ہم اپنے ماسٹرز کے کورس ورک سے فارغ ہوئے تھے اور تحقیق کا مرحلہ باقی تھا۔ تاہم تحقیق کے ساتھ ساتھ ہم کسی نوکری کی تلاش میں تھے۔ ہماری اولین خواہش کسی انجنئرنگ یونیورسٹی میں مدرس بننا تھا۔ سو کئی جامعات میں ہم نے نوکری کی درخواست اپنی دستاویزات کے ساتھ دی مگر ہمارا اعلٰی تعلیمی ریکارڈ دیکھتے ہوئے اکثر شکریے کے ساتھ واپس کر دی جاتیں۔ یہ لوگ خود کیسے ہی طالب علم رہے ہوں اور نجانے کیسے کیسے جتن کر کے ان عہدوں پر پہنچے ہوں دوسروں سے ہائی فرسٹ ڈویژن کی ہی توقع کریں گے۔
تاہم ان کے دل شکن طرز عمل کے باوجود ہمارے ارادے متزلزل نہ ہوئے اور ہم اپنے کام (یعنی کہ درخواستیں بھیجنے)میں اور وہ ہمارے حوصلے پست کرنے( یعنی کہ مسترد کرنے) میں مگن رہے۔ انھی دنوں ہمیں شہر میں ایک نئی جامعہ کی خبر ملی۔ وہ اتنی نئی تو نہ تھی مگر ہمارے علم میں نہ تھی اور خوش قسمتی سے اس میں ہمارا شعبہ بھی موجود تھا۔ ہم نے اپنی در خواست مع ایک ڈرافٹ بصرف زر کثیر بھیجی اور انٹرویو کی اطلاع کا انتطار کرنے لگے۔ ہمیں امید تھی کہ چونکہ یہ جامعہ ابھی نسبتًا نئی ہے تو انھیں مزید اساتذہ کی ضرورت ہو گی اور وہ یقینًا ہماری صلاحیتوں کو پہچان پائیں گے۔
مہینوں گزر گئے اور جامعہ والوں نے ہمیں نہ پوچھا۔ ہم بہت مایوس ہوئے اور کبھی کبھی تو جھنجھلا کے ان کی شان میں ناقابل طباعت قصیدہ بھی کہہ دیتے۔مگر ہماری مراد بن آنی تھی نہ ہی آئی۔ جب مایوس ہو کر ہم امید کا دامن چھوڑ بیٹھے تو ایک دن ایک نامہ آیا جس میں ہمیں انٹرویو کی دعوت دی گئی تھی۔ہماری تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔
ہم خوب تیار ہو کے وقت مقررہ پر جامعہ جا پہنچے۔ انٹرویو کی تیاری تو واجبی سی تھی ۔نیا پینٹ کورٹ ضرور بنوا لیا اور نئے جوتے بھی خرید لئےکیونکہ پہلا تاثر ہی آخری ہوتا ہے۔وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہم سے پہلے بھی کچھ لوگ موجود تھے۔ باری آنے پر ہم اندر گئے۔ اندر درجن بھر خوش پوشاک لوگ ہمارے منتظر تھے۔ ہم سے تعارف کا کہا گیا۔ ہم نے نام اور ڈگریاں بتا دیں۔ انھوں نے پوچھا کہ یہاں کیوں کام کرنا چاہتے ہو؟ دل میں سوچا کہ دوسرا کوئی رکھنے کو جو تیار نہیں مگر زبان کو پھسلنے سے روکا اور عرض کیا کہ ملک و ملت کی خدمت کا مادہ ہمارے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور مدر س ہی تو ملت کے نوجوانوں کی تربیت کر سکتا ہے اور یہی ہمارا مقصد ہے۔ معلوم نہیں وہ مطمئن ہوئے کہ نہیں مگر اب موضوع کے متعلق سوالات کر کے ہمارا علم جاننے کی کوشش ہوئی۔ ہم نے اپنی دانست میں جواب دیے۔ آدھے سے زائد سوالات کے جواب ہمیں سرے سے معلوم نہیں تھے مگر ہم پورے اعتماد کے ساتھ بولتے گئے۔ جواب جو بھی ہوں وہاں ہم یہ ثابت کر آئے کہ مدرس کی بنیادی خوبی یعنی کہ گفتگو کرنا ضرور ہم میں پائی جاتی ہے۔ یوں ہمارا انٹرویو ختم ہوا جس کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ نوکری ملنے کے امکانات پچاس فیصدی تک ہیں۔
