بچپن سے ہی ہمیں غیر نصابی سر گرمیوں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔ ہم سکول میں ہونے والے تمام مقابلوں میں اپنا نام لکھواتے تھے۔ کرکٹ، ہاکی اور دیگر کھیلوں میں ہمارا نام تو لکھ دیا جاتا مگر ہمیں ان میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ وہ شاید ہماری صحت دیکھ کر ہی ہمیں ناموزوں سمجھ لیتے تھے۔ اس کا تذکرہ ہم پرانے ایک کالم بعنوان ‘ بچپن کی ناآسودہ خواہشیں ‘ میں کر چکے ہیں۔ سر عام اس حوصلہ شکنی کے بعد ہم نے سوچا کہ اب کسی اور شعبے میں طبع آزمائی کی جائے۔
تقریری مقابلے بھی ہمیں بہت پسند تھے۔ جب مقررین ہال میں موجود سامعین کے دلوں کو اپنے دلائل سے گرماتے اور انھیں بے اختیار تالیاں بجانے اور نعرے لگانے پر مجبور کر دیتے تو ہمیں ان پر رشک آتا تھا۔ ہماری خواہش تھی کہ ہم بھی ایسے عوامی مقرر بنیں۔ ایکمرتبہ کلاس میں تقریری مقابلہ ہوا۔ ہم نے سوچا کہ یہ ٹھیک رہے گا۔ ایک دم سے سکول مقابلے میں حصہ لینا کچھ مناسب نہیں۔ ہم اپنے ہنر کوپہلے کلاس میں آزمائیں گے اور یہ جیتنے کے بعد اگلی منزل پورے سکول کا مقابلہ ہو گا۔اس کے بعد پھر تحصیل، ضلع ، صوبہ اور ملک کی سطح تک درجہ بدرجہ اپنے جوہر دکھانے کا منصوبہ بنایا۔ الغرض ہم نے نام لکھوا دیا۔ تقریر کا موضوع ‘قائد اعظم’ تھا اور کل دو مقرر تھے بشمول ہمارے۔یعنی کہ ہمیں ایک ہی بندے کو زیر کرنا تھا اور ہماری رائے میں یہ کچھ ایسا مشکل کام نہ تھا۔ گھر جا کر ہم نے اپنےبڑوں سے ایک زبردست تقریر لکھوائی۔ ایک دو مرتبہ چِلا کر تقریر کی۔ گھر والوں نے ہمیں سمجھایا کہ کہاں آرام سے بولنا ہے، کہاں لہجہ مدہم رکھنا ہے اور کہاں اپنے پھیپھڑوں کا پورا زور لگانا ہے اور ایک زوردار مکے سے ڈائس توڑ دینا ہے۔ ہم نے تمام ہدایتیں ازبر کر لیں اور تقریر بھی۔
اگلے روز کلاس میں گئے اور کچھ دیر بعد ہماری میڈم نے مقابلے کا آغاز کیا۔ ہمارے ساتھ پہلی زیادتی یہ ہوئی کہ ڈائس پر میڈم خود کھڑی ہو گئیں اور ہمیں سب کے سامنے کر دیا۔ ڈائس کیا گیا ہمارے حواس ہی چلے گئے۔ کیوں کہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہم مکہ کس پر ماریں گے۔ مزید براں یہ کہ میڈم نے پہلے ہمیں بلایا کہ آپ آئیں اور تقریر کریں۔ ہم سامنے آئے اور اپنی تقریر کھولی۔ یہ شعر پڑھا
ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس کے بعد یاد آیا کہ ڈائس غائب ہے کیونکہ ہماری ٹانگوں نے اچانک ہی عجیب قسم کا ڈانس شروع کر دیا تھا۔ ڈائس ایسے ہی مشکل وقتوں کا تو ساتھی ہوتا ہے۔ بد حواس تو ہم نے ہونا ہی تھا۔ ہم بھول گئے کہ کہاں مدہم بولنا ہے اور کہاں چلانا ہے۔ ہماری تقریر خبرنامہ کا منظر پیش کر رہی تھی اور اس پر ہمارے جسم کے اعضا االگ الگ رقص میں مشغول تھے۔اس کا نتیجہ بھی جلد ہی ظاہر ہو گیا جب میڈم نے ہماری بجائے دوسرے لڑکے کا نام سکول کے مقابلے کے لئے نامزد کیا۔ اس واقعے کے بعد تقریر کرنے سے ہم نے توبہ کی۔
