دُھن کاپکا ہواباز «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • دُھن کاپکا ہواباز

    تحریر: ابنِ ریاض

    1950ء کی بات ہے ، پاک فضائیہ کے  بھرتی آفیسر نے ایک لڑکے کو بتایا کہ  اس کا بطور پائلٹ انتخاب ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ سے معمولی سی  چھوٹی ہے۔ یہ بات سن کر وہ لڑکا انتہائی دلگرفتہ ہوا کیونکہ پائلٹ بننا اس کا جنون تھا۔ تاہم اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ہمت نہیں ہارے گا۔ اس نے بڑے افسروں سے رابطہ کیا۔ انھوں نے بھی یہی جواب دیا۔ اس لڑکے نے ان سے اعلٰی افسران سے رابطہ کیا۔ اس لڑکے کا شوق اور مستقل مزاجی بلکہ ہٹ دھرمی اور جنون دیکھتے ہوئے  افسران کے پاس اس کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔یوں بھی تقدیر نے ان کے لئے جو مرتبہ لکھ رکھا تھا وہ بھلا انھیں کیسے نہ ملتا۔ یہ لڑکا بعد ازاں پاک فضائیہ کا ایک نڈر اور بے باک جنگجو پائلٹ بنا کہ جس کی شجاعت پر پاک فضائیہ آج بھی ناز کرتی ہے۔

    مشرقی پاکستان کے معروف ماہرِ طب( میڈیکل سپیشلسٹ) ڈاکٹر ٹی خان کے ہاں 1935ء میں  ڈھاکہ میں علاء الدین احمد پیدا ہوئے۔ بچوں جیسی پر خلوص مسکراہٹ اورمضبوط مصافحہ  ان کا خاصہ تھا۔ دوستوں کے ساتھ ہلے گلے کے باوجود انھوں نے احترام کی حد کبھی عبور نہیں ہونے دی۔ اپنے دوستوں میں وہ ‘بُچ’ کہلاتے تھے۔ ‘بچ’ نے 1951ء میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور 1953ء میں ‘ اعزازی تلوار’کے ساتھ  فضائیہ کالج سے فارغ التحصیل ہوئے۔

    پیشہ ورانہ مہارت اور حب الوطنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ 1959ء میں بھارت کا ایک طیارہ عید کے روز پاکستان میں آیا تھا اور اس نے پاکستانی علاقوں کی تصاویر لینی شروع کر دی تھیں۔ تاہم پاک فضائیہ کے ایک شاہین ( محمد یونس)نے اس کو مار گرایا تھا کہا جاتا ہے  کہ  بھارت کی اس حرکت پر علاء الدین احمد بچ کو بہت غصہ آیا اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کا بدلہ لیں گے۔ موقع ملنے پر وہ بھارتی حدود میں جا گھسے اور دور تک چلے گئے۔ بھارتی راڈاروں نے انھیں دیکھ لیا اور کئی بھارتی طیاروں نے انھیں گھیر لیااور انھیں دہلی ائیر پورٹ پر اترنے کا کہا۔ بچ نے تسلیم کر لیا۔ بھارت نے پاکستانی ہائی کمشنر کو  بھی ائیر پورٹ طلب کر لیا کہ ہم نے پاکستانی پائلٹ کو جاسوسی کرتے ہوئے پکڑ لیا ہے۔ ہائی کمشنر پریشانی میں  ائیر پورٹ پہنچے اور پائلٹ سے رابطہ کروانے کا کہا۔ رابطے پر انھوں نے پائلٹ سے پوچھا کہ تم کون ہو اور کیوں آئے ہو تو کہا جاتا ہے کہ انھوں نے جواب دیا ۔’ میرا نام ہے بچ  اور میں تلوں گا بھارتیوں کے لچ’ اور کہا کہ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ آپ دیکھتے جائیں  کہ میں کرتا کیا ہوں’۔ جونہی جہاز دہلی ائیر پورٹ پہنچے بچ نے اپنے جہازکی بلندی کم کر دی گویا کہ وہ اترنے لگے ہیں۔ وہ بلندی کم کرتے رہے یہاں تک کہ وہ بالکل زمین سے کچھ فٹ رہ گئے۔ بھارتی لڑاکا طیارے بھی مطمئن ہو گئے اور اترنے لگے۔ یونہی بھی انھیں معلوم تھا کہ ان کے ساتھ کئی جہاز ہیں جبکہ پاکستانی اکیلا ہے۔مگر وہ اطمینان میں مار کھا گئے کیونکہ جیسے ہی ان کے  ٹائر زمین سے ٹکرائے بچ نے جہاز ایک جھٹکے سے اوپر اٹھایا اور پاکستان روانہ ہو گئے۔ جہاز کے ٹائر زمیں سے ٹکرا جائیں تو پھر وہ فوری اڑ نہیں سکتا اور اسے رن وے پر کئی کلومیٹر دوڑنا پڑتا ہے اور اس دوران مخالف طیارہ پہنچ سے دور ہو جاتا ہے۔یوں بھی دہلی  پاکستان سے زیادہ دور نہیں تو بچ کے لئے یہ وقفہ کافی تھا اور وہ بھارت کو سبق سکھا کر بخیر و خوبی پاکستان پہنچ گئے۔