جامعہ والوں کو بھی شاید کوئی ہم سے زیادہ قابل نہ ملا کہ چند روز بعد ہی ان کی جانب سے پیشکش آ گئی۔ ہم بھی یہی چاہتے تھے سو ہماری بھی بن آئی۔ ہم اگلے روز جامعہ میں اپنے شعبہ گئے اور صدر شعبہ کو تعارف کروایا تو ان کے منہ سے فورًا نکلا ” لو آج سے ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے”۔ بعد میں پمعلوم ہوا کہ ہم ہی پہلے مدرس ہیں۔ اس سے قبل فقط صدر شعبہ تھے۔ ان کا نام ڈاکٹر توصیف الرحمان تھا۔ وہ دوسرے جز وقتی اساتذہ کے ساتھ مل کر شعبہ چلا رہے تھے۔
صدر شعبہ نے ہمیں بتایا کہ چونکہ سمسٹر ختم ہونے والا ہے چند ہفتے بعد سو آپ پر کوئی نصابی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور آپ اس دور کو اپنا ہنی مون پیریڈ ہی سمجھیے۔ اس وقت تک ہماری شادی نہیں ہوئی تھی مگر اس جملے نے پھر بھی ہمارے ذہن میں جلترنگ بجا دیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اطمینان ہوا کہ چلو بچوں کا سامنا کرنے سے پہلے کچھ تیاری بھی ہو جائے گی۔ مگر تقدیر ہمارے ساتھ ” میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا” کھیلنے والی ہے، اس کا ہمیں گمان نہ تھا۔
اگلے روز صدر شعبہ نے ہم سے استفسار کیا کہ آپ "وائرلیس کمیونیکیشن” پڑھا پائیں گے؟ یہ مضمون پڑھانا تو درکنار ، ہم نے پڑھا بھی نہ تھا مگر سچ بولنے سے ابتدائی تاثر خراب ہونے کا اندیشہ تھا’ سوچا کہ دو تین ماہ میں تیار ہو ہی جائے گا ایسا بھی مشکل نہیں۔ہمت مرداں مدد خدا جیسے محاوروں سے خود کو گرمایا۔ ساتھ ہی یہ شعر بھی ذہن میں آ موجود ہوا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہم نے کہہ دیا کہ بالکل پڑھا لیں گے۔ تو انھوں نے فرمایا ‘آج دو سو پانچ بجے تک اس کلاس میں پڑھا آنا’۔۔۔۔۔ ہمارے ہاتھوں کے طوطے کیا، چڑیاں کبوتر اور باقی بھی سب پرندے اڑ گئے۔ ان سے کہا کہ سر کل تو آپ نے کچھ اور فرمایا تھا۔۔۔۔۔ کہنے لگے کہ میرا تو یہی ارادہ تھا۔ مگر دوسرے شعبے کے صدر جو ان کے گہرے دوست ہیں، انھیں کسی کام سے باہر جانا ہے اور یہ محض تین چار ہفتوں کی بات ہے۔ پہلے تو میرا ارادہ خود پڑھانے کا تھا مگر جب آپ پڑھا سکتے ہو تو بہت ہی اچھی بات ہے۔۔۔۔۔۔اب خود کو کوسا کہ’ اور جھوٹ بولو، تمھارا جھوٹ تو ایک قدم نہیں چلا اور اب جو کچھ کلاس میں ہو گا تمھارے ساتھ خود بھگتنا’۔ اے سی والے کمرے میں بھی ہمارے پسینے چھوٹنے لگے۔ ٹائم دیکھا تو گیارہ بج چکے تھے ۔ ہم نے دل کڑا کر کے کہا کہ سر ابھی ہمارا آج کا لیکچر تیار نہیں ہے۔آج آپ لے لیں۔ اگلی کلاسز ہم لے لیں گے۔۔۔۔ سوچا ایک ہفتے کی تو مہلت مل جائے گی تو کہنے لگے کہ ابھی تین گھنٹے ہیں ناں۔ یہ پہلا سبق تعارف کا ہے سو آج مضمون کا تعارف کروا کے گھنٹے ڈیڑھ بعد چھوڑ دینا۔ ہم خاموش ہو گئے اور لیکچر تیار کرنے لگے۔
