تحریر: ابنِ ریاض
اکبر کے نو رتن بہت مشہور ہیں اور ان کے علم و فضل کا اب تک چرچا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ بڑے سیانے تھے اور اکبر کو بڑے قیمتی مشورے دیتے تھے جن کی بنا پر اکبر نصف صدی حکومت کر گیا۔ معلوم نہیں کیا مشورے دیتے تھے کیونکہ ہم نے جو کتابوں میں پڑھاہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ کسوٹیاں حل کرتے رہتے تھے یا جگت بازی میں وقت صرف کر کے بادشاہ کی طبیعت شاد رکھتے تھے۔ بادشاہ بھی اسی پرخوش تھا اور ان کے مشوروں(اگر کبھی انھوں نے کوئی مشورہ دیا) کو سنجیدہ نہیں لیتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ تقریباًنصف صدی بادشاہت کر گیا۔
چونکہ مورخوں نے اکبر کے نو رتنوں کی بہت تعریفیں کی ہیں اور پھر وہ اتنی لمبی حکومت بھی کر گیا تو اب جدید دور کے حکمران بھی اکبر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے لئے کچھ رتن رکھتےہیں تاہم جدید دور میں انھیں رتن کی بجائے مُشیر کہا جاتا ہے۔
اس دور میں مشیر حکومت کی ضرورت ہیں۔ اگر وہ نہ ہوں تو حکومت اتنی غلطیاں کیسے کرے۔ اکبر ان پڑھ تھا تو اس نے کم از کم پڑھے لکھے رتن لکھے۔ اب کے حکمران چونکہ خود کم از کم بی اے پاس ہوتے ہیں تو وہ مشیروں کے پڑھے لکھے ہونے کی شرط کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ یوں بھی جمہوریت کے اصولوں کے تحت ان پڑھ لوگوں کا حق ہے کہ فیصلہ سازی میں ان کی بھی نمائندگی ہو۔
مشیر بننے کی پہلی اہلیت اس شخص کا قابل ہونا ہے۔ چونکہ قابلیت و لیاقت کی ہمارے ہاں کوئی اہمیت نہیں تو وہ شخص کبھی ووٹ لے کر یعنی الیکشن جیت کر نہیں آسکتا۔ ( یہ اصول بھی اکبر دور سے ہی لیا گیا ہے مگر لینے والے بھول گئے ہیں کہ اکبر کے دور میں جمہوریت نہیں تھی)۔ ظاہر ہے چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے اور ایسے شخص کی قابلیت کی روشنی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ گھر والوں کی آنکھیں ہی چندھیا جاتی ہیں۔ چنانچہ ان کے گھر والے تک انھیں ووٹ کبھی نہ دیں۔
مشیر کی ایک اور اہم خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے کارنامے اور کرشماتی شخصیت کا سربراہِ حکومت کے علاوہ کسی کو علم نہیں ہوتا کیونکہ وہ کوئی انٹرویو دے کر یا سی ایس ایس پاس کر کے یا ووٹ لے کر تو آیا نہیں ہوتا۔ سو سربراہ کا اختیار ہے مشیر کے شعبے کا تعین کرنا۔ بس سربراہ کو وہ خوبیاں دکھنی چاہییں۔ اس شعبے میں مہارت کی ڈگری ہونی لازم نہیں۔ کوئی خوش خوراک ہے تو اسے مشیرِ خوراک و زراعت لگایا جا سکتا ہے۔ کسی نے گھر میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا ہے تو وہ مشیرِ کھیل اور کسی کو گیس کی بہت شکایت ہو تو وہ مشیرِ قدرتی وسائل و گیس بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جس کی اپنی صحت ٹھیک نہ ہو اسے مشیرِ صحت بنایا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے زیادہ صحت کے مسائل کا کسی کو علم ہونے سے رہا۔ مشیر چونکہ صوابدیدی عہدہ ہے تو اکثر سربراہ کے واقف کار و دوست ہی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔
حکومتی مشیروں کو وزیر مملکت کا پروٹوکول اور سہولتیں ملتی ہیں اور اس کےعلاوہ تنخواہ ومراعات بھی۔ محکموں میں مشیروں کو بس تنخواہ ملتی ہے اور ان کا گھر چلتا رہتا ہے۔ اس سے ملک میں بے روزگاری میں بھی کمی آتی ہے۔اک سابق حکمران نے کہا تھا کہ پاکستان میں بیرون ملک سے لوگ نوکری کرنے آئیں گے اور واقعی ان کے دور میں مشیروں کی اکثریت دوہری شہریت کی حامل تھی۔ ہم جب واہ میں نوکری کرتے تھے تو ہمارے ادارے میں کوئی ساٹھ ستر کے قریب ریٹائر فوجی سربراہِ ادارہ کے مشیر کی حیثیت سے تنخواہ لے رہے تھے۔ اب نہ وہ سربراہ رہے نہ ادارے کے وہ حالات کہ ملکی حالات کی وجہ سے ایچ ای سی کی گرانٹ بھی کم ہو چکی ہے۔ سو مشیر واقعی بہت کم ہیں مگر جب وقت تھا تو ہر شعبے میں ملکی دولت کو لوٹا گیا اور ہر سطح پر لوٹا گیا۔
تاہم مشیر کے عہدہ پر فائز ہونے کا ااک اہم فائدہ یہ ہے کہ مشیر کوئی کام کرے نا کرے، اچھا مشورہ دے یا غلط اس سے باز پرس نہیں ہوتی۔ کس غلطی، کسی نقصان یا کسی قانونی خلاف ورزی پر کسی مشیر کی گرفت ہوئی ہو یا اسے سزا یا جرمامہ ہوا ہو، ہم نے کبھی نہیں سنا۔ ملازمت ختم ہونے پر مشیر تو اپنا پیسہ و مال اٹھا کر گھر کو چلتے ہیں۔ بازپرس سربراہِ حکومت و ادارہ سے ہی ہوتی ہے ۔
آج کل کا کوئی جوان کوئی ایسا کام نہ کر سکے جو کچھ عشرے قبل عام تھا تو کہا جاتا ہے کہ اب وہ خوراکیں نہیں رہیں۔ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اب وہ مشیر بھی نہیں رہے کیونکہ وہ مشیر جیسے بھی تھے اک ان پڑھ بادشاہ ان کے ساتھ آدھی صدی حکومت کر گیا جب کہ آج کل کے مشیروں کے ساتھ پڑھے لکھے حکمران آدھا عشرہ بھی حکومت نہیں کر پاتے۔ تین چار سال میں ہی لڑھک جاتے ہیں اور یہ مشیر کسی اور کی نوکری کی تلاش میں یہ جا وہ جا۔ کیا معلوم مشیر ہی مخالفوں کے ساتھ ملے ہوئے ہوں ؟
ابنِ انشاء قدرت اللہ شہاب کو اک خط لکھتے ہوئے ممتاز مفتی کے متعلق کہتے ہیں ” شہاب صاحب مفتی سے ہر معاملے میں مشورہ لیا کیجیے۔ وہ جو مشورہ دے اس کے بالکل الٹ کریں۔ ان شاء اللہ آپ صراطِ مستقیم سے نہیں بھٹکیں گے”۔ کیا ابنِ انشاء کا یہ قول ہمارے سربراہ اپنے لئے استعمال نہیں کر سکتے؟ ممکن ہے اکبر بھی اسی اصولِ زریں پر عمل پیرا ہو اور یہی اس کی کامیابی کا راز ہو۔