ہم نے مارک کو معاف کر دیا «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ہم نے مارک کو معاف کر دیا

    فیس بک پر ہم کوئی سات آٹھ برس سے ہیں۔ اس پرہماری دو آئی ڈیز پہلے سے ہیں۔ ایک میں ہمارے گھر والے اور دوست ہیں ۔ دوسری ہم نے اپنے طالب علموں اور رفقائے کار کے لئے بنائی تھی اور یہ دونوں ہمارے اصلی نام سے اب تک موجود ہیں۔ پھر جب ہم نے لکھنے کو سنجیدہ لینا شروع کیا تو اس مقصدکے لئے بھی فیس بک کو استعمال کرنے کا پروگرام بنایا۔ ان دونوں آئی ڈیز کو ہم استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ لکھنا ہم نے گھر والوں کو بتائے بغیر شروع کیا تھا۔ یوں بھی گھر کی مرغی دال برابر والی بات کا اندیشہ تھا۔دوسری آئی ڈی کے استعمال میں قباحت یہ تھی کہ طلبا کو اگر اس بات کی بھنک پڑ گئی کہ ان کے سر مزاح لکھتے ہیں تو وہ اس کو استعمال کریں گے۔ طلبا سے زیادہ نفسیات دان ہم نے نہیں دیکھا۔ اپنے استاد کی خوبیاں خامیاں جتنی جلدی وہ جان لیتے ہیں اور اس کو استعمال کرتے ہیں اتنا تو شاید ہی نفسیات کا کوئی ماہر استعمال کرتا ہو۔ کسی استاد کو گانے سے لگاؤ ہو تو استادکے کلاس میں داخل ہوتے ہی کوئی بچہ سوال کرے گا کہ سر کچھ استاد بڑے غلام علی اور روشن آرا بیگم کے متعلق بتائیے۔ کھیلوں کا شوقین پائیں گے تو سبق شروع کرنے سے پہلے ہی کوئی بچہ سوال داغ دے گاکہ سر یہ پچھلے میچ میں ٹیم کا چناؤٹھیک تھا؟ اگر پاکستان ٹیم جیتی ہوئی تو سر کو دیکھ کر دورسے ہی فرمایا جائے گا کہ سرمبارک ہو۔ کل پاکستان کیا کھیلاہے۔ آپ کے خیال میں میچ کس کھلاڑی نے بدلا۔
    سوچ بچار کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ آئی ڈی اپنے قلمی نام سے بنانی ہے اور اسے صرف اپنی تحاریر کے لئے استعمال کرنا ہے۔سو ابن ریاض کے نام سے آئی ڈی بنا لی۔ کوئی سال بھر یہ چلی اوراس کے بعد یہ رپورٹ ہو گئی۔ ہم سے اصلی نام معلوم کیا گیا اور وہ آئی ڈی ابن ریاض سے عمران اعوان ہو گئی۔ کچھ عرصہ ہم نے استعمال کی مگر ہمیں مزہ نہ آیا تو ہم نے ایک اور آئی ڈی اپنے قلمی نام سے بنا لی۔ اس میں اپنے ادیب اور علم نواز دوستوں کو اکٹھا کیا اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔ مگر ابھی ختم شد نہیں ہوا۔ اس ماہ کے وسط میں پھر یونہی ہوا۔ ہم سے ابن ریاض ہونے کا ثبوت مانگا کیا۔ ہم نے اپنی کتاب کا کور انھیں بھیجا۔ اپنا شناختی کارڈ دیا کہ یہ والد کا نام دیکھو مگر یہ انگریز لکیر کے فقیر ہیں چاند تک تو پہنچ جاتے ہیں مگر سامنے کی چیز دکھائی نہیں دیتی۔عمران اعوان کو وہ ابن ریاض ماننے پر تیار نہیں ۔ کاش کے فیس بک کا صدردفتر پاکستان میں ہوتا تو ہم ایسا ہی دھرنا دیتے جیسے پچھلے چند سال میں دیئے جا رہے ہیں۔ ہمارا تو ارادہ تھا کہ مارک زکربرگ کا استعفٰی آنے تک وہیں دھرنا دیں گے مگر عجیب خوش بخت ہے کہ ہم سے بچ گیا۔
    اس بلاکنگ کو ہم نے بھی غنیمت جانا اور کچھ دن حقیقی دنیامیں گزارے۔ اب ایک نئی آئی ڈی بنا لی اسی نام سے۔ زیادہ لوگ ویسے بھی آئی ڈی میں نہیں تھے ۔ یہی کوئی تین سوا تین سو۔ ٹرپل سینچری تو ہم کر ہی چکے تھی۔ ارادہ تھا کہ لارا کا ریکارڈ توڑ ڈالیں گے مگر ایک یارکر پڑا اور ہم پویلین لوٹ گئے۔ کوئی بات نہیں ہم نے اگلی اننگز شروع کر دی ہے بقول شاعر
    رپورٹِ آئی ڈیئے فیس بک سے نہ گھبرا ایک عقاب
    یہ تو چلتی ہے نئی آئی ڈی بنانےکے لئے
    اگر سیاست کی زبان میں بات کریں تو نعرہ یوں ہو سکتا ہے کہ تم کتنے ابن ریاض بلاک کرو گے، ہر آئی ڈی سے ابن ریاض نکلےگا۔ خیر ہمیں سیاست کا شوق نہیں۔ یہ تو دوستوں کی مہربانی ہے کہ ذرا سر کھجانے کا ٹائم دے دیتے ہیں۔