بہرحال ہم نے کچھ تیاری کی۔ کتاب میں سے کتنا بولنا ہے، کیا کیا بات کرنی ہے اور اگر کسی شرارتی طالب علم نے کچھ الٹا سیدھا سوال کر دیا تو اسے کیسے ٹالنا ہے۔ اسی دوران دو بج گئے۔ ہم نے کچھ آیات پڑھیں اور اللہ کا نام لے کے جماعت کی جانب چلے۔ جماعت میں داخل ہوئے تو دل چاہا کہ واپس بھاگ جائیں مگر ہمارے قدم ہی من من کے ہو گئے۔ پچاس ساٹھ طالب علم موجود جن میں سے بعض ہم سے عمر میں بھی دگنے۔ بعد میں ہمیں پتا چلا کہ یہ لوگ طویل مدت سےصاحبِ روزگار تھے اور ان کی ترقی ان کے ادارے نے ان کی ماسڑ ڈگری سے مشروط کر دی تھی سو یہ لوگ پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے موجود تھے۔ او رسونے پہ سہاگہ یہ چند لڑکیاں بھی موجود۔ بہرحال میز پر اپنا سامان رکھا اور خود میز کے پیچھے ہو گئے۔ ٹانگیں ہماری ایسے ہل رہی تھیں جیسے زلزلے سے ہلکی عمارتیں لرزتی ہیں۔ طالب علم ہمیں دیکھ کے حیران۔ پہلے تو سمجھے کہ شاید کوئی نیا ساتھی ہے۔ مگر ہمارے میز کی جانب جانے پر ایک دم خاموشی چھا گئی۔ سب ہمیں گھورنے لگے۔
ایک دو منٹ ہم خاموش رہے اور سوچتے رہے کہ کہاں سے بات شروع کریں۔ جو سوچ کے آئے تھے اپنے باریش طالب علموں اور نوجوان طالبات کو دیکھ کر بھول چکے تھے۔بالآخر ہم نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ ہم آج سے آپ کو یہ مضمون پڑھائیں گے۔ کتاب کا نام لکھا اور بتایا کہ اس کے یہ یہ اسباق ہم پڑھیں گے اور آج ہمارا پہلا سبق ہو گا۔”مضمون کا تعارف”-
اس پرکچھ طالب علموں نے شور مچایا کہ وہ تو اس کتاب کے سات اسباق ختم کر چکے ہیں اور آپ ہمیں پہلا سبق کروانا چاہتے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ’ فولڈڈ ڈائی پول’ اور’ یاگی یوڈا’ انیٹیوں میں کیا فرق ہے؟ اب تو ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ ہمیں یہ خیال ہی نہیں آیا تھا کہ سمسٹر کا اختتام ہے سو ابتدائی سبق کوئی کام نہیں دے گا۔ ہم نے کورس لکھنے کا ارادہ کیا تا کہ ہم ان بچوں سے آنکھ بچا کے اپنا پسینہ خشک کرنا چاہتے تھے۔خیر بچے بلکہ بزرگ کہاں خاموش ہونے والے تھے۔ )۔ ایک لڑکا بولا کہ جس کو کچھ نہ آتا ہو استاد بن جاتا ہے۔ لڑکیاں کہاں پیچھے رہنے والی تھیں ۔۔’خود پڑھنے اور دوسروں کو پڑھانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔اتنے بڑے بچوں کو تو ہم سخت لہجے میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہمارا ضبط جواب دے گیا۔ اب ہم نے انھیں بتا دیا کہ ہمیں ابھی کچھ دیر قبل ہی کلاس دی گئی ہے اور ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ آپ لوگ کیا پڑھ چکے ہیں اور کتنا باقی ہے۔۔۔۔اگلی کلاس میں ہم آپ کی شکایات کا ازالہ کر دیں گے۔( ہمارا ارادہ اتنی بدتمیز جماعت پڑھانے کا نہیں تھا)
اگلے دن ہم سے ہمارے سر نے پوچھا تو ہم نے اس بار صاف ٖصاف بتا دیا کہ یہ ہوا ہمارے ساتھ۔۔ پہلے ہی ایک جھوٹ بول کے بھگت چکے تھے۔ مزید سے بچنا چاہتے تھے۔ کہنے لگے کہ اگلی بار میں پڑھائوں گا آپ میرے ساتھ جانا۔ ہم نے اثبات میں جواب دیا۔اگلے ہفتے وہ کلاس میں گئے۔ ہم بھی ان کے ساتھ تھے۔ہم آخری نشستوں میں سے ایک پر جا براجمان ہوئے۔ ہمیں دیکھ کر طلباء معنی خیز انداز میں مسکرائے۔ بعض تو پیچھے مڑ کر ہمیں دیکھ کر طنزیہ مسکراتے بھی تھے۔ ۔ ہمارے صدر شعبہ نے بہت ہی کمال کا لیکچر دیا۔
حالانکہ دن بھر وہ کمپیوٹر پر بیٹھ کر وہ تاش کھیلتے تھے سو ہمارا گمان تھا کہ ان کا علم بھی سطحی سا ہو گا۔ مگر انھوں نے سحر طاری کر دیا کلاس پر۔ تین گھنٹے کا لیکچر تھا مگر چار گھنٹے گزر گئے۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہم نے کبھی ایسا لیکچر نہیں سنا تھا۔
بارے ان کا لیکچر ختم ہوا اور انھوں نے کہا کہ اگلی کلاس آپ کے نئے مدرس لیں گے اور ہمارا تعارف کروایا۔ طلباء آج کل کے بہت منہ پھٹ ہیں سو بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ دیا کہ سر آپ پڑھائیں،انھیں کچھ نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مجھے ایک بات بتائو۔ اگر میں تم سے کہوں کہ ایک گھنٹے میں بلیو ایریا کھود دو تو کیا تم لوگ ایسا کر پائو گے؟ سب نے بیک زبان کہا کہ ایسا ممکن نہیں۔ تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا۔ ایک گھنٹے نے نوٹس پر یہ کیسے لیکچر تیار کر سکتا تھا۔ سو آپ لوگ میرا اعتبار کریں اور ان کو ایک موقع دیں۔ یہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ اگر دو کلاسز میں یہ آپ کو مطمئن نہ کر پایا تو میں آپ کو دوبارہ سارا کورس کروا دوں گا۔ اس پر سب راضی ہو گئے۔
اب ہمیں بھی اپنے محسن کے اعتماد پر پورا اترنا تھا۔ سو ہم نے بھی دل کھول کر پہلی بار محنت کی اور اس کا پھل بھی ملا۔سمسٹر کے اختتام تک وہ مضمون ہمارے پاس رہا اور ہم ہی نے اس کا نتیجہ بھی بنایا۔ ساتھ ہی اس کلاس سے ہمیں ایسا اعتماد ملا کہ اب کوئی بھی صورت حال ہو کلاس قابو کرنا کوئی مسئلہ نہیں بزرگوں کو ابتدائی کلاس پڑھا کے انجنئرنگ کے طلباء تو بہت ہی بچے لگتے ہیں۔ اور اس سب کا سہرا ہمارے ان محسن صدر شعبہ کو جاتا ہے۔