ہم نے گاڑی چلائی «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ہم نے گاڑی چلائی

    تحریر: ابنِ ریاض
    لائسنس تو ہمیں مل گیا اور دوستوں سے ہم نے مبارک باد بھی وصول کر لی کہ اس مملکت میں ‘اقامہ'(ایک طرح کا شناختی کارڈ سمجھ لیں) اور ‘رخصہ’ یعنی کہ لائسنس کا حصول دشوار ترین کام ہیں مگرحق تو یہ ہےکہ گاڑی چلانی ہمیں ابھی بھی نہیں آتی۔ ہم نے اپنے قریبی ساتھیوں کو صورتحال سے آگاہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ فکر نہ کرو ڈرائیونگ سڑک پر ہی آتی ہے جس طرح تیراکی پانی میں آتی ہے۔
    اب مرحلہ آیا گاڑی خریدنے کا۔ ہم اس سلسلے میں پرانی گاڑی لینا چاہتے تھے کہ کہیں لگ بھی جائے یا کوئی اسے لگ جائے تو ہمیں تکلیف کم ہو۔ مگر دوستوں نے سمجھایا کہ زیادہ پرانی گاڑی تو آئے روز کسی نہ کسی مسئلے کا شکار ہو گی۔ بار بار ورک شاپ لے جانا پڑے گی اور مکینک لوگ نیا بندہ جان کر لوٹ لیں گے سو کچھ پیسے یعنی کہ ریال زائد لگا کر کوئی اچھی سی گاڑی لو۔ بات ہمارے دل کو لگی اور ہم نے جی کڑا کر کے اپنے بجٹ سے زیادہ رقم لگانے پر آمادگی ظاہر کر دی۔
    چند دن کے بعد ہم ایک کار جو کہ 2005 ماڈل تھی بصرف زرِ کثیر لے آئے۔ لے آئے سے مراد یہ کہ ایک دوست چلا کرلایا اور ہم ساتھ بیٹھے خوش ہوتے رہے کہ چلا رہا ہے تو کیا ہوا، گاڑی تو ہماری ہے۔
    اگلے دن جامعہ جاتے ہوئے ہم نے ایک نسبتًا ویران روڈ پر گاڑی چلائی جو کہ اتفاق سے ٹھیک چل گئی۔ یعنی کہ کسی چیز سے نہیں ٹکرائی کیونکہ رستے میں کوئی چیز تھی ہی نہیں۔ ہاں البتہ جب ہم نے اپنی منزل پر پہنچ کر بریک لگائی تو ہمارے دوست ڈاکٹر سہیل کا سر ڈیش بورڈ سے جا ٹکرایا مگر اس میں سراسر قصور ان کا اپنا تھا کہ انھوں نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھ رکھی تھی۔
    اس سے اگلے روز ہم جامعہ سے گاڑی گھر لے آئے۔ یہ کوئی پچیس کلومیٹر کا سفر بنتا ہے۔ڈاکٹر سہیل اب بھی ہمارے ساتھ تھے اور آج وہ پچھلے تجربے سے سبق سیکھے ہوئے تھے۔ ہمیں دقت ابتداء میں ہوئی جب گاڑی ایک جھٹکے سے بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح سٹارٹ ہوئی ۔تاہم ہم نے ماہر بل فائٹر کی طرح چند گز بعد ہی گاڑی کو سنبھال لیا۔ اس کے بعد ایک مشکل مرحلہ تب آیا جب ایک چڑھائی پر ایک اشارہ آ گیا اور ہمیں گاڑی روکنی پڑی۔ اس پر ہم نے دستی بریک نہیں لگائی۔ چنانچہ جوں ہی پیروں والی بریک چھوڑی گاڑی پچھلی گاڑی سے مراسم بڑھانے الٹے قدموں چلی مگر پچھلی گاڑی کے ڈرائیور نے ظالم سماج کا کردار ادا کرتے ہوئے ہارن بجا دیا جس سے ہماری گاڑی بدک گئی۔ اس مرتبہ بھی ڈاکٹر سہیل کی مدد سے ہم اس مرحلے میں بھی سرخرو ہوئے اور گھر پہنچ کر ہی دم لیا۔
