تحریر: ابنِ ریاض
مقدور میں ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
ابن انشاء اردو ادب کی ایک عظیم شخصیت تھے۔وہ 15 جون 1927 کو مشرقی پنجاب میں ضلع جالندھر کے ایک گائوں’تھلہ’ میں پیدا ہوئے۔ ابن انشاء تین بھائیوں اور چار بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کی۔ پرائمری کے بعد مڈل اپنے گائوں سے چند کلومیٹر دور ‘اپرہ’ سے کیا اور پھر ہائی سکول کے لئے لدھیانہ آ گئے۔ ابتدا میں ہی شعر و نثر سے انس تھا۔اس کا اندازہ ان کے ابتدائی خطوط سے ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے دوستوں بالخصوص حمید اختر مرحوم کو لکھے۔ میڑک کے بعد انبالہ میں کلرک کی نوکری کی۔ اس کے بعد دہلی میں ان کی آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت ہو گئی۔اور پھر پاکستان کے قیام کے بعد لاہور آ گئے۔ کچھ عرصہ لاہور گزارنے کے بعد ریڈیو پاکستان کراچی میں انکا تبادلہ اور 1949 میں کراچی آ گئے۔ کراچی آ کر انھوں نے ریڈیو پاکستان کی نوکری چھوڑی اور بطور مترجم دستور سار اسمبلی سے منسلک ہو گئے۔ یہاں سے جی اچاٹ ہوا تو محکمہ ‘دیہات سدھار’ میں چلے گئے اور بالآخر نیشنل بک فائونڈیشن کے سربراہ تعینات ہوئے –
ابنِ انشا اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے- اردو ادب کی تاریخ ابنِ انشا کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے- انھوں نے ادب کے جس شعبے میں طبع آزمائی کی، اس میں ان مٹ نقوش رقم کیے- شاعری کی تو ‘انشا جی اٹھو اب کوچ کرو’، ‘سب مایا ہے’، ‘اک بار کہو تم میری ہو’، ‘جلے تو جلائو گوری’،’اب عمر کی نقدی ختم ہوئی’، ‘ایک لڑکا’ اور ایسی ہی دیگر زبانِ زدِ عام غزلیں اور نظمیں اردو ادب کا حصہ بنا دیں- ان کے تین شعری مجموعے ہیں جن کے نام ‘چاندنگر’،’ اس بستی کے اک کوچے میں’ اور ‘دلِ وحشی’ ہیں- مزاح نگاری کی طرف مائل ہوئے تو ‘اردو کی آخری کتاب’ اردو ادب کی زینت بنا دی- دوسری کتاب ‘خمارِ گندم’ کے چالیس برس میں تینتیس ایڈیشن اس کی کامیابی اور مقبولِ عام ہونے کی سند ہیں- کالم نگاری کی جانب متوجہ ہوئے تو جاوید چودھری کے بقول ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پڑھے لکھے لوگ صبح ایک دوسرے کوفون کر کے پوچھتے تھے کہ’کیا تم نے ابنِ انشا کاآج کا کالم پڑھا’۔ پھر یونیسکو سے وابستہ ہونے پر انھیں چار دانگ عالم میں گھومنے کا موقع ملا تو ‘آوارہ گرد کی ڈائری’، ‘دنیا گول ہے’،’ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں’ اور ‘نگری نگری پھرا مسافر’ جیسے سفرناموں سے اردوکا دامن بھر دیا- بچوں کے لئے ‘بلو کا بستہ’ جو انھوں نے اپنی چھوٹی بہن کے لئے نظمیں لکھیں اور ترجمہ کی جانب مائل ہوئے تو شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی سندھی شاعری کا اردو میں منظوم ترجمہ کر دیا۔ اردو ادب میں کوئی ایک بھی ایسی شخصیت ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی جس نے اتنی متنوع اصناف میں طبع آزمائی کی ہو اور اس میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوں۔پاکستان ٹیلی ویڑن کے معروف پروگرام ‘کسوٹی ‘ بھی ابن انشاء نے عبید اللہ بیگ اور افتخار عارف کے ساتھ مل کر شروع کیا۔پاکستان ٹیلی ویڑن کا پہلا رنگین نغمہ جو ریکارڈ ہوا وہ بھی بن انشاء کی ہی نظم ‘ آتی ہے پون ، جاتی ہے پون’تھا۔ ابنِ انشا کے فنی مقام پر گفتگوہمارے بس سے باہرہے تاہم ان کے ہم عصروں نے ان کے بارے میں جو لکھا وہ ان کی عظمت کا منہ بولتاثبوت ہے۔ –
