فلمساز، ہدایتکار، کہانی نگار اور موسیقار خواجہ خورشید انور «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • فلمساز، ہدایتکار، کہانی نگار اور موسیقار خواجہ خورشید انور

    تحریر: شاہد لطیف

    خواجہ خورشید انور 21 مارچ 1912 کو محلہ بلو خیل، میانوالی میں پیدا ہوئے۔ شاعر مشرق علامہ اقبا ل ؒ کی اہلیہ ان کی خالہ تھیں۔ خواجہ صاحب کے والد خواجہ فیروز الدین لاہور کے کامیاب بیرسٹر تھے۔ بیرسٹر صاحب کو کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی سننے اور جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ وہ گراموفون ریکارڈوں کا زمانہ تھا۔ یہ ان کے ہاں ایک کثیر تعداد میں موجود تھے۔ گھر میں چھوٹی بڑی موسیقی کی محفلیں ہوتی رہتی تھیں۔ خواجہ خورشید انور کی استاد توکل حسین، رفیق غزنوی، استاد عاشق علی خان، استاد عبدالوحید خان، ا ستاد غلام علی خان، فیروز نظامی جیسی شخصیات سے ملاقات رہتی تھی۔

    میرے خیال سے ان ہی محفلوں کی وجہ سے خواجہ صاحب کو کلاسیکی موسیقی سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اور یہ جاننے کی جستجو بھی ہوئی کہ راگ راگنی تو ایک ہی ہوتے ہیں لیکن گھرانوں کی گائیکی الگ الگ کیوں ہے؟ موسیقی کی تعلیم انہوں نے باقاعدہ استاد توکل حسین سے 1934 میں حاصل کرنا شروع کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 1935 میں شعبہ فلسفہ میں ایم اے کیا۔ اول پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرے لیکن یہ میڈل لینے نہیں گئے۔

    اس کے پس منظر میں ایک دل چسپ کہانی ہے۔ جب کئی مرتبہ نام پکارنے پر بھی وہ میڈل لینے نہیں آئے تو انگریز منتظم نے بیساختہ کہا کہ جو طالب علم اپنا گولڈ میڈل لینا بھول گیا ہے وہ ہی حقیقی فلسفی ہے۔ جب کہ خواجہ صاحب گولڈ میڈل والی تقریب کے وقت ایک محفل موسیقی میں شریک تھے جہاں ملک بھر سے کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ موجود تھے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور میں فیض احمد فیضؔ خواجہ صاحب سے ایک سال سینیئر تھے۔ پھر 1936 میں خواجہ صاحب نے انڈین سول سروس کا مقابلے کاتحریری امتحان دیا جس میں انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ انگریزوں کے خلاف اپنے نظریات کی بنا پر انٹرویو میں ناکام قرار دے دیے گئے۔ یہ ناکامی ان کی مستقبل کی ایک بڑی کامیابی بن گئی جب وہ 1939 میں آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں پروگرام پروڈیوسر کی حیثیت سے منسلک ہو گئے۔ یہاں ان کی ملاقات ایک مستند فلمساز، عبد الرشید کاردار المعروف اے آر کاردار ( 1904۔ 1989 ) سے ہوئی۔ یوں 1941 میں کاردار صاحب کی پنجابی فلم ”کڑمائی“ کی موسیقی ترتیب دی۔ پھر 1943 میں فلم ”اشارہ“ کے موسیقار ہوئے۔ مذکورہ فلم میں گلوکارہ ثریا، گوہر سلطانہ اور وستالہ کے گائے ہوئے گیت گلی گلی مقبول ہوئے۔ یہ خواجہ صاحب کی پہلی زبردست کامیابی مانی جاتی ہے۔

