جدید سرقے «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • جدید سرقے

     تحریر: ابنِ ریاض

    ہمارے  ہاں چوری ہو جانا یا ڈاکہ پڑ جانا بالکل معمول کی بات ہے۔اتنی معمولی کہ اکثر یہ خبر بھی نہیں بن پاتی۔ وجہ جگہ کی کمی کہ قتل، اغوا برائے تاوان، بھتہ سیاسی، کھیل اور شو بز کی خبروں سے جگہ بچ پائے تو یہ معمولی خبریں بھی باعثِ کرم ٹھہریں۔ویسے بھی ہمارے ممدوح ابن انشاء کے بقول ‘خبر وہ ہوتی ہے جو معمول سے ہٹ کر ہو۔ مثلاً اگر کسی آدمی کو کتا کاٹ لے تو یہ کوئی خبر نہیں ہے کیونکہ کتے کا کام ہی کاٹنا ہے۔ تاہم اگر کوئی انسان کسی کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر بنتی ہے’۔چند ماہ قبل ہمارے گھر میں بھی چوری ہوئی تھی مگر چونکہ یہ  واقعہ خبر کی تعریف پر پورا نہیں اترتا تھا سو کسی اخبار نے اس بات کا تذکرہ نہیں کیا۔

    وقت کے ساتھ ساتھ اب جرائم میں بھی جدت آ گئی ہے۔اب فرسودہ طریقے متروک ہوتے جا رہے ہیں۔

    ہمارے اندازے عمومًا ٹھیک ثابت ہوتے ہیں۔ اس میں ہمارا کمال نہیں بلکہ یہ قدرت کا ہم پر کرم ہے۔ چند روز قبل ہمیں ایک معروف ادیبہ نے فیس بک آئی ڈی پر کچھ بھیجا۔ہم سے سوچا کہ ایک معروف ادیب  بھیج رہی ہے ضرور کوئی خاصے کی چیز ہو گی۔ ہمارا اندازہ سولہ آنے درست ثابت ہوا اور وہ بہت ہی خاص چیز نکلی۔ کیونکہ وہ کھولنے کی دیر تھی ہاری آئی ڈی ہماری نہ رہی اور بھیجنے والے پر فدا ہو گئی۔یہ ہمیں معلوم نہ تھا کیونکہ ہم نے  اسے کھولا تو کچھ خاص نہ نکلا اور   پھر ہم سو گئے ۔بعد میں معلوم ہوا جب لاہور، فیصل آباد، پشاور، کراجی الغرض پورے ملک سے  سے کالوں کا تانتا بندھ گیا اور  بہی خواہوں نے کالز کر کر کے ہمیں اس سانحے سے آگاہ کیا اور مشورہ دیا کہ آئی ڈی بند کر دو اپنی۔ہمیں تو اس کی اتنی فکر نہیں تھی کہ ہمارے آئی ڈی میں بقول شاعر

    چند تصویرِ بتاں چند حسینوں کے خطوط

    بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ سامان نکلا

     کچھ  ایسا خاص نہیں تھا کہ ہمارے لئے باعث پریشانی ہوتا تا ہم ہم یہ آئی ڈی بلاک کر کے نئی بنانے کے حق میں بھی نہیں تھے کہ نئی آئی ڈی پر دوبارہ اتنا اکٹھ کرنا کوئی ایسا آسان کام بھی نہیں۔

    ہم نے تو اسے بہت آسان لیا۔ تاہم یہ ہماری غلط فہمی تھی اور نیٹ یا فیس بک سے کم علمی بھی۔ ہماری آئی ڈی سے ایسا مواد شائع کیا گیاجس سے ہم قطعًا آگاہ نہ تھے۔ہماری آئی ڈی سے کچھ خواتین کی تصاویر بھی شائع کی گئیں۔ان کے حقیقی یا غیر حقیقی ہونے کا ہمیں علم نہیں۔ اگر وہ حقیقی ہیں تو ہم مذکورہ خاتون / خواتین سے  معذرت خواہ ہیں اور نادم بھی ہیں کہ ہماری آئی ڈی اس گرے ہوئے کام کے لئے استعمال  ہوئی۔ ہم اپنی آئی ڈی پر ماسوائے اپنے کالموں کے کچھ پوسٹ نہیں کرتے۔ اکثر تو وہ بھی رہ جاتے ہیں ہم سے۔ عفت مآب ایسے ہیں کہ اپنی تصویر بھی کبھی نہیں لگائی بس دوستوں نے کالمسٹ کونسل آف پاکستان سے ملنے والی سند کی تصویرلگا دی جس سے لوگوں کو ہمارےخال و خد کا اندازہ ہوا۔ تین چار مرتبہ  ابنِ ریاض نامی آئی ڈیز رپورٹ ہونے اور بعد ازاں ان سے ہاتھ دھونے کے بعد اب ایک آدھ تصویر ہم نے لگا دی ہے۔ فیس بک پر ہم ہی امیر نہیں ہیں کہ جس کی آئی ڈی چوری ہوئی بلکہ ہم نے اکثردوستوں بالخصوص لکھنے والے ساتھیوں کے پیغامات پڑھے ہیں کہ اس کی آئی ڈی ہیک ہو گئی ہے، اگر کسی کو اس آئی ڈی سے کوئی غیر اخلاقی پیغام ملے یا کوئی اور ایسی پوسٹ ملے تو حاملِ آئی ڈی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ سب کسی حاسد چور کی کارستانی ہے جو اس کے حلقہء احباب میں اسے بدنام کرنا چاہتا ہے۔پاکستان میں فیس بک اکائونٹ کی چوری کراچی میں موبائل چوری سے بھی زیادہ ہی ہے۔