    1965ء کی جنگ مین علاء الدین ‘بچ’ سکواڈرن لیڈر تھے۔ انھوں نے تقریباً بیس مشنوں میں حصہ لیا اور سبھی میں شاندار کامیابی پائی۔ 13 ستمبر کی صبح انھوں نے چونڈہ کے محاز کو بھارتی ٹینکوں اور مشین گنوں کا قبرستان بنایا۔ابھی ہوائی اڈے پر آ کر بمشکل ناشتہ ہی کیا تھا کہ  آرمی نے فضائیہ کو اطلاع دی کہ بھارت کی جدید اسلحے سے لیس ایک مال گاڑی گورداسپور کے قریب پہنچ چکی ہے۔ پاک  فضائیہ  سےاس گاڑی کی تباہی کے لئے کہا گیا۔  ایک مرتبہ پھر قرعہ فال علاء الدین اور ان کے ساتھیوں کے نام نکلا۔علاء الدین اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ اس مشن پر روانہ ہوئے۔    گورداسپور پہنچ کر شاہینوں نے اپنا ہدف تلاش کرنا شروع کیا۔ انھیں ایک گاڑی نظر آئی۔ شاہین اس پر جھپٹے۔ قریب پہنچے تو دیکھا کہ اس میں نہتے مسافر ہیں تو فوراً اپنے جہاز اوپر اٹھا لئے کہ  پاکستانی شاہینوں کا کام نہتےشہریوں  کا شکار کرنا نہیں ہے۔

    ہوابازوں نے نگاہیں دوڑائیں تو انھیں ریلوے اسٹیشن پر ایک گاڑی کھڑی نظر آئی۔  بچ نے کہا کہ میں اسے چیک کرتاہوں۔ چیک کرنے کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ ڈبے کھول کر دیکھا جاتا کہ ان میں کیا ہے بلکہ طریقہ وہی تھا جو اسکواڈرن لیڈر علاء الدین نے اختیار کیا۔ انھوں نے جہاز کو غوطہ دیا اور گاڑی کو شست میں لیا۔ جونہی گاڑی شست میں آئی انھوں نے بٹن دبایا اور جہاز کی مشین گنوں کی گولیاں ریل گاڑیسے ٹکرائیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک زوردار دھماکا ہوا اور سیاہ دھوئیں کے بادل گورداسپور کی فضا میں پھینے لگے۔ بچ نے گاڑی کو چیک کر لیا تھا۔  وہ جھپٹے سے اٹھا اور وائرلیس پر چلایا ۔۔’یہی مطلوبہ گاڑی ہے۔اسے تباہ کر دو’۔ پھر وہ دوسرے جھپٹے میں گیا اور بم گرائے۔ وہ اوپر جاتا تواس کے دوسرے ساتھی گاڑی پر جھپٹ پڑتے۔