کوئز مقابلوں میں بھی ہم نے خوب حصہ لیا اور ہر بار منہ کی کھائی۔ ہم اپنی دانست میں ٹھیک جواب دیتے تھے اور اس کا حوالہ بھی موجود ہوتا تھا مگر میزبان کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا ہے کہ ہمارے پاس تو یہی لکھا ہے اور منتظمین پھر ہمیں مقابلے کا قواعد دکھانا شروع ہو جاتے تھے کہ جو لکھا ہوا ہے وہی درست ہے اور انتظامیہ کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ 2001میں پاکستان مین سیف (سائوتھ ایشین فیڈریشن ) کھیل ہونے تھے جو کہ نو گیارہ کے واقعے کے بعد ملتوی ہو گئے تھے۔اس سلسلے میں ایک کوئز پروگرام ہوتا تھا جس میں جیتنے والوں کو کافی انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ اول نمبر پر آنے والوں کو دس لاکھ ملتا تھا۔ہم نے کچھ کوئز پروگرام ٹی وی پر دیکھے تو اندازہ ہوا کہ یہ کچھ مشکل نہیں ۔ یوں بھی کھیلوں سے متعلق تھا تو ہمارے لئے اور بھی آسان۔ خواب میں ہی ہم نے خود کو دس لاکھ جیتتے دیکھ لیا۔ہم نے بھی اس مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور انکی شرائط پوری کر دیں۔ انھوں نے تیاری کے سلسلے میں ایک کتاب دی تھی جس میں سیف گیمز اور جنوبی ایشیائی ممالک کی تاریخ تھی جو ہم نے رٹ لی۔ تاہم کھیل ملتوی ہونے کے باعث یہ پروگرام بھی بند ہو گیا ۔ دو سال بعد یہ پروگرام دوبارہ شروع ہوا تو ہمیں ٹیلی ویژن والوں نے نہیں بلایا اور ہم بھی دل ہی دل میں ان کی شان میں ناقابلِ اشاعت قصیدہ پڑھتے رہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ہم بھول ہی گئے کہ ہمیں اس مقابلے میں حصہ لینا تھا ۔ اچانک ایک روز ٹی وی والوں نے ہمیں مقابلے میں حصہ لینے کا خط بھیجا اور اس میں کہا کہ اب کوئز میں کتاب سے باہر معلوماتِ عامہ کے سوال بھی ہوں گے۔ ہم نے ایک کتاب خریدی اور اس کو گھول کر پی لیا ۔ جب ہم مقابلے میں شریک ہوئے تو معلوم ہوا کہ پہلے سوال کے درست جواب دینے کی صورت میں ہی آپ آگے کھیل سکتے ہیں ورنہ پہلے رائونڈ میں ہی واپسی کا پروانہ تھما دیا جائے گا۔پی ٹی وی والوں نے دکھائی بائیں تھی مگر ماری ہمیں دائیں تھی کہ سوال ہم معلوماتِ عامہ تیار کر کے آئے تھے انھوں نھے اپنی دی ہوئی کتاب میں سے سوال پوچھ لیا۔ یوں ہم پہلے ہی سوال پر عازمِ گھر ہوئے مگر خود کو تسلی دی کہ پی ٹی وی پر تصویر تو آئے گی ناں کیا ہوا کہ پہلے ہی مقام پر باہر ہوئے۔
موجودہ دور میں فیس بک بھی میڈیا کا ایک اہم حصہ ہے۔ آج کل میڈیا صرف اخبارات و رسائل اور ٹیلی ویژن تک محدود نہیں۔ فیس بک اور واٹس ایپ بھی اب میڈیا ہی کے شعبے ہیں اور بعض معاملات بالخصوص رائے بنانے میں تو فیس بک سب سے آگے ہے۔ اب ہر اہم شخصیت فیس بک پر موجود ہے اور تمام لوگوں نے اپنے اپنے پیج بنائے ہوئے ہیں جن کی بدولت وہ اپنے مداحوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ان کے پیجز پر ان کی تحاریر ہوتی ہیں مگر تحریر روز روز لانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں(چاہے کسی اور سے بھی لکھوا کے لائیں) سو اس کا حل یہ ہوتاہے کہ صفحے کو قرآنی آیات، احادیث، اقوال زریں، لطیفوں سے بھرا جاتا ہے۔ جس کا پیج جتنا چست (ایکٹو )ہو اتنا ہی وہ مقبول تسلیم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اپنے صفحے کو ایکٹو رکھنے کے لئے نت نئی سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں تا کہ اپنے اراکین کی اپنے پیج پر دل چسپی کو قائم رکھا جا سکے۔
اس سلسلے میں مختلف مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔کبھی مضامین کا مقابلہ کبھی کالمز کا تو کبھی شاعری کا۔ ہم بھی بہت سے گروپس اور پیجز کے رکن ہیں۔ جب بھی ایسا کوئی مقابلہ ہوتا ہے تو ہمیں بھی دعوت دی جاتی ہے کہ آئیں آپ بھی حصہ لیں۔ ہم ان سے بوجوہ کنی کترا جاتے ہیں۔
شروع میں ہم نے کچھ مقابلوں میں حصہ لیا بھی۔ ہمارے خیال میں ہمارے مضامین اور ہماری شاعری ایسی ہوتی ہے کہ اول نمبر تو اسے ہی ملنا چاہیےاگر مقابلے کے منصف ہم ہوتے توایسا ہی کرتے۔ مگر مقابلے کے منتظمین نے اگر کبھی ہماری تخلیق مقابلے میں شامل کی تو ہمیں منصف نہ بنایا۔ چلو نہ بناتے مگر ہماری پسند کا ہی منصف رکھ دیتے مگر ایسا بھی نہ ہوا۔ یعنی کہ ہمیں جان بوجھ کر ہرایا گیا۔ہم نے اس پر احتجاج بھی کیا۔دھرنا بھی دیا مگر دھاندلی والے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ تنگ آ کر ہم ہی خاموش ہو گئے۔
ایک دو گروپ ایسے بھی تھے جنھوں نے ہماری بات مان لی اور ہماری پسند کے بندے ،منصف رکھ دیئے۔ ہمیں بھی امید نظر آئی اور ہم نے بھی اس گروپ کے مقابلوں میں حصہ لیا مگر نتیجہ آنے پے ہمارے دل کے ارمان آنسوئوں میں بہہ گئے۔ ہم مضمون لکھ کے بھی پیچھے رہ گئے کی عملی تصویر ہو گئے۔ ہمارے ساتھیوں نے ہماری ہی پیٹھ پر خنجر مارا۔
اس کے بعد ہم نے ان مقابلوں میں حصہ لینے سے توبہ کی۔ کبھی جو ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم نے عدیم الفرصتی کو انکار کا جواز بنایا اور کبھی کہا کہ ہماری حصہ نہ لینے کی وجہ نئے خون کی حوصلہ افزائی ہے(ایسے میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی کوئی بہت پرانے نہیں )۔ اس سے ہماری عزت بھی رہ جاتی ہے اور نئے لکھنے والوں میں بھی قدر و منزلت پاتے ہیں۔لوگ ہماری ایثار و قربانی اور نئے خون کی حوصلہ افزائی کی مثالیں دیتے ہیں۔ ہم بھی خوش ہو جاتے ہیں کہ اچھا ہے عزت رہ گئی۔ لکھتے تو ویسے ہی پٹ جاتا۔
اب بعض لوگ جو ہماری شرکت کے بہت متمنی ہوتے ہیں وہ ہمیں ان مقابلوں کا منصف بنا دیتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ اتنے برس تدریس میں گزارنے کے باوجود ہمارے لئے سب سے مشکل کام پرچہ بنانا اور پھر ان پرچوں پر نمبر دینا رہا ہے۔