کھیلوں کا  سکندر «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • کھیلوں کا  سکندر

    تحریر: ابنِ ریاض

    پاکستان اور بھارت کے محض رسم و رواج اور زبان ہی نہیں ملتی ان کے کھیل بھی آپس میں ملتے ہیں۔کرکٹ  اورہاکی میں بھارت نے نام کمایا تو پاکستان بھی ان کھیلوں میں اس سے پیچھے نہیں رہا۔ فٹبال، ٹینس اور اتھلیٹکس میں پاکستان کا کوئی مقام نہیں تو بھارت بھی ان کھیلوں میں قابل ِذکر حیثیت  نہیں رکھتا۔ تاہم ایک کھیل ایسا ہے کہ جس میں پاکستان نے اتنا نام کمایاکہ بھارت اگر اب بھی اس کھیل کا عالمی چیمپئن بن جائے تو پاکستان کے مقام تک پہنچنے کے لئے اسے کم از کم پچاس برس درکار ہیں اور وہ کھیل ہے اسکوائش۔

    قیامِ پاکستان کے بعد جس کھیل نے  سب سے پہلےدنیا میں پاکستان کو روشناس کروایا وہ اسکوائش ہی  تھا۔ قیام کے محض چار برس کے اندر ہی اس کھیل میں پاکستان عالمی چیمپئن بن چکا تھا۔یاد رہے کہ اس زمانے میں برٹش اوپن ہی عالمی کپ کے مترادف تھی۔اور یہ کام ‘نواکلی ‘ پشاور کا ایک خاندان کر رہا تھا۔ 1951 سے 1962 تک برٹش اوپن پر پاکستانی پٹھانوں کا راج رہا۔ ہاشم خان نے سات مرتبہ یہ ٹورمنامنٹ جیتا۔ ایک ٹورنامنٹ روشن خان اور چار مرتبہ یہ ٹورنامنٹ اعظم خان نے جیتا جو ہاشم کے چھوٹے بھائی تھے۔

    ساٹھ کے عشرے میں ان کھلاڑیوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کی اس کھیل میں برتری ختم ہو گئی۔ستر کے عشرے میں اسی خاندان کی اگلی پود نے دوبارہ اس کھیل میں قوم جمانے شروع  کیے۔ قمر زمان نے 1975 میں برٹش اوپن جیتی اور کئی دیگر ٹورنامنٹس کے فائنل کھیلے۔ محب اللہ خان بھی  کچھ ٹورنامنٹس کے فائنل میں پہنچے۔ تاہم ستر کی دہائی کے آخر میں ایک ایسا ستارہ طلوع ہوا کہ جو نہ صرف اسکوائش بلکہ تمام کھیلوں کے آسمان پرچاند بن کے جگمگایا۔

    یہ کھلاڑی جہانگیر خان تھے۔ روشن خان کے چھوٹے بیٹے۔بچپن میں کمزور اور بیمار ایسے کہ  ڈاکٹر نے انھیں اسکوئش کھیلنے سے منع کر دیا تھا۔ اپنے بڑے بھائی طورسم خان  سے کہا کہ والد سے کورٹ جانے کی اجازت لے دیں ۔  انھوں نے اجازت لے کر دی۔ کورٹ جانا شروع کیا تو کھلاڑی جب گیمز کے دوران آرام کرتے جہانگیر کھیلتے تھے۔  ان کی ابتدائی کوچنگ ان کے والد نے کی اور بعد ازاں ان کے بڑے بھائی نے۔ 1979 میں وہ پندرہ برس کی عمر میں عالمی اسکوائش امیچور چیمپئن شپ جیت چکے تھے اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے کم عمر ترین کھلاڑی تھے۔ اسی برس ان کے بڑے بھائی اور کوچ  طورسم خان آسٹریلیا میں دوران میچ انتقال کر گئے۔ بھائی کی موت سے جہانگیر خان لرز گئے اور یہ کھیل  ہمیشہ کے لئے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

    اس موقع پر ان کے چچازاد بھائی رحمت خان رحمت بن کے آئے اور انھیں سمجھایا کہ جہانگیر خان کا اسکوائش میں نام پیدا کرنا ان کے بھائی کا خواب تھا اور اب یہ انھیں پورا کرنا ہے۔ رحمت خان  اس وقت عالمی نمبر بارہ تھے مگر اپنی فٹنس کی بنا پر ان کے مزید آگے جانے کے امکانات معدوم تھے۔ انھوں نے اسکوائش کھیلنے کو خیرباد کہا اور جہانگیر خان کی تربیت شروع کر دی۔