    کچھ ہی دیر میں پھٹتے بارود کے سیاہ  دھویں میں مال گاڑی کے ڈبے چھپ چکے تھے ۔تمام گاڑی اسلحہ سے بھری ہوئی تھی اور اگلے مورچوں پر روانہ ہونے والی تھی۔ پاک فضائیہ کے یہ جانباز دھویں میں جہاز لے جا کر اور اپنی جان اور جہاز خطرے میں ڈال کر گاڑی پرفائرنگ کر رہے تھے ۔ اس گاڑی کا کوئی ایک ڈبہ اور اس میں اسلحے کی ایک پیٹی بھی محفوظ رہ جائے یہ علاء الدین اور اس کے ساتھیوں کو گوارا نہ تھا۔ ۔وہ پاکستان کی تباہی کا سامان بھارت میں ہی تباہ کر دینے کا عزم رکھتے تھے۔

     سارا ریلوے اسٹیشن دھویں میں چھپ چکا تھا۔  ایسا لگتا تھا کہ اسٹیشن پر آگ لگی ہوئی ہو۔ یہ بھی معلوم نہ ہوتا تھا کہ گاڑی کہاں ہے یا کہاں تھی؟  مگر علاء الدین مطمئن نہ تھا۔ ‘کچھ نظر نہیں آتا۔ممکن ہے کچھ ڈبے بچ گئے ہوں۔’ یہ کہہ کر علاء الدین پھر غوطے  میں جا کر دھویں میں روپوش ہو گیا۔ وہ انتہائی نیچی پرواز پر جا کر گاڑی کو دیکھتا رہا۔اس نے جہاز کو قریباً عمودی کھینچا اور پھر غوطے میں چلا گیا۔ جاتے جاتے بچ نے بتایا کہ ابھی کچھ ڈبے محفوظ ہیں ۔ہوابازوں کو یقین نہ آیا کہ وہ اس اندھیرے میں ڈبے دیکھ آیا ہے۔ وہ اس کی دیوانگی سے فکرمند ہونے لگے۔ انھوں نے تو اپنی دانست میں گاڑی کو ختم کر دیا تھا مگر علاء الدین نے گہرے غوطے میں جا کر بچے کھچے تمام راکٹ فائر کر دئیے۔ وہ ٹھیک کہتا تھا کہ ابھی کچھ ڈبے باقی ہیں  ان ڈبوں میں بم تھے یا بڑی توپوں کے گولے کہ راکٹ لگتے ہی ایک ہیبت ناک دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے کی لہریں اس قدر شدید تھیں کہ دور فضا میں موجود جہاز یوں ڈولے جیسے کاغذ کے بنے ہوں۔ ریل گاڑی کا ملبہ فضا میں گولوں کی طرح آیا اور گرد و پیش میں پھیل گیا۔ گہرے اندھیرے نے سارے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا۔ اسی قیامت نے علاء الدین احمد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس نے جہاز کو اوپر اٹھانا چاہا مگر اڑتے ملبے  کے لاتعداد ٹکڑے اس کے جہاز کو آن لگے اور اسے اٹھنے کے قابل نہ چھوڑا۔ علاء الدین احمد نے اسی بلندی پر جہاز قابو کیا اور پاکستان کے لئے رختِ سفر باندھا مگر اس وقت تک کم بلندی میں  دیر تک ہدف کو نشانہ  بنانے کے باعث ان کی کاک پٹ بھی دھویں سے بھر چکی تھی۔ سو وہ کبھی پاکستان واپس نہ پہنچ سکے مگر انھوں نے شہادت سے قبل اس امر کو یقینی بنایا کہ پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والا اسلحہ بھی پاکستان تک نہ پہنچے ۔

    علاء الدین احمد کا خاص وصف ان کا ارادہ تھا۔ وہ جس بات کا ارادہ کرتے اس کے لئے وہ تن من دھن سب لگا دیتے تھے۔ وہ دھن کے چکے تھے۔یہ وصف  ہی ان کا پاک فضائیہ میں شمولیت کا باعث بناورنہ طبی بنیادوں پر تو وہ پہلے قدم پر فارغ ہو گئے تھے اور اسی خوبی نے انھیں شہادت جیسے اعلٰی وارفع مقام پر پہنچایا۔ان کی شجاعت و جرات کے اعتراف میں انھیں بعد از شہادت ستارہء جرات سے نوازا گیا۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