تحریر : ابنِ ریاض
کل کراچی سٹاک ایکسچینج پردن دیہاڑے کچھ دہشت گردوں نے حملہ کیا اور ہمارے بہادر نوجوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر انھیں ناکام کیا۔ اس حملے میں دو سکیورٹی گارڈ اور ایک پولیس اہلکار نے بھی جان جان افرین کے سپرد کی۔ کانسٹیبل خلیل و کانسٹیبل رفیق کو بالخصوص ہیرو کا پروٹوکول مل رہا ہے اور ظاہر ہے کہ سٹاک ایکسچینج پر حملہ پاکستان کی معیشت پر حملہ تھا جسے ان شہداء و غازیوں نےاللہ کی مدد اور اپنی جرآت بہادی و اپنی تربیت سے ناکام بنایا۔
ان شہداء اور غازیوں کی تصاویر پاکستانیوں نے ڈی پیز بنا لی ہیں اور انھیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ تاہم ابھی تک اخبار سے ہمیں جو معلوم ہوا کہ آئی جی سندھ نے اس ٹیم کو بیس لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔اس کے علاوہ ایک رفاعی ادارے جے ڈی پی نے بھی ان کے لئے انعام کا اعلان کیا ہےتاہم ہمارے خیال میں تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں ہے۔ چھ آٹھ لوگوں میں بیس لاکھ اور ان میں سے بھی ایک شہید۔ جبکہ آئی جی صاحب نےپولیس کے جوانوں میں ہی یہ رقم تقسیم کرنی ہے۔ جو دو سکیورٹی گارڈ ہیں وہ بھی یقیناً انسان تھے اور ان کے بھی لواحقین و متعلقین ہوں گے۔ان کے گھر کے چولہے بھی ان کی نوکری سے چلتے ہوں گے۔ابھی تک ایسی کوئی خبر نہیں آئی کہ ان لوگوں کی کسی ادارے نے کوئی امداد کی ہو۔اگر ایسا ہوا ہے تو اس ادارے کو ہمارا سلام
ہم لوگ حکومت کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے کہ بہرحال حالات مشکل ہیں اور تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل کام ہے۔ پولیس کے ادارے نے بھی کم سہی مگر بہرحال اعلان توکیا۔ جب پولیس اور سکیورٹی ادارے اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا نہیں کرتے تو ہم انھیں گالیاں دینے اور لعن طعن کرنے میں کوئی دیر نہیں لگاتے مگر جب کوئی ادارہ کام کرے تو اسےاس کا فرض قرار دیا جاتاہے کہ یہ تو اس کی ذمہ داری تھی۔ ملک میں صرف ایک ادارہ یعنی پاک فوج ایسا ہے جو اپنے جوانوں کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے۔انھیں کوئی تکلیف ہو یا کوئی جوان شہید ہو تو اس کے خاندان کی کفالت کرتا ہے یہ ادارہ۔ یہی وجہ ہے کہ فوج کے جوان بے فکر ہو کر لڑتے ہیں۔
حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہر ادارے کی مدد کرے سو یہ کام اگر عوام خود کر لے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کراچی سٹاک ایکسچینج میں روزانہ کھربوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ کئی کھرب پتی روزانہ یہاں مارکیٹ کے رجحان کو دیکھتے ہوئے مختلف شئیرز کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ اخبار سے معلوم ہوا کہ کل جب حملہ ہوا تو اس وقت سٹاک ایکسینج میں پانچ سو افراد موجود تھے۔خدانخواستہ اگر حملہ کامیاب ہو جاتا یا دہشت گردوں کو جزوی کامیابی ہی نصیب ہو جاتی تو کتنے ہی لوگ جو کاروبار کرنے آئے تھے وہ زخمی ہو جاتے یا پھر آج ہم میں نہ ہوتے۔ اگر یہ لوگ تھوڑی سی رقم دے دیں گے تو یہ کوئی ان پر احسان نہیں ہو گا بلکہ ان کی اپنی صحت و زندگی کا ہی صدقہ نکلے گا۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب انھی لوگوں کو اپنا کاروبار برقرار رکھنے کے لئے کروڑوں کا بھتہ دینا پڑتا تھا اور وہ مجبوراًدیتے بھی تھے اور نہ دینے والوں کی تو پوری کی پوری فیکٹریاں مع زندہ انسانوں کے جلا دی جاتی تھیں۔سو جب ہم اپنے لئے کام کرنے والوں کا اور ان کے اہل و عیال کا خیال رکھیں گے تو یہ ادارے بھی تندہی اور دلجمعی سے اپنے فرائض سر انجام دیں گے کیونکہ انھیں معلوم ہو گا کہ اگر ہمیں کچھ ہو بھی گیا تو ہماری قوم ہمارے پیچھے کھڑی ہے اور ہمارے پسماندگان کو یہ لوگ سنبھال لیں گے۔
