتخب حروف اور اعداد ہی آپ کی شناخت ہیں۔ کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم پر یہ کام محض اعداد کا رہ جاتا ہے۔ ہمارے بہت سارے اکائونٹ ہیں۔ ای میل والے بھی، فیس بک، ٹویٹر اور دیگر ویب سائٹس پر بھی۔ ہمیشہ ایک کا پاس ورڈدوسری میں لگتا تھا اورسائٹس کھلنےسے انکار کر دیتی تھیں۔ اب برائوزر پاس ورڈ یاد کر لیتے ہین اورہم سکون میں ہیں۔ تاہم اگر کسی دوسرےکمپیوٹر یاموبائل پر کام کرنا پڑے تو ہم کو لگ پتہ جاتا ہے۔
بعض لوگوں کے موبائل اور کمپیوٹرز میں معلوم نہیں ایف آئی اے یا آئی ایس آئی کے راز دفن ہوتے ہیں کہ وہ اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ اپنے انگشت کے نشانوں سے کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے وہ بہت ذہین بنتے ہیں مگر ہمیں تو انھیں دیکھ کر نا خواندہ یاد آ جاتے کہ جنھیں دستخط کے مقام پر ہمیشہ اپنا نشان انگشت چسپاں کرنا پڑتا تھا۔ گویا تعلیم ہمیں انگوٹھے سے دستخط کی طرف لائی اور ٹیکنالوجی دوبارہ ہمیں انگلیوں اور انگوٹھوں کے استعمال پر لے گئی۔واقعی دنیا گول ہے۔ ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی مگرابھی تک نکاح کے دستخطوں کا کوئی متبادل دریافت نہیں ہوا۔تاہم یہ تسلیم نہ کرنا زیادتی ہو گی کہ پیرو فقیر مرد وزن سب اسی دستخط کو کرنے کے متمنی ہوتے ہیں تاہم ان دستخطوں اور نکاح کے چوہاروں کے اثرات انسان باقی تمام عمر محسوس کرتا ہے۔کچھ لوگ دریافت کرتے ہیں کہ نکاح کے وقت گواہ نہ ملے تو وطن کی مٹی کو گواہ بنایا جا سکتا ہے؟ اس میں ایک قباحت ہے۔ نکاح نامہ پر گواہوں کے دستخط ضروری ہیں۔ اب وطن کی مٹی کے دستخط یا انگوٹھا کہاں سے لایا جائے گا؟
ہمارے ہاں دستخط انگریزی میں کرنے کا رواج ہے بلکہ اگر کوئی اردومیں دستخط کرے تو اسے دقیانوسی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارےطالب عملی کے زمانے میں اردو میں درخواست اور خط اردو گرائمر کا لازمی حصہ ہوتے تھے اور ان کے اختتام پر العارض یا فقط کے بعد اپنا نام اردو میں لکھا جاتا تھا۔مزید براں چند برس قبل کچھ لوگ اردو میں دستخط کرتے تھے اور اپنےدستخط کے بعد بقلم خود بھی لکھتے تھے تاکہ کسی کو شک نہ رہے کہ ان کی بجائے کسی اور نے کیے ہیں۔ جب ہماری کتاب مارکیٹ میں آئی تو ہم سے بھی لوگوں نے اٹوگراف کے ساتھ کتاب کا مطالبہ کیا۔ عبارت کا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ کوئی بھی دعا یا نصیحت( جس پر خود کبھی عمل نہ کیا ہو)یا کوئی شعر یاد آئے لکھ دے بندہ مگر اردو کی کتاب کے ساتھ انگریزی دستخطوں کا مسئلہ بہت سنجیدہ تھا سو ہم نے اردو دستخط بنانے شروع کیے۔ ابن نیاز سے مشورہ لیا۔ ادھر ادھر لوگوں کے دستخط دیکھے۔ہمارا مطمع نظر ایسے دستخط تھے کہ جو آسان ہوں اور ہم بآسانی ذہن نشین کر لیں ۔ ایسا نہ ہو کہ ہر کتاب پر مختلف دستخط ہوں۔ بالآخر دستخط بن گئے۔انداز تو وہی تھا مگر پھر بھی ہر دستخط دوسرے سے کچھ مختلف ہی تھا اور اس کی وجہ یہ نکلی کہ عرصہ دراز سے ہم نے قلم سے کچھ نہیں لکھا۔ سارا دفتری کام اب لیپ ٹاپ پر ہوتا ہے اور اپنے کالم بھی ہم لیپ ٹاپ پر ہی لکھتے ہیں۔ قلم اورکاپی پرلکھے مدت ہو گئ ہے سو دستخط جیسے بھی ہیں انھی پر گزارا کر لیں۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مارچ 20th, 2019
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: humor, Ibn e Riaz, Signatures