سید ضمیر جعفری مزاحیہ شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں-ابنِ انشا کی وفات پر وہ انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ‘ابنِ انشا چل بسے۔ چاند نگرکی روشنی دوستوں سے روٹھ گئی اور اردو ادب کو ویران کر گئی- اردو نظم کا عظیم بنجارہ اپنی عمر کی پونجی لٹا کر کوچ کر گیا اور نثر میں شگفتگی کا سدابہار آبشارتھم گیا- وہ جس کی باتوں میں گلوں کی خوشبو تھی۔ وہ جس کے لفظوں میں موتیے کی کلیاں کھل اٹھتی تھیں’ افق کی دھند میں کھو گیا- وہ سورج جو صرف اسی کے قلم سے طلوع ہوتا تھا، ایوانِ اردو میں پھر کبھی نہ چمکے گا- ابنِ انشا کی موت سے اردومزاح نگاری کی مانگ میں جلتا ہوا سیندور بجھ گیا- اس قبیلے کا سردار رخصت ہو گیا- کل جب وہ ہم میں موجود تھا ہم کتنے تونگر تھے- آج جب وہ ہم میں موجود نہیں ہم کتنے نادار ہو گئے ہیں- ابنِ انشا ایک بے بہا قومی متاع تھے- ابنِ انشا نے اردو ادب و شعر کو انسانی ذہن و زندگی کو جو کچھ دیا ہے اس کے چرچے مدتوں رہیں گے- یہ روشنی تاریخ کی امانت،تہذیب کا جھومر بن چکی ہے- اردو کے فکاہی ادب میں وہ اپنے اسلوب کا موجب بھی تھا اور خاتم بھی۔ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنے کا جو سلیقہ ابن انشاء نے اس صنف کو بخشا وہ اس کی عطا ہے۔تہذیبوں کے دیر پا مینار وقیع ادب کی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں۔ ابن انشا نے اسی قبیل کا ادب تخلیق کیا’۔
قرہ العین حیدر ابن انشاء کے بارے میں کچھ یوں فرماتی ہیں۔’ابن انشاء نے جہانگیر روڈ کراچی کے سرکاری کوارٹر سے بتدریج آکسفورڈ سٹریٹ لندن کے ایک لگڑری فلیٹ تک کا سفر کیا۔بحیٹیت شاعر اور طنزنگار اپنے ملک میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی لیکن وہ کبھی برخود غلط نہ ہو ئے نہ کامیابی اور شہرت نے ان کا دماغ خراب کیا۔انشاء کا مزاح لطیف اور مہذب تھا۔ مسائل،واقعات اورشخصیات پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے قلم کو سنبھالے رکھنا تہذیب کی پہچان ہے۔ انشاء اس معیار پر پورا اترتے تھے’۔
ابن انشاشاعر اور ادیب ہونے کے علاوہ ایشیا میں کتب کے فروغ کے سب سے بڑے نمائندے بھی تھے۔ اس حیثیت میں وہ پہلے (شاید اب تک واحد) پاکستانی دانشور ہیں کہ جن کی وفات پربین الاقوامی ادارے یونیسکو نے ماتمی اجلاس کا اہتمام کیا۔
عظیم مصنف اور بےمثل شاعر 11 جنوری 1978 کو پچاس برس کی عمر میں لندن کے ایک ہسپتال میں سرطان کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا-انشا جی کراچی کے پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔آج ابنِ انشا کی برسی پر آپ لوگوں سے التماس ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے بالعموم اور ابنِ انشا کے لئے بالخصوص دعائے مغفرت ضرور کریں کہ ہم انھیں یہی خراج عقیدت پیش کر سکتے ہیں-