    اس کے بعد فلم ”پرکھ“ ( 1944 ) ، فلم ”یتیم“ ( 1945 ) ، فلم ”آج اور کل“ ( 1947 ) ، فلم ”پگڈنڈی“ ( 1947 ) ، فلم ”پروانہ“ ( 1947 ) جس میں نامور گلوکار کندن لال سہگل المعروف کے ایل سہگل ( 1904۔ 1947 ) نے اپنی زندگی کا آخری فلمی گیت ریکارڈ کروایا اور اس پر اداکاری بھی کی۔ گویا سہگل صاحب کی گائیکی کا اختتام خواجہ صاحب کی دھن پر ہو ا۔ خواجہ صاحب کو فلم ”سنگھار“ ( 1949 ) پر بہترین موسیقار کا ’ کلیئر ایوارڈ‘ حاصل ہوا۔ واضح ہو کہ ’کلیئر ایوارڈ‘ موجودہ ’فلم فیئر ایوارڈ‘ کا ابتدائی نام تھا۔ پھر فلم ”نشانہ“ ( 1950 ) اور فلم ”نیلم پری“ ( 1952 ) ان کے لئے بہت مبارک ثابت ہوئیں۔ بھارت اور پاکستان میں بعد کے آنے والے موسیقار بھی خواجہ خورشید انور سے متاثر ہوئے۔ مشہور بھارتی موسیقار روشن لال ناگرتھ المعروف روشن ( 1917۔ 1967 ) ان کے شاگرد رہے۔ نامور موسیقار جوڑی شنکر سنگھ رام سنگھ اور جے کشن دیا بھا ئی پنچھل المعروف شنکر جے کشن کے شنکر صاحب بھی خواجہ صاحب کے شاگرد رہے۔ کئی موقعوں پر نامور موسیقار نوشاد علی نے بھی خواجہ خورشید انور کی دل کھول کر تعریف کی۔

    ” انتظار“ ( 1956 ) ان کی پاکستان میں پہلی فلم ہے۔ پھر ”مرزا صاحباں“ ( 1956 ) ، ”زہر عشق“ ( 1958 ) ، ” جھومر“ ( 1959 ) ، ”کوئل“ ( 1959 ) ، ”ایاز“ ( 1960 ) ، ”گھونگھٹ“ ( 1962 ) ، ”حویلی“ ( 1964 ) ، ”چنگاری“ ( 1964 ) ، ”سرحد“ ( 1966 ) ، ”ہمراز“ ( 1967 ) ، ”گڈو“ ( 1970 ) ، ”ہیر رانجھا“ ( 1970 ) ، ”سلام محبت“ ( 1971 ) ، ”پرائی آگ“ ( 1971 ) ، ”شیریں فرہاد“ ( 1975 ) ، ”حیدر علی“ ( 1979 ) اور آخری فلم ”مرزا جٹ“ ( 1982 ) مشہور فلمیں ہیں۔

    خواجہ خورشید انور نے فلم ”انتظار“ ( 1956 ) ، ”زہر عشق“ ( 1958 ) ، ”جھومر“ ( 1959 ) ، ”گھونگھٹ“ ( 1962 ) ، ”چنگاری“ ( 1964 ) اور ”ہمراز“ ( 1967 ) کی کہانیاں اور منظر نامہ بھی لکھا۔ ”جھومر ’‘ ،“ زہر عشق ”اور“ انتظار ”کے مکالمے سید امتیاز علی تاج نے لکھے۔ خواجہ صاحب نے 3 عدد فلموں کی ہدایات بھی دیں : فلم“ ہمراز ”، فلم“ چنگاری ”اور فلم“ گھونگھٹ ”۔

    موسیقار خواجہ خورشید انور ایک فلم ”جھومر“ کے فلمساز اور 5 فلموں کے شریک فلمساز تھے : ”ہمراز“ ، ” چنگاری“ ، ”گھونگھٹ“ ، ”زہر عشق“ اور فلم ”انتظار“ ۔
    موسیقار خواجہ خورشید انور کے کچھ مشہور گیت:

    فلم ”پروانہ“ ( 1947 ) ’پاپی پپیہا رے پی پی نہ بول بیری۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ گیت دینا ناتھ مدہوکؔ المعروف ڈی این مدہوکؔ، آواز ثریا، فلم ”انتظار“ ، ’جس دن سے پیا دل لے گئے، دکھ دے گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ گیت قتیل ؔ شفائی، آواز نورجہاں، فلم ”جھومر“ ، ’چلی رے چلی رے چلی رے بڑی آس لگا کے چلی رے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ گیت حضرت تنویرؔ نقوی، آواز ناہید نیازی، فلم ”کوئل“ ،

    ’ رم جھم رم جھم پڑے پھوار۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ گیت حضرت تنویرؔ نقوی، آوازیں نورجہاں، منیر حسین اور پھر ناہید نیازی اورنجمہ نیازی کی آوازوں میں، فلم ”ایاز“ ، ’جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی یہ جہاں تھا خواب و خیال ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، نعت حضرت تنویرؔ نقوی، آوازیں زبیدہ خانم، کوثر پروین اور ہم نوا۔

    انور مقصود سے ایک بات چیت میں موسیقار خواجہ خورشید انور کے ایک زمانے کے ساتھی فیض احمد فیضؔ نے بتایا کہ وہ خورشید انور سے متاثر تھے۔

    ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کوئی ساز بجانا نہیں جانتے تھے، ماچس کی ڈبیا انگلی سے بجا کر دھن بناتے تھے۔ اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھاؤں۔ میں نے موسیقار کریم شہاب الدین کے ساتھ بہت کام کیا۔ وہ ہارمونیم پر دھن سنایا کرتے تھے۔ دھن وہ بنا کر لاتے تھے۔ گیت نگار کے ساتھ بھی ہارمونیم لے کر بیٹھا کرتے تھے۔ لیکن انہی کریم بھائی کو صہبا ؔ اختر کے ہاں میں نے ماچس کی ڈبیا پر 4 عدد گیتوں کی دھنیں انگلیوں سے بجاتے ہوئے دیکھا۔ مزے کی بات کہ اسی برق رفتاری سے صہباؔ صاحب نے گیتوں کو لکھا بھی۔ اگر کسی نے کریم بھائی کو کبھی ساز بجاتے نہ دیکھا ہو تو وہ بھی یہی سوچے گا کہ یہ وہ موسیقار ہیں جو ساز کے بجائے ماچس کی ڈبیا پر انگلیاں مار کر دھن بنا لیتے ہیں!

    اس الجھن کی سلجھن علی سفیان آفاقیؔ سے زیادہ بہتر کون بتا سکتا تھا! انہوں نے کہا: ”ہم نے بھی یہی سنا تھا۔ در اصل دوسرے موسیقار فلمسازوں، ہدایتکاروں اور گلوکاروں کو ہارمونیم پر دھن سناتے تھے۔ لیکن ہم نے خواجہ صاحب کو کبھی ہارمونیم یا کوئی اور ساز بجاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اسی لئے ہم نے بھی اس افواہ پر یقین کر لیا۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ وہ نوجوانی ہی میں ساز بجاتے اور گاتے تھے۔ اصل میں وہ میلوڈی، انٹرول میوزک، انتروں میں باریں وغیرہ پہلے ہی بنا کر لاتے تھے۔

    سنانے یا بجانے کا کام ان کا معاون کرتا تھا۔ خواجہ صاحب صرف مطلوبہ تاثر حاصل کرنے کے لئے زبانی ہدایات دیتے“ ۔ ماچس کی ڈبیا بجا کر دھن بنانے پر آفاقی ؔصاحب نے کہا: ”ہم نے بھی انہیں ماچس کی ڈبیا کو میز پر مارتے ہو ئے خود دیکھا تھا۔ جب ہی تو اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ خواجہ صاحب کوئی ساز نہیں بجا سکتے۔ بعد میں اپنی حماقت کا احساس ہوا کہ جو شخص موسیقی سے نا بلد ہو، کوئی بھی ساز نہ بجا سکے نہ گا سکے وہ بھلا میوزشنوں اور گلوکاروں کو صحیح دھن کیسے سمجھا سکتا ہے“ ۔ آفاقی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ خواجہ صاحب جب تک گلوکار سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہو جاتے مسلسل ہدایات دیتے۔ سازوں پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔ یہ جملہ آفاقیؔ صاحب اپنے مخصوص انداز میں کہتے :

