انسان  یا پارس پتھر «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • انسان  یا پارس پتھر

    تحریر: ابنِ ریاض

    ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک سے کھانے اور کمانے  والے کروڑوں ہیں مگر اس ملک کے لئے کچھ کرنے والے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو بھی نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں۔ایسے لوگ بہت کم ہیں کہ جنھوں نے ملک کے لئے کوئی کام کیا ہو اور اس کے باوجود وہ متنازع نہ ہوئے ہیں۔ ان نابغہ روزگار لوگوں میں سے ایک ہستی  ائیر مارشل نور خان کی بھی ہے۔

    ٹمن جو ضلع چکوال کا علاقہ ہے ہمارے آبائی گاؤں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اور اس کی حالت بھی ہمارے گاؤں سے کچھ مخلتف نہیں ۔ ہمارے گاؤں کی حالت اب بھی ایسی ہے کہ بچے قریبی شہر میں پڑھنے جاتے ہیں۔ تاہم پڑھنے کا رجحان ماضی قریب میں ہی پروان چڑھا ہے۔ ایسے  علاقےمیں ایک لڑکا 1923 میں پیدا ہوا اور اس نے اپنی قابلیت سے دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی خداداد صلاحیت اور محنت سے یہ ثابت کیا کہ عزم اور لگن ہو تو وسائل کی کمی آڑے نہیں آتی۔ جہلم اور چکوال کا علاقہ فوجی جوانوں کے لئے مشہور ہے سو وہ بھی ابتدائی تعلیم کے بعد ائیر فورس مین شامل ہو گئے جہاں انھوں نے  دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر بطور پائلٹ خدمات سر انجام دیں ۔ پاکستان بنا تو انھوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور  نوزائیدہ  رائل پاکستان ائیر فورس کے لاہور ایئربیس کے کمانڈر  تعینات ہوگئے کچھ ہی عرصے بعد وہ فضائی آپریشنز کے انچارج بن گئے۔ ‘چو ان لائی’ پاکستان تسریف لائے تو انھیں سولہ تیاروں کی فارمیشن نے سلامی دی اور کرتب دکھائے۔یہ نور خان کی حکمت عملی تھی۔اس سے قبل سات یا نو جہاز ہی ایسے کاموں کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ فلائٹ میگزین کے سر ورق پر اس کارنامے کی تصویر بھی چھپی جو کہ ایک نوجوان فضائیہ کے لئے بڑا اعزاز تھا۔اپنی خداداد صلاحیتوں سے وہ ترقی کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے سربراہ بنے تو دو ماہ بعد ہی 1965 کی جنگ پھڑ گئی۔ اس جنگ میں پاکستان ائیر فورس نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو جس طرح پسپا کیا اس کی فضائی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور اس مین نور خان کا کردار کلیدی تھا جنھوں نے خود بھی کئی فضائی مشنز میں خدمات سرانجام دیں۔

    1967 میں وہ رضاکارانہ طور پر عرب اسرائیل جنگ میں گئے اور کئی مشنوں میں حصہ لیا۔ اسرائیلی ہوابازوں کے ساتھ ان کی ڈاگ فائٹ بھی ہوئی اور اس میں انھوں نے اپنی مہارت کے  ان مٹ نقوش ثبت کیے۔اس وقت کے اسرائیلی جنگی پائلٹ میجر جنرل’ ایزر وائزمین’ جو بعد ازاں اسرائیل کے وزیر دفاع اور صدر بھی رہے، اپنی سوانح عمری میں نور خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں’  وہ ایک زبردست اور اور مضبوط حریف تھے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ وہ مصری نہیں بلکہ پاکستانی تھے۔’

    1959 میں جب کہ وہ پاکستان ائیرفورس میں خدمات سرانجام دے رہے تھے، پی آئی اےکے پے در پے سانحات اور مالی مشکلات کے باعث  انھیں اس ادارے کی سربراہی بھی سونپ دی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن دنیا کی بہترین ائیر لائنز مین شمار ہونے لگی۔  نور خان  نے پی آئی اے  کو مالی مشکلات سے نکالا اور منافع بخش ادارہ بنایا۔ انھوں نے جیٹ لیز پر لے کر پی ائی اے کے بیڑے میں شامل کیے۔ مشرقی پاکستان میں بارشوں کے افراط کے مسئلے کے حل کے لئے اپنے بیڑے میں ہیلی کاپٹرز شامل کر دیئے۔ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی ائیر لائن نے ہیلی کاپٹر استعمال کیے ہوں۔ انھوں نے چین کو دنیا کے لئے کھولا۔ وہ چین گئے اور وہاں کے وزیر اعظم کے ساتھ ملکر پی آئی اے کا روٹ طے کیا۔ دنیا میں پہلی پرواز جو چین گئی وہ پی آئی اے تھی۔ پی آئی اے نیویارک، جنوبی افریقہ اور جاپان تک جا پہنچی اور حقیقی معنوں میں بین الاقوامی ائیر لائن قرار پائی۔ پاکستان سروسز لمیٹڈ کی قیادت سنبھالی تو پی آئی اے اور انٹر کانٹی نینٹل ہوٹلز کو بامِ عروج پر جا پہنچایا۔ پی آئی اے کے ہوٹلز کی تعداد کئی درجن تک جا پہنچائی۔ انجنئرنگ کے شعبے کو اتنا فعال کیا کہ دوسرے ممالک کی ائیر لائنز اپنے جہازوں کی مرمت کے لئے پاکستان آنے لگیں۔ انتظامی امور میں حیرت انگیز مہارت کے ساتھ  وہبہادری اور شجاعت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ 20 جنوری 1978 کو کراچی میں ایک گن بردار نے پی آئی اے کا ایک طیارہ جس میں بائیس افراد تھے،اغواکر لیااور اسے بھارت لے جانے کا مطالبہ کیا۔ بطور چئیرمین نور خان اس سے مذ اکرات کے لئے تنہا اور نہتے جہاز میں گئے۔ موقع ملتے ہی انھوں نے اغوا کارر پر حملہ کر دیا۔انھیں ایک گولی لگی مگر  انھوں نے اغواکار کو قابو کر لیا اور اپنا جہاز اور مسافر بچا لئے۔

