شہباز اکبر الفت ہمارے بہت اچھے دوست اور ایک عمدہ قلم کار ہیں۔ ہر صنف(صنف نازک کے علاوہ) میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ جملے بھی برجستہ اور دلکش بولتے ہیں اور محفل میں شمع تو خیر نہیں مگر دیا ضرور بن جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں انھوں نےایک جائزہ لیا۔ اس میں انھوں نے کوئی پانچ سو خواتین سے معلوم کیا کہ ان کی پسندیدہ شخصیت کون ہے تو ان میں سے پانچ سو اٹھاسی نے ابن ریاض کا نام لیا۔ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ ہمارے ہاں اکثر پچاس ہزار کی آبادی میں چنائو جیتنے والا امیدوار ڈیڑھ لاکھ ووٹ لے جاتا ہے تو اٹھاسی مزید ووٹ کس قطار میں۔ دراصل روحوں کو اوپر کوئی کام نہیں ہوتا۔ دھوپ میں کفن لپیٹے قیامت کا انتظار کرتی رہتی ہیں اور دنیا کے معاملات کی گن سن لیتے رہتے ہیں۔ جوں کہ کوئی اہم معاملہ پیش آتا ہے اپنی بکل لپیٹتے ہیں اور اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور پھر عالم بالا کو کوچ کر جاتے ہیں۔
اب شہباز صاحب نے جائزہ(سروے) کرنے کے بعد ہم سے رجوع کیا کہ ہم اب کیا کریں۔ سب لوگ ہی آپ کے پرستار ہیں۔ ہم نے کہا کہ ایسے سروے کی ہماری دانست میں تو کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہم تو گوشہ نشین آدمی ہیں اور اب تو لوگ ہمارے اور بھی پیچھے پڑ جائیں گے۔ کہنے لگے کہ ہمیں تو بہرحال اپنے جائزے کے نتائج عوام تک پہنچانے ہیں۔ہم نے جب بتایا کہ ہم ناحق دشمنوں میں گھر جائیں گے اور ہمیں تو نظر بھی بہت جلدی لگتی ہے تو فرمانے لگے کہ چلیں میں تعداد آدھی کر دیتا ہوں۔ کچھ نظر اور دشمنی آپ کی صحت کے لئے ضروری ہے۔ سعودی عرب کے کھانے کھا کھا کر پھول کے کپا ہوئے جا رہے ہیں۔ ہمیں اچھا تو نہیں لگا آخری جملہ مگر ہم نے اجازت دے دی۔ تو آپ خود جان لیجیے کہ عنوان میں ‘دوسری’ کا لفظ زائد ہے۔
اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ کیا آپ کی کوئی فین کمپنی ہے جو ہر لڑکی آپ کی فین ہے تو ہم نے عرض کیا کہ اس پر ہمیں کسی گانے کا ایک مصرعہ یاد آ گیا جو کچھ یوں ہے
بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں
دراصل ہماری بنیادی ڈگری تو ہے ہی مھندس کہربائی(الیکٹریکل انجینئرنگ) کی سو بجلی سے تو ہمارا گہرا تعلق ہے۔ اور فین کا بھی تعلق بجلی سے ہی ہوتا ہے۔ بجلی نہ ہو تو فین بھی پڑے پڑے ناکارہ ہو جائے گا۔ جب کہ ہم سعودی عرب میں ہیں جہاں بجلی وافر مقدار میں موجود ہے جو فین کی حیات کا باعث ہے۔ اور فین کو بہرحال حیات عزیز ہے سو یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے ابن ریاض کے مقبول عام ہونے کی۔
ہمیں شہباز سے یہ گلہ ہے کہ انھوں نے اپنا جائزہ محض لڑکیوں تک کیوں محدود رکھا۔اپنے جائزے میں تمام اصناف کو شامل کرتے۔ اسے بچیوں، خواتین، مردوں، لڑکوں، بچوں اور دیگر مخلوقات تک کیوں وسعت نہ دی۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ نتیجہ ہمارے ہی حق میں آتا۔ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ لڑکیوں میں سب خواتین شامل ہیں کہ بچیاں تو بہرحال لڑکیاں ہی ہوتی ہیں اور خواتین بھی کب خود کو لڑکی سے کم سمجھتی ہیں۔ اگر صنف کرخت یعنی کہ مردوں کا تذکرہ ہوتا تو بھی ہمارے ووٹ کم نہ ہوتے۔ ہمارے والد، بھائی بھتیجا، بھانجا اور بیٹا ہمارے ہی حق میں بولتے۔ اس میں البتہ کلام ہے کہ اس بار بھی روحیں ہماری مدد کو آتیں یا نہیں مگر جیسے کوئی ایک دہشت گردی کرے تو تمام مسلمان ذمہ دار ٹھہرتے ہیں، ویسے ہی اتنا لوگوں کی حمایت کو تمام مردوں کی حمایت جاننا چاہیے۔