    ” چالیس پچاس سازوں کے درمیان اگر کوئی میوزیشن غلطی کرتا تو انہیں فوراً پتا چل جاتا۔ وہ بے چین ہو کر کھڑے ہو جاتے اور اس سازندے کے پاس جا کر اصلاح کرتے“ ۔

    پاکستانی فلموں کے سنہرے دور، اور پاکستان ٹیلی وژن کے ’زرخیز‘ دور کے بانسری نواز استاد سلامت حسین نے مجھے خواجہ صاحب سے متعلق لاہور کا ایک بہت دلچسپ واقعہ سنایا:

    ” ایک روز وجیہہ قد کاٹھ اور گورے چٹے شخص نے میرا نام لے کر کہا:“ سلامت! کیا تو نے خلیل احمد کے پیسے دینے ہیں جو اسی کا ہی کام کرتا ہے؟ اور ساتھ ہی اپنا تعارف کروایا۔ یہ مشہور موسیقار خواجہ خورشید انور تھے۔ پھر اس دن کے بعد وہ مجھ سے ہی فلمی گیتوں میں بانسری بجوایا کرتے تھے۔ میں نے ان کے لئے جو پہلا گیت ریکارڈ کروایا وہ 1966 میں بننے والی فلم۔ ”سرحد“ میں نورجہاں کی آواز میں حضرت تنویرؔ نقوی کا لکھا ہوا یہ گیت تھا۔ ’چاند تو جب بھی مسکراتا ہے، دل میرا ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے‘ ۔ فلم

    ” ہیر رانجھا“ کے گیتوں میں بھی میں نے بانسری بجائی۔ میرے بجائے ہوئے اس گیت نے ملک سے نکل کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی : ’ونجلی والڑیا وے توں تاں موہ لئی او مٹیار، کدے نہ منی سی جنے ہار، تینوں کر بیٹھی اوں پیار‘ ۔ ”

    میرے مطابق اس فلم کی ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ عام طور پر موسیقار خواجہ خورشید انور پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب نہیں دیتے تھے لیکن اس فلم کو چیلنج سمجھ کر گیتوں کی موسیقی ترتیب دی بلکہ ان کا حق ادا کر دیا! ۔ ویسے بھی فلم کے ہدایتکار سے ان کی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ فلم ”انتظار“ اور ”کوئل“ کے ہدایت کار مسعود پرویز نے ”ہیر رانجھا“ پر بہت محنت کی تھی۔ فلم کے مکالمے، اسکرین پلے اور تمام گیت احمدؔ راہی نے لکھے۔ مذکورہ فلم کے گیت مشہور زمانہ نگار ایوارڈ یافتہ ساؤنڈ ریکارڈسٹ سی۔ منڈوڈی، Mandodi C او ر واجد علی شاہ نے ریکارڈ کیے۔

    ستار نواز، ارینجر، فلم اور ٹیلی وژن موسیقار جاوید اللہ دتہ نے بھی مجھ کوخواجہ صاحب کے بارے میں مزے دار بات بتلائی:

    ” موسیقار خواجہ خورشید انور سے کون میوز یشن واقف نہ ہوگا۔ ایک روز ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ خواجہ صاحب کا پیغام ہے کہ جاوید کو فلاں روز براہ راست میرے گانے کی ریکارڈنگ پر بلوالو، اگر وہ اس تاریخ کو مصروف ہوئے تو پھر جو ستار نواز میسرہو، اس کے لئے ریہرسل ضروری ہو گی۔ میں خواجہ صاحب والی ریکارڈنگ کے دن پہلے ہی کسی موسیقار کو ہاں کر چکا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے میں خواجہ خورشید انور صاحب کی ریکارڈنگ کر لیتا مگر یہ نہ ہو سکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خواجہ صاحب کا مجھے اس طرح سے بلوانا ہی میرے لئے ایک بہت اعزاز کی بات ہے“ ۔

    پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے موسیقار زیڈ ایچ فہیم سے میں نے موسیقی کی دنیا میں آنے کا پس منظر پوچھا تو انہوں نے جو بتایا اس کے تانے بانے بھی خواجہ صاحب سے جا ملتے ہیں :

    ” ہمارے ملک کے ایک عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور میرے تایا کے گہرے دوست تھے۔ برج اکٹھے کھیلتے اوراکثر و ہاں آیا کرتے تھے۔ مجھے گنگنانے کا شروع سے ہی شوق تھا۔ ایک مرتبہ میں فلم“ پرچھائیں ”( 1952 ) کا گیت: ’کٹتے ہیں دکھ میں یہ دن پہلو بدل بدل کے، رہتے ہیں دل کے دل میں ارماں مچل مچل کے‘ گنگنا رہا تھا کہ ایسے میں خواجہ خورشید انورصاحب نے اپنے کھیل کو روک کر مجھ کو بلوایا اور کہا کہ اور بھی سناؤ۔ تب انہیں میڈم نورجہاں کی آواز میں فلم ’گلنار‘ کا گیت : ’بچپن کی یادگارو میں تم کو ڈھونڈتا ہوں تم بھی مجھے پکارو․․․ ․․․‘ سنایا۔

    اس وقت مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ خواجہ صاحب ہیں کون؟ وہ زیادہ تر خاموش رہا کرتے۔ کہا کرتے تھے کہ میری موسیقی چار سال کے بعد سمجھ آتی ہے۔ مثلاً مسعود پرویز صاحب کی فلم زہر عشق ( 1958 ) میں ناہید نیازی کی آواز میں قتیلؔ شفائی کے لکھے گیت: ’موہے پیا ملن کو جانے دے بیرنیا․․․․․․‘ اپنے وقت کی ایک عجیب کمپوزیشن تھی جو 60 سال بعد بھی وہی حیران کن تاثر رکھتی ہے“ ۔ فہیم صاحب نے یہ بھی کہا : ”پھر بعد میں خواجہ صاحب نے عام آدمی کے لئے بھی دھنیں بنائیں جیسے 1970 میں مسعود پرویز صاحب کی فلم میں احمدؔ راہی صاحب کے لکھے گیت ’سن ونجلی دی مٹھڑی تان وے ․․․․ میں تاں ہو ہو گئی قربان‘ ․․․․ پھر میں نے خواجہ صاحب کے لئے حضرت تنویرؔ نقو ی صاحب کے گیت لکھنے کے تخلیقی عمل کو کئی مرتبہ دیکھا۔

    خواجہ صاحب کے میوزیشنز بھی خاص تھے۔ میں نے خود میڈم نورجہاں کو کہتے سنا کہ خواجہ صاحب کا بنایا ہوا گیت گانا آسان کام نہیں ہوتا۔ وقت گزرتا گیا خواجہ صاحب کا دیا ہوا حوصلہ اور سینے میں موسیقی کی چنگاری مجھے اساتذہ کے در پر لے گئی اور جہاں سے جو بھی حاصل ہو سکتا تھا، حاصل کیا۔ ایک طلب سی تھی کہ بنیادی رموز کی سمجھ ہونا چاہیے۔ پھر جلد ہی اس قابل ہو گیا کہ گلوکار سلیم رضا صاحب کے سا تھ مو سیقی کی نجی محافل میں کورڈ کے ساتھ ہارمونیم بجانے لگا اور بعض محفلوں میں ان سے پہلے ان ہی کے گائے ہوئے مشہور گیت سنا یا کرتا“ ۔

