گور پیا کوئی ہور  «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • گور پیا کوئی ہور 

    تحریر: ابنِ ریاض
    مظہر کلیم بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ ستر ،اسی اور نوے  کی دہائی کے نوجوانوں کا بچپن اس لحاظ سے منفرد ہے کہ  ان کی  تربیت میں والدین اور اساتذہ  کے علاوہ  کچھ مصنفین کا  بھی بہت اہم کردار ہے۔  ان میں حکیم  سعید،  ابن ِ صفی ، اشتیاق احمد اور مظہر کلیم  ایم  اے کا نام جلی حروف میں شامل ہے۔    ہم لوگوں کا  بچپن اور لڑکپن انھی کی یادوں سے منور ہے۔  یہ سب اپنی مثال آپ ہیں کیونکہ جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے تاہم آخر الذکر ہمارے پسندیدہ ہیں۔ ٹارزن، عمروعیار، آنگلو بانگلو کی سینکڑوں یا شاید ہزاروں کہانیاں انھوں نے تخلیق کی۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ عمران سیریز کے بھی چھ سات سو ناولز انھی کا کارنامہ ہیں۔ ابن صفی مرحوم عمران سیریز کے خالق تھے۔ ان کے بعد عمران سیریز لکھنے کی سینکڑوں مصنفین نے کوشش کی ہے مگر حق بات یہ ہے کہ ابنِ صفی  کے بعد جس کی کوشش کو پذیرائی ملی وہ مظہر کلیم ہی تھے۔ ان کی کتاب اسی اور نوے کی دہائیوں میں بیسٹ سیلرتھی۔  کتب خانوں پر ان کے نئے ناولوں کا انتظار کیاا جاتا تھا اور وہ کتابوں کی  دوکان یا لائبریری  اور پرانی کتب کی دوکانوں سے ہاتھوں ہاتھ لے لئے جاتے تھے ۔ہمیں  یاد ہے کہ  راولپنڈی کی پرانی کتب کی دوکان سے ہمیں عمران سیریز  پانچ روپیہ  یومیہ کرایے پر ملا کرتی تھی جبکہ نئے ناول  کا کرایہ دس روپے یومیہ تھا ۔ تاہم  شاید ہی ہمیں کبھی نیا ناول ملا ہو ۔ اب  ہر چیز  انٹرنیٹ پر موجود ہے تو آپ بآسانی دیکھ  کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ  کس جاسوسی مصنف کے ناول سب سے زیادہ پڑھے  جاتے ہیں۔

