تحریر: ابنِ ریاض
پچھلے کچھ دنوں میں پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی کئی گنا پڑھ چکی ہے۔ دراصل بھارت کے انتخابات قریب ہیں اور متعصب ہندو جماعتیں پاکستان مخلفت کی بنیاد پر ووٹ لیتی ہیں۔ پلوامہ واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان پر الزام لگا دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور بھارت حملے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اپنی کاروائی کے جواز کے لئے انھوں نے امریکہ کے اسامہ بن لادن پر ایبٹ آباد کے حملے کی مثال دی۔اس بیان پر ہمیں ایک واقعہ یاد آیا جو شاید بھارتیوں نے نہیں سنا ہوا۔ ایک آدمی نے کسی کی کسی لڑکی کو چھیڑا۔ اس نے اپنے بھائی کو بتا دیا۔ بھائی نے اس آدمی کو پکڑا اور خوب ٹھکائی کی۔ مضروب نے مار کھاتے ہوئے کہا کہ بھائی مجھے معاف کر دو۔ میں تمھیں ایک بات بتاتا ہوں۔ کہا بتائو۔ اس نے کہا کہ چند روز پہلے تمھاری بہن کو فیقے نے بھی چھیڑا تھا۔ اس نے دو اور لگاتے ہوئے کہا ‘فیقا تے بدمعاش اے پر تینوں اے جرات کیویں ہوئی( فیقا تو بدمعاش ہے مگر تمھیں یہ جرات کیسے ہوئی)’؟ بھارت والے شاید بھول گئے تھے کہ وہ امریکہ نہیں ہے۔ امریکہ ہمیں ایڈ اور ایڈز دیتا ہے جبکہ بھارت تو ٹماٹر تک بند کردیتا ہے۔
مودی کی چونکہ بیوی نہیں تو انھیں جنگ کا کوئی تجربہ نہیں ہے سو انھوں نے اپنے جوانوں کو آگ میں جھونگ دیا جبکہ ہمارے لیڈر کا تو تین کا تجربہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے شادی شدہ بھی اب گھریلو جھڑیوں سے تنگ آ کر حقیقی جھڑپوں کے لئے پر تول رہے تھے ، اساتذہ روز روز کی نگرانی(مانیٹرنگ) سے تنگ ۔ پیر و جوانں سبھی لڑنے مرنے کو تیار۔ ایسے میں مودی نے پاکستان کو نہ صرف ایک ہدف دیا بلکہ بکھری ہوئی قوم کو متحد بھی کر دیا ۔ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں اس معاملے میں ایک ہو گئیں۔ حتٰی کہ نواز شریف کے دل میں بھی جہاز چلا کر بھارت حملہ کرنے کی خواہشیں جنم لینے لگیں۔ شاید وہ بھول گئے کہ جہاز اور حکومت چلانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اب تو قوم بھارت فتح کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ پاکستانی تو بعد از فتح بھارت میں کاروبار کرنے کا سوچ رہے ہیں بلکہ اطلاعات کے مطابق ملک ریاض نے تو بھارت میں بحریہ ٹائوں شروع کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر لی ہے۔
دو دن قبل رات کی تاریکی میں پاکستانی حدود میں بھارتی طیارے داخل ہوئے اور گھنٹی بجا کر بھاگ گئے۔ ۔ چونکہ گھنٹی بجانے کا ثبوت دینا تھا تو اپنا پے لوڈ جیش محمد کے دہشت گرد درختوں پر گرا کر چلے گئے۔ درخت چونکہ جاندار ہوتے ہیں تو بھارت جا کر انھوں نے شور مچا دیا کہ تین سو مارے ہیں۔ صفروں کی چونکہ حیثیت نہیں ہوتی تو تین کو تین سو کر دیا گیا۔ پاکستان نے تنبیہہ کی کہ اس بار تو گھنٹی بجائی ہے اور چائے بھی نہیں پی تو اگلی مرتبہ موقع ملا تو مہمان نوازی کریں گے آپ کی۔فضائی حدود کی خلاف ورزی کی صورت میں واپسی کا فیصلہ پاک فضائیہ کرے گی۔ بھارت نے اسے گیڈر بھبھکی سمجھا اور اگلے روز پھر پاکستانی حدود میں آ گھسے۔ اس مرتبہ پاکستانی تیار تھے اور انھوں نے گھنٹی بجانے والوں کو مار گرایا۔ ایک پائلٹ مارا گیا اور ایک جہازسے کودنے میں کامیاب ہو گیا۔ بھارت نے کہا تکنیکی خرابی کے باعث جہاز گرے ہیں۔ واقعی تکنیکی خرابی تھی کہ مخالف جہاز کے ہٹ کرنے سے جہاز تباہ ہو گیا۔ ۔بچ جانے والے ہواباز کو ہجوم نے گھیر لیا اور زد و کوب کرنے لگا۔ عجیب خوش قسمت بندہ ہے یہ۔ پہلے تو جہاز کے حادثے میں بچ گیا۔ زد و کوب سے اس کے چہرے پر زخم ہوئے۔ یہ زخم تو قریب قریب بھر چکے ہیں۔ اگر وہ فیصل آباد میں گرتے تو انھیں اتنی جگتیں سننا پڑتیں کہ روح کے زخم کبھی مندمل نہ ہوتے۔ فوج نے بروقت آ کر اسے بچایا ورنہ ہماری عوام تو سڑک پر ہی فیصلہ کر دیتی ہے۔ اگر فوج کی بجائے پولیس آتی تو جہاز سے نہ صرف شراب کی بوتلیں اور چرس کی تھیلیاں نکلتی بلکہ بغیر لائسنس جہاز چالنے کا کیس بھی بنتا۔ اس کے علاوہ اگر پولیس اسے میڈیا کے سامنے پیش کرتی تو قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کے تمام جرائم کا یہ اعتراف کر لیتا۔ فوج کے ہاتھ لگنے کے باعث ایک ہی دن میں چھٹی بھی مل گئی ہے۔ پولیس ویسے تو کسی کو پکڑتی نہیں ہے اور اگر کوئی قسمت کا مارا پولیس کے ہاتھ لگ جائے تو اکثر چھوٹتی اس کی لاش ہی ہے۔
ہماری فوج نے بھی اس کے ساتھ دشمنوں والا سلوک نہیں کیا۔ اس کو میڈیا کے سامنے لایا گیا جہاں معلوم ہوا کہ موصوف کا نام ‘ابھی نندن’ ہے۔ شکل تو مردوں والی ہی تھی مگر نام ہمیں تو زنانہ لگا ۔ ‘ابھی نندوئی ‘ہوتا تو مردانگی جھلکتی۔ چہرے پر مونچھیں ہی مونچھیں ہیں۔ جہاز گرنا اگرچہ بدقسمتی بھی ہو سکتا ہے مگر محسوس ایسے ہوا کہ جہاز سےزیادہ وقت موصوف مونچھوں کو دیتے رہے ہیں۔ میڈیا کے اکثر سوالوں کے جواب میں کہا کہ وہ جواب دینے کے پابند نہیں ہے۔ اگر قریب پولیس ہوتی تو ایسا جواب دینے کی جرات نہ کرتا ۔ ہواباز کو چائے پلائی گئی اور چائے پینے کے انداز سے محسوس ہوا کہ بھارت میں شاید فوجیوں کو چائے نہیں پلائی جاتی۔ ماتا جی کے دودھ کی لذت بھی تھی چائے میں ۔ایسی میزبانی تو محبوب کی ہی جاتی ہے۔ ان کے پرسکون ہو کے چائے پینے سے بھی لگ رہا تھا کہ موصوف بہنوئی کے گھر ہیں ۔ بقول شاعر
تم دل کی سرحد کراسو دشمن کی طرح
ہم تمھیں چائے پلائیں ‘ابھی نندن’ کی طرح
قسمت کا دھنی ہے ابھی نندن۔ فضائی سروس چونکہ بند ہے تو بھارتی ہواباز اب واہگہ بارڈر سے بھارت جا رہا ہے ۔عین ممکن ہے کہ ناشتہ بھی لاہورمیں کرے۔ کھانا تو کھا ہی لے گا۔یوں بھارتی فوجیوں کی لاہور میں کھانا کھانے کی دیرینہ حسرت بھی ابھی نندن کے طفیل پوری ہو جائے گی۔
ابھی نندن کی خوش قسمتی کہ وہ آج یعنی جمعہ کو بھارت بھی بھیجا جا رہا ہے۔تا دمِ تحریر نئے پاکستان میں تو جمعے کو اندر کرنے کا دن منایا جاتا ہے۔ہمارے وزیر اعظم نے ایک دن بعد ہی اس کی رہائی کا اعلان کر دیا ہے اگرچہ جلد یا بدیر پاکستان نے ہواباز کو رہا تو کرنا ہی تھا تاہم جلد رہائی پر کچھ لوگ ناراض بھی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ‘ابھی’ نہیں تو کبھی نہیں۔تاہم حکومت اور فوج کے پاس یقیناً ٹھوس جواز ہوں گے اس رہائی کے۔
بھارت بھیجنے کی وجہ یہ ہے کہ بھارت جیسا بھی ہے،پاکستان کا ہم زلف ہے ۔ رشتہ داروں سے قطع تعلق غیر اخلاقی و غیر اسلامی فعل ہے۔
ابھی نندن کو بھیجنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت کو باور کروا دیا جائے اس طرح تمھاری بیٹی کو بھی میکے بھیجا جا سکتا ہے سو ہوش سےکام لو۔ نئی حکومت ویسے بھی اخراجات کم کرنے اور فضول خرچی کے خلاف ہے۔پہلے ہی کلبھوشن پاکستانی کھانے کھا رہا ہے۔ اب ابھی نندن کو بھی کھلانے پڑیں گے سو حکومت نے بہترسمجھا کہ اسے بھارت کے حوالے کر دیا جائے۔ علاوہ ازیں امن کی فاختہ بھی اس مرتبہ ہم اڑا رہے ہیں۔ اب بھارت کہیں اس فاختہ کو ہی دہشت گرد نہ سمجھ لے۔امید ہے کہ بھارت بھی ہوش کے ناخن لے گا اور ابھی نندن کے بدلے ہمارے ٹماٹر چھوڑ دے گا۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مارچ 2nd, 2019
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: humor, Humour, Ibn e Riaz, india, pilot, plane, tea