    موسیقار خواجہ خورشید انور کے بارے میں ایک مرتبہ مجھے آفاقیؔ صاحب نے بتایا : ”خواجہ صاحب کو موسیقی کے علاوہ فلمی کہانی اور اسکرین پلے پر بھی دسترس حاصل تھی۔ بڑے موڈی آدمی تھے ایک وقت میں صرف ایک ہی فلم کا کام کرتے تھے۔ نہایت قناعت پسند اور بے نیاز تھے“ ۔

    موسیقار خواجہ خورشید انور کے تذکروں میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ نامور کلاسیکی موسیقار استاد توکل حسین سے ایک عرصہ تعلیم حاصل کی تھی۔ بعض محقق کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب کی اپنی منفرد پہچان کی طرزوں میں ماسٹر توکل کی تعلیم کا بہت زیادہ دخل ہے۔ آفاقیؔ صاحب نے ایک اور چونکا دینے والی بات بتلائی: ”سہراب مودی نے فلم“ مرزا غالب ”( 1954 ) کی موسیقی کے لئے خواجہ صاحب ہی کومنتخب کیا تھا۔ یہ رضامند بھی ہو گئے تھے لیکن پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ فلم نہیں کی۔ پھر مودی صاحب نے موسیقار غلام محمد کو یہ ذمہ داری سونپی“ ۔

    میرے خیال میں موسیقار خورشید انور کو مغربی موسیقی پر دسترس تھی لیکن اس کا کبھی بے جا استعمال نہیں کیا۔ مجھے آفاقی ؔصاحب نے بتایا کہ کبھی ایسا بھی ہوا کہ خواجہ صاحب نے گیت نگار کو الفاظ بدلنے کا مشورہ دیا۔ مشورے کے بعد جو لفظ موزوں ہوا اس میں کہیں زیادہ موسیقیت محسوس ہوئی۔

    خواجہ خورشید انور نے 1978 میں EMI، گراموفون کمپنی آف پاکستان میں گراموفون ریکارڈوں اور آڈیو کیسیٹوں کی صورت میں موسیقی کی تحقیق کا کام کیا۔ اس کا نام ”آہنگ خسروی“ ہے۔ یہ موسیقی کے نامور گھرانوں کے ہاں رائج انداز میں 90 راگوں کی استھایاں اور انتروں پر کی گئی تحقیق ہے۔ اس کے 2 حصے ہیں۔ پہلا 10 عدد کیسٹوں پر مشتمل ”راگ مالا“ ہے۔ ان میں خواجہ صاحب کی اپنی آواز میں آسان تبصرے اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی مزید روشنی بھی ڈالی ہے۔ دوسرے حصے کا نام

    ” گھرانوں کی گائیکی“ ہے۔ تمام مشہور گھرانوں کے نمائندہ اساتذہ اور فنکاروں کی آواز میں 20 عدد کیسیٹوں میں گیت ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ان میں ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم، استاد سلامت علی خان، ذاکر علی خان اور اختر علی خان، استاد فتح علی خان ( پٹیالہ گھرانہ) ، اسد امانت علی خان اور حامد علی خان، استاد اسد علی خان، استاد رمضان خان، استاد امراؤ بندو خان ( دہلی گھرانہ) ، استاد غلام حسین شگن، استاد حمید علی خان، استاد فتح علی خان (گوالیار گھرانہ) ، ملک زادہ محمد افضل خان اور ملک زادہ محمدحفیظ خان شامل ہیں۔