    جہانگیر نے بھی بھائی کی  وصیت کو دل سے لگاتے ہوئے دیوانہ وار محنت کی۔وہ دس کلومیٹر روزانہ دوڑ لگاتے۔ کچھ وقت تیراکی کرتے۔ ورزش اور روزانہ کھیل کی مشق اس کے علاوہ تھی۔ 1981 میں وہ پروفیشنل اسکوائش میں آئے اور برٹش اوپن کا فائنل کھیلا مگر  فائنل میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی برس ورلڈ اوپن میں انھوں نے اپنے بھائی کی برسی والے دن ‘جیف ہنٹ ‘کو شکست دی جو اس وقت عالمی نمبر ایک تھے۔  وہ ورلڈ اوپن جیتنے والے بھی کم عمر ترین کھلاڑی ہیں ۔برٹش اوپن مین شکست کے بعد ان کی کامیابیوں کا دور شروع ہوا۔ اپریل 1981 سے نومبر 1986 تک دنیا کے ہر ٹورنامنٹ میں وہ ناقابلِ شکست رہے۔ اس دوران انھوں نے لگاتار پانچ سو پچپن مقابلے جیتے جو کسی بھی کھیل میں  سب سے زیادہ میچوں میں ناقابلِ شکست  رہنے کا عالمی ریکارڈ ہے۔ اس عرصے میں انھوں نے ہر بر اعظم میں ہر ٹورنامنٹ جیتا۔ ان کا نام ہی کامیابی کی ضمانت تھا۔   کئی ٹورنامنٹس تو انھوں نے بغیر کوئی گیم ہارے ہی جیت لئے۔  پوائنٹس لینا ہی کھلاڑی اپنے لئے غنیمت سمجھتے تھے اور گیم جیتنا تو میچ جیتنے کے برابر سمجھا جاتا۔ جب ساڑھے پانچ برس بعد ‘راس نارمن’ نے انھیں ورلڈ اوپن کے فائنل میں شکست دی تو یہ خبر دنیا  بھر کے اخبارات میں شہ سرخی بنی کہ کسی نے جہانگیر خان کو ہرا لیا ہے ۔

    اس کے بعد بھی جہانگیر نے ایک مرتبہ ورلڈ اوپن اورپانچ بار برٹش اوپن جیتی۔اسی کی دہائی کے آخری سالوں میں جان شیر وارد ہوئے۔انھوں نے جہانگیر خان کومشکل وقت دینا شروع کیا مگر یہ وقت بھی پاکستان کے لئے بہترین تھا کہ اکثر ٹورنامنٹس کے فائنلز میں دونوں پاکستانی کھلاڑی ہوتے۔  دونوں کھلاڑیوں کا آپس میں ریکارڈپچاس پچاس فیصدی رہا۔ 1993 میں پاکستان اوپن میں شرکت کے بعد وہ اس کھیل سے ریٹائر ہو گئے۔

    کرکٹ اور ہاکی کے کھلاڑیوں نے بھی پاکستان کا نام روشن کیا  مگر کرکٹ محض نو دس ممالک میں کھیلی جاتی ہے جبکہ ہاکی  کے ممالک بھی زیادہ نہیں اور ٹورنامنٹس بھی زیادہ انھی ممالک میں ہوتے ہیں کہ جو ان کھیلوں میں ابتدائی نمبروں  پر ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں کرکٹ اور ہاکی اجتماعی کھیل ہیں اس کے برعکس اسکوائش انفرادی کھیل ہےتو اس میں ممالک کی قید نہیں۔دنیا کے پانچوں بر اعظموں میں اسکوائش کے ٹورنامنٹس ہوتے ہیں اور سبھی میں جہانگیر خان نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ جہانگیر خان کی عظمت کا اعتراف بھی ہر سطح پر کیا گیا۔ انھیں حسنِ کاکردگی کا تمغہ ملا اور گزشتہ صدی کے پاکستان کے بہترین کھلاڑی قرار چائے تو عالمی اسکوائش فیڈریشن نے انھیں چھ سال تک اپنا صدر تسلیم کیا جو کہ صدارت کی زیادہ سے زیادہ مدت ہے۔

    معین اختر مرحوم واقعہ بیان کیا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ وہ آسٹریلیا گئے تو وہاں ہوائی اڈے پر امیگریشن افسر نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ پاکستان سے۔اس پر امیگریشن افسر نے متاثر ہو کر کہا کہ اچھا آپ جہانگیر خان کے ملک کے باشندے ہیں۔ اگر کوئی ہم سے دنیا کے عظیم ترین کھلاڑی کا پوچھے تو  ہم بلا جھجک جہانگیر خان کا نام لیں گے۔ پاکستان کا جتنا نام جہانگیر خان نے روشن کیا ہے وہ کسی دوسرے کھلاڑی نے نہیں کیا۔  مصباح الحق نے انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں کبھی خواہش کروں تو جہانگیر خان بننے کی خواہش کروں گا کہ ان کے کارنامے اس دنیا کے کارنامے لگتے ہی نہیں ہیں۔

    جہانگیر کا مطلب فاتح  عالم ہوتا ہے اور ان سے زیادہ کوئی اس نام کا مستحق ہم نے نہیں دیکھا۔ سکندر اعظم کا زمانہ ہم نے نہیں دیکھا مگر کھیلوں کا  سکندر اگر کسی کو دیکھنا ہو تو جہانگیر خان کو دیکھے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    3 تبصرے برائے “کھیلوں کا  سکندر”


    1. گل
      بتاریخ مئی 25th, 2018
      بوقت 11:42 شام

      بہت ایموشنل کر دیا اس تحریر نے۔۔۔بہت خوبصورت اور بہت عمدہ خراج تحسین جہانگیر ترین کے لئے پیش کیا گیا ہے۔۔۔
      ماشاءاللہ زور قلم اور ذیادہ ہو۔۔۔آمین۔۔۔


    2. ابنِ ریاض
      بتاریخ مئی 26th, 2018
      بوقت 11:32 صبح

      جزاک اللہ اور آمین

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