    ایک مرتبہ ہماری رقم چرانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا مگر وہ ناکام اس لئے ہو گیا کہ ہمارے پاس رقم تھی ہی نہیں۔یہ ان دنوں  کا قصہ ہے جب ہم ماسٹرز کے طالب علم تھے اور یاہو میسنجر استعمال کرتے تھے ایک مرتبہ ایک خاتون نما آئی ڈی سے ہیلو کی گئی۔ہم نے جواب دیا اور تعارف پوچھا تو معلوم ہوا کہ سوڈانی خاتون تھی۔ اور لندن میں علاج کروا رہی تھی۔۔دنیا میں اس کا کوئی نہیں ۔ میاں وفات پا چکاتھا۔  اولاد تھی کوئی نہیں۔خود اس کو کینسر تھااور وہ بھی اختتامی مرحلے میں۔اس کے پاس نو ملین پائونڈ پڑے تھے اور وہ پریشان تھی کہ اتنی رقم کس کے حوالے کرے۔ یہ تفصیل سن کر ہم نےپوچھا تو اس سلسلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ کہنے لگی کہ ہمیں تم پر اعتبار ہے۔ تم یہ رقم لے لو اور اس کا ایک میرے نام سے ٹرسٹ بنانا غریبوں کے لئے۔ اس میں سے ایک ملین پائونڈ خود رکھ لینا۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ ہم پر  تو اپنے گھر والے اعتبار نہیں کرتے۔  سبزی کے پیسے دے کر بھی پوچھتے ہیں   کہ کہاں کہاں خرچ کئے اور بقایا واپس لے لیتے ہیں۔ کہاں ایک افریقی شہزادی اپنے کروڑوں اربوں روپے ہمیں دینا چاہتی ہے اور ہیلو کرنے سے ہی اسے ہم پر اعتبار ہو گیا۔واقعی مردم شناس عورت ہے۔ ہم نے کہا بالکل ٹرسٹ بنائیں گے اور تمھارے ہی نام کا بنائیں گے۔ بس رقم ہمارے حوالے کرو۔

    اگلے روز ایک اجنبی کی ای میل آئی  جس میں اس نے کہا کہ وہ اس خاتون کا وکیل ہے اور اس نےآپ کو  اپنی رقم کا وارث قرار دیا ہے اور وارث ملتے ہی خوشی سے اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔ نیز کہا کہ اسے وصیت کر گئی ہے کہ رقم  ہم تک پہنچائے۔ ہم نے کہا کہ اللہ مرحومہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آپ رقم ہم تک پہنچا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں تو کہنے لگا کہ میں حلف نامہ بناتا ہوں۔ اگلے دن حلف نامے پر ہمارے دستخط لئے۔ہم نےکر دئیے۔ پھر کہنے لگا کہ اب بینک سے رقم کی منتقلی کے لئے پانچ ہزار پائونڈ بھیج دیں۔ ہم نے کہا کہ  جناب جو رقم ہمیں ملنی ہے اس میں سے دس ہزار پائونڈ کم کرلیں۔ پانچ ہزار سے رقم منتقل کریں اور پانچ ہزار ہماری طرف سے آپ کو تحفہ۔آخر ہم سیٹھ عمران سمجھنے لگے تھے خود کو۔ کہنے لگا کہ ایسے نہیں ہو سکتا۔ رقم پہلے جمع کروانا پڑتی ہے۔ہم نے کہا کہ وہ آپ ہی جمع کروا دیں ۔ آپ کی موکل کو ہم پر اعتبار تھا تو آپ کو بھی کرنا چاہیے۔ پھر کہنے لگا اچھا ایسا کریں چار ہزار پائونڈ ہی بھیج دیں ۔ ایک ہزار پائونڈ کا میں انتظام کرتا ہوں۔ ہم نے کہا کہ جناب ہمارے پاس تو کل چار ہزار روپے ہیں۔ اگر اس سے کچھ کام چلتا ہے تو ہم بھیج دیتے ہیں۔ اس کے بعد  اس وکیل نے ہم سے بات نہیں کی۔ ہماری رقم ہڑپ کر گیا ہو گا۔ کوئی نہیں اوپر جا کر ہم اس سے حساب لیں گے۔

    یہ انفرادی سرقے ہیں اب تو اجتماعی سرقے بھی حیرت کی بات نہیں۔ اجتماعی چوری کی ایک جدید شکل انتخابات میں نظرآتی ہے ۔ اس کے متعلق ہم زیادہ نہیں جانتے ۔ اتنا معلوم ہے کہ  وہ  ووٹ یا مینڈیٹ کی چوری کہلاتی ہےعموماً ہارنے والی پارٹی کا مینڈیٹ جیتنے والی پارٹی چوری کیا کرتی ہے۔

     

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