    واضح ہو کہ یہ کاوش حضرت امیر خسروؒ ؔکے 700 ویں یوم پیدائش کے سلسلے میں کی گئی تھی۔ لیکن یہ بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ موسیقار خواجہ خورشید انور کی اس انمول تحقیق کی گراموفون کمپنی المعروفEMI نے عومی سطح پر کوئی خاص پبلسٹی نہیں کی۔ نہ ہی ہمارے اہل قلم، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بشمول پاکستان ٹیلی وژن کے اعلیٰ عہدیداروں اور نام نہاد فن کی سرپرست انجمنوں نے کوئی ٹھوس کام کیا۔ آج آپ کسی بڑے سی ڈی، کیسٹ کے ہول سیلر کے پاس ان کیسٹوں کی معلومات تو کیجئے! جواب میں سیلز مین اور مالکان آپ کو ایسی نظروں سے دیکھیں گے گویا آپ مریخ سے آئے ہیں!

    خواجہ صاحب کو فلم ”گھونگھٹ“ ( 1962 ) میں نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔ ان کو 1980 میں حکومت پاکستان نے ”ستارہ ء امتیاز“ سے نوازا۔ پھر 1982 میں بمبئی کی میوزک انڈسٹری نے موسیقا ر خواجہ خورشید انور کو بمبئی کی فلمی صنعت کے موسیقی کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر Mortal۔ Men۔ Immortal۔ Melodies Award سے نوازا۔

    موسیقار خواجہ خورشید انور کے مزاج کے بارے میں ایک مرتبہ علی سفیان آفاقیؔ صاحب نے بتایا : ”خواجہ خورشید انور صاحب سے کئی ملاقاتوں کا موقع ملا۔ خورشید صاحب کم گو، جلد گھلنے ملنے والے نہیں تھے۔ لیکن ان کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ بد مزاج، چڑچڑے تھے، غلط ہے۔ البتہ وہ کسی کو جلد دوست نہیں بناتے تھے نہ ہی کسی محفل میں کھلتے تھے“ ۔

    یہ بھی عجیب بات ہے کہ موسیقار خواجہ خورشید انور نے 40 سال فلمی دنیا میں کامیابی سے گزارے لیکن ان کی فلموں کی تعداد محض 29 ہے۔ ان میں 11 فلمیں ہندوستان اور پاکستان میں 26 سالوں میں محض 18 فلمیں ہیں۔ ان 29 فلموں کے کل گیت صرف 223 بنتے ہیں۔ ان میں 76 گیت غیر منقسم ہندوستان اور 147 پاکستان میں ریکارڈ ہوئے۔

    خواجہ صاحب کے کئی گیت سپرہٹ ہوئے۔ فلم ”کوئل“ کے 11 گیتوں میں سے 10 بے حد مقبول تھے اور ہیں۔ اسی طرح فلم ”ہیر رانجھا“ کے 10 میں سے 7 مقبول عام ہوئے۔ کھماج ٹھاٹ کے راگ جے جے ونتی میں خواجہ صاحب کا بنایا ہوا گیت: ’دل کا دیا جلایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ پھر گیت ’ساگر روئے لہریں شور مچائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ راگ تلک کامور اور شیام کلیان میں بنی طرز کو غور سے سنیں تو مرکیاں اور بہلاوہ بہت بھلا محسوس ہوتا ہے۔ واقعی گلوکارہ نورجہاں نے بھی مرکیوں اور بہلاوے کا حق ادا کر دیا۔

    فلم ”انتظار“ میں میاں کی ٹوڈی میں بنایا ہوا گیت ’جس دن سے پیا دل لے گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ میں تان اور پلٹوں کو کس خوبصورتی سے سیدھا اور آسان تر بنا کر پیش کیا گیا۔ فلم ’‘ چنگاری ”میں گیت ’دل کی بات بتائیں کس کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ خواجہ صاحب نے درد بھرے راگ“ بلاس خانی ٹوڈی ”میں کمپوز کیا۔ روایت ہے کہ میاں تان سین کے بیٹے بلاس خان نے اپنے والد کے انتقال کے غم میں یہ راگ ایجاد کیا تھا۔ فلم“ گھونگھٹ ”میں گیت ’کبھی تم بھی ہم سے تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یا د ہو‘ تین راگوں ایمن، بھیرویں اور شنکرا کے مابین گھومتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ راگوں کا یہ امتزاج گیت کے بولوں کی مناسبت سے بہت دلکش ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ جا بجا ہمیں مینڈھ بھی محسوس ہوتی ہے۔ ’تمہیں یاد ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ میں پہلے والے لفظ“ یاد ”میں یہ مینڈھ حقیقت میں فریاد اور التجا کرتی ہوئی لگتی ہے۔