    وہ مغربی پاکستان کے گورنر جنرل اور وفاقی وزیر بھی رہے۔ وہ کھیلوں سے بھی وابستہ رہے اور وہ جب اور جس کھیل سے وابستہ رہے وہی اس کھیل کا پاکستان کا سنہری دور ثابت ہوا۔ کرکٹ بورڈکے سربراہ بنے تو  عالمی کپ کو انگلینڈ سے باہر لے آئے۔ ہاکی کی سربراہی ملی تو ان کے دور میں ہاکی کا ہر اعزاز پاکستان کے پاس تھا۔ یہاں تک کہ ہاکی کا عالمی کپ اور چیمپئنز ٹرافی ان ہی کا  تصور تھا۔ ہاکی پاکستان سے جا چکی ہے مگر بین الاقوامی ہاکی  فیڈریشن کے ایوانوں میں اب بھی نور خان کا نام گونجتا ہے۔

    اسکواش کی سرپرستی کی تو اس وقت سکواش زوال پذیر تھی۔ ہاشم کان کا دور ماضی کا قصہ بن چکا تھا ااور آسٹریلیا  کے جیف ہنٹ کاجادو سر چڑھ کے بولتا تھا۔ انھوں نےجہانگیر خان  کو ڈھونڈا اور اس کی کی تربیت کا انتطام کیا۔ اور پھر جہانگیر خان نے جو کچھ کیا وہ ایک الگ تحریر کا متقاضی ہے۔ کرکٹ اور ہاکی کے کئی کھلاڑیوں کے کیریئر کا آغاز انھی کے دور میں ہوا۔ انھیں ٹیلنٹ اور قدرتی صلاحیت پرکھنے میں ملکہ حاصل تھا۔ بلاشبہ وہ پارس انسان تھا جس شعبےمیں ہاتھ ڈالتا وہی شعبہ سونے کی مانند چمکنے لگتا۔

    ۔پاکستانیوں کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں نور خان ملا۔ اللہ نے سست، کاہل اورہٹ دھرم لوگوں سے کام لینے کی صلاحیت انھیں بخشی تھی۔سو نور خان نے وہ کام کیے جو دنیا کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔  وہ ایک زبردست پیشہ ور تھے۔ ان کے لئے کام عبادت تھا اور اس میں خیانت کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اپنے ماتحتوں سے بھی وہ اعلٰی کردار اور روایات کی توقع رکھتےتھے مگر کوئی ایسا کام نہیں کرواتے تھے کہ جو خود نہ کر سکتے ہوں۔ جیسے جہاز اغوا کیس میں انھیں نے اپنے ماتحتوں سے کام لینے کی بجائے خود کو خطرے میں ڈالا۔

    انھوں نے فضائیہ،پی آئی اے، ہاکی،کرکٹ اور سکواش سب کو اپنے آنے والوں کے لئے بہترین حالت میں چھوڑا مگر اب ان کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ پی آئی اے کی داستان تک نہیں ہے داستانوں میں۔ ہر سال اربوں کا خسارا مقدر ہو چکا ہے۔ہاکی اور سکواش بھی قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ کرکٹ ابھی باقی ہے مگر  اسکی حالت بھی کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں۔ ہر شعبہ اور ہر ادارہ نور خان کو یاد کرتا ہے۔ ہمیں ایک اور نور خان کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ نور خان جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ دور تو ہے ہی کہ قحط الرجال کا۔

    چکلالہ کا ائیر بیس نور خان کی خدمات کے اعتراف میں اب نور خان ایئر بیس ہے اور وہاں کا ہوائی اڈا بھی نور خان ائیر پورٹ ہے۔  فضائیہ ان کی خدمات سے اچھی طرح واقف ہے اور اس نے چکلالہ ائیربیس کا نام تبدیل کر کے اپنے سپوت کا حق ادا کر دیا تاہم باقی شعبوں کو بھی اس معاملے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یہ عظیم انسان 15 دسمبر 2011 کو  خالقِ  حقیقی سے جا ملا  مگر ائیر مارشل نور خان کا کام  انھوں تا ابد  زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔

    ٹیگز: , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