    بڑی شاہراہوں پر ہمیں کوئی خاص مسئلہ پیش نہیں آیا۔ کیونکہ وہ کھلی ہوتی ہیں تو لوگ ہماری ڈرائیونگ دیکھ کر دور سے ہی اپنی گاڑی کو دوسری لین میں کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ تو اپنی گاڑٰی سڑک سے بھی اتار لیتے تھے کہ کچھ ہونے کی صورت میں نقصان انہی کی گاڑی کا ہونا ہے۔ ہماری کھٹارا اگر مزید خراب ہو بھی گئی تو کیا ہو گا؟
    تکلیف ہمیں محلے کی گلیوں میں ہوتی ہے جو کہ قدرے تنگ ہوتی ہیں۔ ان میں ڈرائیور ہمیں دیکھ کر جل تو جلال تو شروع کر دیتے ہیں۔ پھر گاڑیاں تو ڈرائیور ایک سمت میں کر لیتے ہیں مگر دیواریں، درختوں اور فٹ پاتھ وغیرہ کو ہماری گاڑی کی دست برد سے بچانا ان کے لئے بھی محال ہوتا ہے، اس کا اکثر نتیجہ تصادم میں نکلتا ہے۔ ایک مرتبہ ہم گاڑی پیچھے کر رہے تھے۔ اور اتنا اچھا کر رہے تھے کہ بریک لگانا ہی بھول گئے۔ وہ تو ایک دیوار نے بمپر کھٹکھٹا کر یاد دہانی کروائی اور معاوضے میں پچھلی بتی لے گئی۔
    ایک اور دن کا قصہ ہے کہ ہم شاہراہ کے قریب گاڑی چلا رہے تھے کہ ہمیں محسوس ہوا کہ عقب دکھانے والا شیشہ ٹھیک نہیں لگا ہوا تو ہم اس کو ٹھیک کرنے لگ گئے اور گاڑی پر سے دھیان چوک گیا۔ انجام کار اگلا ٹائر پھٹ گیا۔
    اسی طرح ایک بار گاڑی کا موڑ کاٹتے ہوئے ہمیں ٹھیک اندازہ نہیں ہوا اور دائیں ہاتھ پر دیوار نے اپنا نشان چھوڑ دیا۔ اب وہ نشان ہمیں بہت برا لگتا تھا کہ اس نے ہماری گاڑی کے حسن کو داغدارکر کیا ہے۔ مگر ایک روزیوں ہوا کہ صبح ہم اٹھے اور گاڑی کو چھاؤں میں کھڑی کرنے گئے تو دیکھا کہ گاڑی کے الٹے ہاتھ بھی ایک نشان ہے۔ شاید کوئی ہمارے جیسا ہی ڈرائیور ہماری گاڑی کو ٹکرا کر گزرا تھا۔ یا شائد اسے ایک سمت میں داغ اچھا نہیں لگا تھا تو اس نے دوسری سمت بھی لگا دیا۔ ہمیں تو اتنا برا نہیں لگا کہ اور کچھ نہیں تو بغیر خرچہ کیے گاڑی متوازن ہو گئی۔


    ہماری گاڑی چلے جا رہی ہے اور ہم بھی اس پر کچھ کچھ مہارت حاصل کیے جا رہے ہیں۔ مگر اس میں زیادہ ہمت اس گاڑی کی ہے۔ اسے دیکھ کے ہمیں حضرت خالد بن ولید کا قول یاد آ جاتا ہے کہ’میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں کہ جس پر زخم نہ ہو مگر افسوس کہ مجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی’۔

     

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