غیر انسانی مخلوق میں بھی ہماری مقبولیت ہم سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہمارے کمرے میں تین مکھیاں ہیں۔ تینوں ہم پر فدا۔ ادھر ہم آفس سے اندر داخل ہوتے ہیں ادھر وہ ہم پر صدقے واری ہو جاتی ہیں۔ وہ بیگم کے قریب نہیں جاتیں اور ہمیں چھوڑتی نہیں۔ کچھ دن پہلے گھر میں مچھر بھی آگیا تھا۔ وہ بھی ہمیں ہی اپنا سمجھتا تھا اور اپنی ساری باتیں ہمارے کان میں ہی کرتا تھا۔ مجال ہے کسی اور کے قریب بھی جاتا ہو۔ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران ہم گائوں گئے تو ایک کتا بھی ہمیں دیکھتے ہی بھونکنا شروع ہو جاتا تھا۔ ہم نے چچا سے پوچھا کہ یہ ہمیں دیکھ کر اس طرح کیوں کر رہا ہے کہنے لگے کہ وہ تمھاری آمد پر اپنی خوشی کا اظہار کر رہا ہے۔وہ تو شکر ہوا کہ وہ بندھا ہوا تھا ورنہ اس کا خوشی منانے کا طریقہ خاصا غیرمہذب تھا۔ اگر وہ جوش میں آ کر کوئی بوسہ دے دیتا تو ہم تو لگ گئے تھے ناں بستر سے۔ کتےسےتو ہم بچ گئے مگر بھڑوں سے نہ بچ پائے۔ ہم گائوں میں ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ہمیں دیکھ کر بھڑیں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور تمام شرم و حیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سر راہ ہمارے دونوں گالوں پر اپنی محبت کے نشان ثبت کر کیے اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔ہم تومشرقی مرد ہیں اس پر چپ ہی رہتے مگر عشق اور مشک چھپائے کہاں چھپتے ہیں۔ ہمارے دونوں گال پھول گئے اور اس کا پتہ تمام گائوں کو چل گیا۔
ایک وقت تھا جب ہم ابن ریاض نہیں تھے۔ اپنے اصلی نام سے فیس بک آئی ڈی تھی اور جو کچھ ٹوٹا پھوٹا لکھتے تھے وہ بھی عمران اعوان کے نام سے۔ کوئی ہمیں پوچھتا ہی نہ تھا
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
والا معاملہ تھا۔ ہم اپنی آئی ڈی کو دیکھ دیکھ کر حسرت بھرتے تھے اور اس پر آئی ڈی پر آنے والے مہمانوں کو دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے۔لڑکی تو لڑکی کوئی لڑکا بھی ہمیں شرف دوستی نہیں بخشتا تھا۔ابن ریاض کا قلمی نام تو ہم نے شاید 2012 میں رکھ لیا تھا مگر فیس بک آئی ڈی کوئی سوا سال ہی پرانی ہے۔ نام رکھتے ہی ہمارے بھاگ جاگ گئے۔ شاید پہلے لوگوں کا گمان تھا کہ ہم ویسے ہی دنیا میں آ گئے۔اب ان کی یہ غلط فہمی بھی رفع ہو گئی۔ویسے بھی اکثر افراد ہماری بجائے ہماری والد صاحب کو ہی مخاطب کرتے ہیں اور ہمیں پھر انھیں شفقت پدری سے بھی نوازنا پڑتا ہے۔
شہباز صاحب نے تو ہم سے گیدڑ سنگھی بھی پوچھی ہے مگر بھلا وہ کوئی بتاتا ہے تو ہم کیوں بتائیں؟ مگر چونکہ ہمارے دوست ہیں تو بتائے دیتے ہیں کہ ہماری دانست میں تو اس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ جب بھی کوئی ناراض ہو کے گیا تو جب بھی واپس آیا تو ہم نے چپ کر کے ایڈ کر لیا۔ کئی لوگ تو دس دس بار دوستی ختم کر کے دسیوں بار دوستی کی پیشکش کی اور ہم نے ہر بار قبول کی۔ایسا سادہ اور اللہ لوک کسی کو کہاں ملے گا۔
اس کے علاوہ ہماری بہت سے لوگوں سے بات ہوتی ہے مگر یہاں کی بات وہاں کرنے کی عادت نہیں۔ اور تیسری وجہ اس وقت ہمیں یاد نہیں۔ ہمارا اپنی تعریف کرنے کو دل کر رہا تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی بات نہیں۔ بس یہ اللہ تعالٰی کا کرم ہے کہ وہ خامیوں پر پردہ ڈال کر خوبیوں کو پیش کر دیتا ہے۔
ہمارا شہباز سے یہ مطالبہ ہے کہ ہر ایک سے نہ سہی ہمیں ہر دوسری لڑکی سے ہی ملوا دیں جو ہماری پرستار ہے۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اپریل 5th, 2018
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: 5
ٹیگز: dusri, Ibn e Riaz, Ibn r Riaz, Ibneriaz, larki, parastar, Shagufa e seher