انعام کا مقصد حوصلہ افزائی ہے ورنہ ایک بھی انسانی جان کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جا سکتی۔ انسانی جان تو اتنی ان مول ہے اللہ تعالٰی خود فرماتا ہے کہ جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ علاوہ ازیں وہ لوگ جو بچ گئے جب وہ اور ان کے گھر والے صدقہ دیں تو پیشہ ور گداگروں اور غیر مستحقین کی بجائے ان لوگوں کو کیوں نہ نوازا جائے جو ہمارے لئے اور ہمارے لوگوں کے لئے خود کو وقف کر دیتے ہیں۔ جب ایسے لوگوں کو انعام دیا جائے گا تو پولیس اور دیگر اداروں میں ایسے لوگوں کا حوصلہ بلند ہو گا اور کالی بھیڑوں کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ مقابلے کی فضا میں شاید ان کی کارکردگی بھی بہتر ہو جائے۔
سکیورٹی گارڈز کا جہاں تک تعلق ہے ہمیں معلوم ہے کہ اسلام آباد میں کمپنیاں سکیورٹی گارڈ کی مدمیں پینتیس سے چالیس ہزارروپے لیتی ہیں اور اس میں سے آدھی رقم اپنے پاس رکھتی ہیں اور آدھی چوکیدار کو ملتی ہے۔کراچی میں بھی انیس بیس کا ہی فرق ہو گا۔ کیا یہ اتنی رقم ہے کہ اس کے لئے کوئی اپنی جان قربان کرے ؟ یقیناً نہیں ہے۔ اس سے تو بمشکل چند دن گزرتے ہیں۔
اب جان ہتھیلی پر رکھنے والوں کے لئے ہم امداد کا لفظ تو استعمال نہیں کر سکتے سو انعام ہی بہترین متبادل ہے۔ احسان کا بدلا احسان ہے اور یہ قول اللہ کا ہے۔ اگر انھیں انعام دیں گے تو بہت اچھی بات۔ اگر ایسا نہیں کریں گے اوریہی سوچیں گے کہ ان کو اس کام کا معاوضہ دیا جاتا ہےپس یہ ان کا فرض ہے تو یہ لوگ بھی پہلے ہی گنتی کے لوگ ہیں یہ بھی پھر صرف نظر کریں گے۔ اہم بات یہ کہ اس سے کئی گنا زیادہ بعد ازاں بھتہ و دیگر مسائل ومشکلات میں خرچ ہو جائے گا۔
چند برس قبل ملالہ یوسفزئی پاکستان آئی تھی تو ہماری فیس بک ایسی پوسٹس سے بھری ہوئی تھی کہ ملالہ ہماری ہیروئن نہیں بلکہ ہمارے ہیرو آرمی پبلک سکول کی پرنسپل، نصراللہ شجاع،اعتزاز احسن اور سمیعہ نامی لڑکی ہے۔ ہمارا اپنے ہیروز کے معاملے میں ریکارڈ بہت خراب ہے۔قائد اعظم سے لیکر عبدالقدیر خان تک ہم نے اپنے محسنین کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ درج بالا شخصیات اگر ہماری ہیرو ہیں تو کیا ہمجانتے ہیں کہ ان کے خاندان کس حال میں ہیں ؟ ہمیں تو ان کا یوم وفات یاد ہے نہ علاقہ تاہم کبھی کبھی دلیل میں وزن پیدا کرنے کے لئے ان کا نام ضرور استعمال کر لیتے ہیں ہم لوگ یا پھر اپنے ہیروز کو مرنے کے بعد زبانی یاد کر لیتے ہیں۔یہاں حکومت سے بھی گزارش ہے کہ حقیقی ہیروز کو نہ بھولے۔ کیا ہمارے ہیرو صرف کرکٹ کے کھلاڑی ہیں جو کوئی ٹورنامنٹ جیتیں تو ان کو ہم کروڑوں بطور انعام دے دیں۔ دیگر کھیلوں والے اگر کوئی جیت لیں تو انھیں تو کچھ نہیں ملتا یا محض اعلانات پر ہی انھیں خوش کر دیا جاتا ہے۔ہمیں اس متعلق اپنا رویہ بدلنا چاہیے اور عمل سے ثابت کرنا چاہیے کہ جسے ہم نے ہیرو کہا وہ واقعتًہ ہمارا ہیرو ہے ورنہ پھر بس ہیرو بس انگریزی سے مستعار ایک لفظ ہی رک جائے گا جس میں روح نہیں ہو گی۔
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جولائی 1st, 2020
زمرہ: سنجیدہ تحریریں, سنجیدہ کالمز تبصرے: کوئی نہیں