    فلم ”ہیر رانجھا“ کے گیت ’سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ میں راگ کافی میں بجوائی ہوئی بانسری کیا دل پذیر تاثر رکھتی ہے۔ پھر فلم ”گھونگھٹ ’‘ میں مہدی حسن کی آواز میں گیت ’اے روشنیوں کے شہر بتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ایک غیر واضح کافی ٹھاٹھ، راگ“ کون سی کنارا ”میں کمپوز کیا گیا۔ یہ راگ مالکوس اور راگ دھناسری سے مل کر بنا ہے۔ اس راگ میں فلمی گیت نہ جانے کیوں نہیں بنے!

    میں نے خواجہ صاحب پر تحقیق کے دوران ایک بات محسوس کی کہ وہ کسی ایک خاص گلوکار/گلوکارہ کی بنیاد پر گیتوں کی دھنیں نہیں بناتے تھے۔ جب کہ ہمیں ان کے ہم عصروں میں یہ چیز بہت ملتی ہے جیسے موسیقار نوشاد علی، سچن دیو برمن المعروف ایس ڈی برمن، مدن موہن کوہلی المعروف مدن موہن وغیرہ۔

    بمبئی میں ان کے 76 گیتوں کو 25 گلوکاروں نے ریکارڈ کروایا۔ ان میں کے ایل سہگل، ثریا، گیتا دت، شمشاد بیگم، آشا بھونسلے او ر محمد رفیع (صرف ایک گیت) وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں 147 گیتوں میں نورجہا ں نے سب سے زیادہ، 58 گیت ریکارڈ کروائے۔ زبیدہ خانم نے 23، نسیم بیگم نے 9، مالا نے 8، آئرین پروین 4، مہناز 6، سلیم رضا 7، منیر حسین 5، مہدی حسن 12، احمد رشدی 1، مسعود رانا 3۔ باقی 21 گیت ناہید نیازی، نجمہ نیازی اور دیگر گلوکاروں نے ریکارڈ کیے۔

    موسیقار خواجہ خورشید انور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے گیت نگاروں کے انتخاب کے لئے اپنے ہی مخصوص پیمانے مقرر کر رکھے تھے۔ بمبئی کی فلموں میں دینا ناتھ مدہوکؔ، نخشبؔ جارچوی، حسرتؔ جے پوری، شکیل ؔبدایونی، ضیاؔء سرحدی، ظہیرؔ کاشمیری وغیرہ کے ساتھ کام کیا۔ پاکستان میں اردو فلموں میں قتیلؔ شفائی ( 54 ) اور حضرت تنویرؔ نقوی ( 43 ) نے ان کے لئے زیادہ لکھا۔ فیض احمد فیضؔ، طفیلؔ ہوشیارپوری اور حبیب جالبؔ نے ایک ایک گیت لکھے۔ پنجابی گیت احمدؔ راہی نے لکھے۔

    جب بھی 1940 سے 1970 کی پاک بھارت فلمی موسیقی کی تاریخ پر کچھ لکھا جائے گا اس میں خوش بخت موسیقار خواجہ خورشید انور کا نام ضرور شامل ہو گا۔ انہوں نے منتخب کام کیا اور خوب کیا۔

    انوار موسیقی کا یہ خورشید 30 اکتوبر 1984 کو لاہور میں غروب ہو گیا۔
    ۔

    ٹیگز: , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