    چند سالوں سے عمران سیریز کے معیار میں کمی سبھی نے محسوس کی تھی مگر یہ بھی مظہر کلیم کی کامیابی ہی سمجھنی چاہیے کہ پچیس تیس برس انھوں نے ایسے شاندار ناول دیے کہ لوگ اس سے کم کو برداشت ہی نا کر پائے اگرچہ ان  ناولوں  پر  بھی مظہر کلیم کا نام کندہ تھا۔ مظہرکلیم انسان تھے سو ان کو زوال لازم تھا کہ لازوال تو محض اللہ کی ذات ہے۔چند ناولوں میں یکسانیت کا آ جان ا عین قدرتی ہے ۔مگر اس میں کلام نہیں کہ ان کے قلم سے لاکھوں نوجوان سیراب ہوئے۔ رجائیت، جہد مسلسل اور حب الوطنی ان کے ناولوں کے بنیادی پیغامات تھے جوکہ قریب قریب ہر ناول میں موجود تھے۔اسرائیل پر لکھےگئے ناول تو قارئین کے پسندیدہ تھے مگر ہمیں ان کا چیزوں کو مختلف انداز میں دیکھنا بہت پسند تھا۔ ایک ناول ‘فائول پلے’ میں انھوں نے اسی  کی دہائی  میں ہی  دکھا دیا  کہ کیسے کچھ قوتیں میچ کے نتیجے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ایسے ہی ‘ٹریٹی ‘اور ‘ٹاپ پرائز ‘ایسے ناول ہیں جواقوام متحدہ میں ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کرتےہیں۔’ آپریشن سینڈوچ’ اور ‘سینڈوچ پلان ‘میں انھوں نے مشرقی پاکستانی کی علیحدگی کو  موضوع  بنایا۔’مسلم کرنسی’ میں  غیر مسلم ممالک کی ان سازشوں کو بے نقاب کیا جو وہ  مسلم دنیا کے اتحاد کو روکنے کے لئے کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر انھوں نے کئی ناول لکھے۔ایسے بے شمار ناول ہیں جو سوچ کے نئے در وا کرتے ہیں۔
    سائنسی ایجادات کا خوبصورت استعمال بھی مظہر صاحب کا خاصہ تھا۔ ہم اسی اور نوے کی دہائی میں ناول پڑھتے تھے تو ناول میں استعمال شدہ آلات ہمیں فکشن محسوس ہوتے تھے۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد معلوم ہوتا کہ یہ فکشن نہیں بلکہ ان کی زرخیر ذہن کی رسا ئی تھی کہ انھوں نے چند سال قبل اس ایجاد کو دیکھ لیا۔ اگر سائنس کے طالب علم ان کے ناول پڑھیں تو ان کو تحقیق کے لئے نئے خیالات  بھی وافر مقدار میں ملیں گے۔
    مظہر کلیم کے ناولوں کی خاص بات یہ ہے کہ کئی کئی بارپڑھ کے بھی انسان سیر نہیں ہوتا۔ اب بھی ہم جب منصبی مصروفیات سے تھک جاتے ہیں اور دماغ ایسا سن ہوتا ہے کہ کچھ لکھا بھی نہیں جاتا تو مظہر کلیم کی کوئی عمران سیریز ڈاؤن لوٖڈکر کے پڑھنا شروع کرتے ہیں اور پھر ہم دوبارہ تروتازہ ہو جاتے ہیں سو مظہر کلیم صاحب سے اپنا ناتا اٹوٹ ہے۔
    مظہر کلیم کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ انھوں نے قریب پانچ دہائیاں ہر مہینے کوئی نہ کوئی عمران سیریز کا ناول بلاناغہ دیا۔ بچوں کی کہانیاں اس کے علاوہ تھیں۔ وہ وکیل بھی تھے تو یقیناً اپنے جوانی کے زمانے میں پریکٹس بھی کرتے ہوں گے، ان کے بیوی بچے بھی تھے ۔سوغمی خوشی تو قدرتی بات ہے۔دوسری مصروفیات بھی یقیناًہوں گی۔ اس کے باوجود ہر ماہ ایک ناول دیناکوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان کے شاندار اور ذرخیز دماغ کو اس کا سہرا دینا چاہیے کہ وہ اتنی جلدی ایک نیا موضوع سوچ لیتے تھے۔ ہم لوگوں کے دماغ میں بھی خیال آتے ہیں مگر ہم میں سے اکثر  افراد سستی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ چلو کل لکھتے ہیں یا شام کو لکھتے ہیں ابھی یہ کام کر لیں۔ پھر کاہلی غالب آتی ہے اور ہم لکھنے سے رہ جاتے ہیں یہ ہماری ذاتی کیفیت ہے۔مگر مظہر صاحب لکھنے کے عاشق تھے۔ یہاں ایک  خاتون ناول نگار کی بات کی بھی سمجھ آ رہی ہے کہ وہ جتنا لکھتی ہیں انھیں اتنا ہی سکون ملتا ہے اور وہ کسی رائٹر بلاک کو نہیں مانتی سو ایسے ہی کچھ مظہر صاحب بھی تھے کہ اتنی مصروفیات میں سے بھی لکھنے کے لئے ٹائم نکالنا اور قارئین کو کبھی مایوس نہ کرنا جو ہر ما ہ ان کی کتب کے منتظر تھے کوئی عام بات یقیناً نہیں ہے۔
    بڑے لوگ مرتے نہیں ہے۔ ان کا کام انھیں زندہ رکھتا ہے اور مظہر صاحب بھی انھی لوگوں میں سے ہیں۔ ان کے عمران سیریز کے ناول اور بچوں کی کہانیاں جب تک اردو ہے تب تک جگمکاتی رہیں گی اور اپنے قارئین کو محظوظ کرتی رہیں گی۔ وہ ہمارے درمیاں رہیں گی بس یہ ہو گا کہ اب کسی نئی اچھی عمران سیریز کی تخلیق کی امید ختم ہو گئی ہے۔ وہ تھے تو وہ امید تو تھی کہ شاید چراغ بجھنے سے پہلے ایک مرتبہ روشن لو دے مگر یہ امید حسرت بن گئی ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اگلی منازل آسان فرمائے مگر حق تو یہ ہے کہ
    بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
    گور پیا کوئی ہور

    ٹیگز: , , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