    ہم اکثر دیکھتے تھے کہ لوگ فیس بک پر اپنی دوستی کی سالگرائیں منا رہے ہیں۔کوئی اپنے دوست کو تین سال مکمل ہونے پر مبارک باد دے رہا ہے تو کوئی پانچویں سالگرہ کا بڑے فخر سے بتا رہا ہے۔ ابھی آج بھی طاہر فاروق کی کوئی چار ایسی پوسٹس نظر پڑیں۔ ہماری تو دوستی کی نہ ہی سالگرہ منائی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی کالم ایک سال کی مدت پوری کرتا ہے۔ حالانکہ فیس بک پر کالم کوئی چارسال سے لکھ رہے ہیں اور ابن نیاز، آر ایس مصطفےٰ، شہاز اکبر الفت اور دیگر احباب سالوں سے ہمارے ساتھ ہیں مگر فیس بک نے کبھی ان سے ہماری دوستی کا تذکرہ نہیں کیا۔
    پہلے ہم سمجھتے تھے کہ فیس بک متعصب ہے اور ہماری شہرت سے مارک رکز برگ جلتا ہے مگر گذشتہ چند دنوں میں فیس بک سے دور ہونے کے باعث ہم نے خوب غور و خوض کیا ۔ اس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کا قصور نہیں بلکہ سال ہونے سے پہلے ہی ہماری آئی ڈی بدل جاتی ہے اور پھر سب یک سے شروع ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک ہوٹل نے اعلان کیا کہ جو بندہ بیک وقت سو روٹیاں کھائے گا اسے 10 لاکھ انعام ملے گا۔ لوگ آتے کوشش کرتے اور ہار جاتے۔ تاہم اعلان سے ہوٹل کی تشہیر بھی ہوئی اور اس کی بکری میں بھی اضافہ ہوا۔ ایک دن ایک آدمی آیااور اس نے کہا کہ میں سو روٹیاں کھانے کو تیار ہوں۔ہوٹل والوں نے اسے بٹھایا اور روٹیاں اور سالن اس کے سامنے رکھا۔ وہ اللہ کا بندہ کھانے لگا۔لوگ اپنا کھانا چھوڑکر اسے دیکھنے لگے۔ تیس چاپیس روٹیوں تک تو سب سکون میں تھے مگر جب بات ساٹھ سے اوپر چلی گئی اور اس کے کھانے کے انہماک اور رفتار میں فرق نہ آیا تو ہوٹل انتظامیہ کو دس لاکھ ہاتھ سے جاتے دکھائی دیئے، انھوں نے پھر گنتی میں گڑبڑ شروع کر دی۔ کچھ دیر تو وہ بندہ دیکھتا رہا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے تاہم جب معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہوا تو اس نے کہاکہ خواتین و حضرات آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں دھاندلی ہو رہی ہے۔ لہذاً میری گزارش ہے کہ مقابلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔جونہی سال قریب آتا ہے آئی ڈی کی تجدید ہو جاتی ہے۔ اس حقیقت سے آگاہی کے بعد ہم نے مارک کو معاف کر دیا۔
    یورپ والوں کو دیکھیں اور سوچیں کہ ان کی ترقی کا راز کیا ہے۔ یہی کہ وہ مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں دیکھیں۔ کامیاب بھی ہو تو اگلے سال نیا ماڈل لے آتے۔ موبائل ہو یا لیپ ٹاپ ابھی پرانا ماڈل بکا بھی نہیں ہوتا کہ نیا آ جاتا۔ ہم ایشیائی ہیں اورپڑھی تو انجنئر ہے مگر ایسے ہی ہمیں آتی ہے جیسے رحمان ملک کو سورہ اخلاص۔ تاہم اچھی بات کی تقلید میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اب ہم سے ٹی وی فریج اور الیکٹرانک کا سامان تو نہیں بنتا تو کیا ہوا؟ ہم آئی ڈی تو بنا سکتے ہیں ناں سو یہی کر رہے ہیں۔ کیا معلوم ایک دن کوئی ایجاد بھی ہم سے ہو جائے تو پھر یہ تجدید کی عادت وہاں بھی کام آئے گی۔2018 کی پہلی آئی ڈی سب کو مبارک ہو۔اگر اسی سال دوسری بھی آ جائے تو کچھ مضائقہ نہیں ۔ کبھی کبھی حکومت بجٹ کے ساتھ ساتھ منی بجٹ بھی پیش کر دیتی ہےنئی آئی ڈی میں ہم سے زیادہ کمال ہمارے ان گوشہ نشین دوستوں کا ہے جو دائیں ہاتھ سے ہمیں ایسے رپورٹ کرتے ہیں کہ بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہیں ہوتا۔ ہمارے بھلے کے لئے ہی سب کرتے ہیں اور خود دار اتنے کہ ظاہر بھی نہیں ہوتے۔ اس کارخیر پر ہم ان کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں۔ اللہ ہمارے ان گمنام دوستوں کو خوش رکھے سدا۔
    اب ہم آہستہ آہستہ دوبارہ اپنےدوستوں کو جمع کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ مدد کریں تو ہم آپ کے شکر گزارہوں گے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