قارئین کرام آپ کو پاکستان کی چند اہم سیاسی جماعتوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ یہ تعارف تو ہم نے بیرون ملک مقیم ان دوستوں کے لئے لکھا ہے جو پاکستان کے حالات کے متعلق متجسس ہیں اور ہماری سیاسی صورتحال کے بارے میں مزید آگا ہی کے طالب ہیں۔ تاہم اگر یہ تعارف آپ کو بھی کروا دیا جائے تو چنداں حرج نہیں۔
شریف جماعت
اس جماعت کے روح رواں دو بھائی ہیں جو اتنے شریف ہیں کہ شریف ان کے نام کا حصہ ہے۔ اس جماعت میں شمولیت کے لئے شرافت و نجابت اولین شرط ہے۔ اور ان کی کوشش ہے کہ ملک میں شرافت عام ہو جائے۔ اس پالیسی کے مدنظر ہر محکمے کا سربراہ صرف وہی شخص مقرر ہو سکتا ہے جو ‘شریف’ ہو اور چونکہ ان کے علاوہ یہ خوبی ڈھونڈے سے نہیں ملتی تو ان پر نا سمجھ لوگ اقربا پروری کا الزام بھی لگاتے ہیں۔۔ ملک کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اتنی کہ عام معاملہ ان کی نظر میں آتا ہی نہیں تا وقتیکہ کہ وہ بحران نہ بن جائے۔ اور بحران فوری حل تو ہو نہیں سکتا۔ اس کے لئے مزید غور و خوض کی ضرورت پڑتی ہے۔ اکثر اوقات مقامی غور و خوض ناکافی ثابت ہوتا ہے تو دوست ممالک بھی جو اکثر اس بحران کے ذمہ دار ہوتے ہیں، مدد کو آن پہنچتے ہیں۔
میر بھی کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں
اس جماعت کے پاس بہت ہی تجرکار ٹیم ہے۔ اس نے اپنا تجربہ ثابت کیا بھی ہے۔ ایسا ایسا بحران پیدا کیا ہے کہ حزب اختلاف اور عوام اپنا سا منہ لے کے رہ گئے ہیں۔۔
اس حکومت کو پل اور سڑکیں بنانے کا بہت شوق ہے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ اس کا مقصد ذاتی ملوں اور فیکٹریوں کے سامان کی کھپت ہے تویہ ان کی بدگمانی ہے ورنہ حکومت کا ایسا مقصد ہوتو تو لیپ ٹاپ کیوں تقسیم کرتی؟ اکثر لیپ ٹاپ والوں نے تو حکومت مخالف ووٹ دیئے۔
دونوں بھائی شرافت کے ساتھ ساتھ بے خوف اور نڈر بھی ہیں۔ بے خوفی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اپنے نام کے ساتھ ‘میاں’ لگاتے ہیں۔ شادی شدہ ہم بھی ہیں مگر اتنی ہمت کبھی نہ ہوئی کہ یوں سر عام اس کا اعلان کرتے پھریں۔بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ چھوٹے بھائی کو تو ‘میاں’ بننے کا شوق بھی بہت ہے اور کافی دفعہ یہ لڈو کھا چکے ہیں بلکہ شاید مٹھائی کا ڈبہ ہی ختم انھوں نے کیا ہے۔ سعودی عرب میں اتنا عرصہ گزارنے کا کچھ تواثر ہونا ہی تھا۔ مقیم فی الوقت ہم بھی سعودی عرب میں ہی ہیں مگرہم ابھی اتنے جری نہیں ہیں۔
دھرنا جماعت
یہ بھی ایک مقبول پارٹی ہے۔ اس کا منشور نیا پاکستان بنانا ہے۔ تا ہم نیا پاکستان بنانے کے لئے جگہ کا تعین شاید نہیں ہو پایا۔ اس لئے ابھی فی الوقت قوم نیا خاندان پر اکتفا کرے۔ تبدیلی اس پارٹی کا نعرہ ہے اور سب سے بڑی تبدیلی جو آئی ہے وہ جلسوں میں آئی ہے۔ پہلے پارٹیاں جو جلسے اور دھرنے کرتی تھیں وہ بہت بے رونق ہوتے تھے۔ پارٹی کے رہنما اور لیڈر اپنے کارنامے (جو انھوں نے کیے بھی نہ ہوتے وہ) بیان کرتے اور مخالفین کی پگڑی ( جو انھوں نے پہنی بھی نہ ہوتی) اچھال دیتے۔ لوگ جھوٹ سچ سن کر اور کھانے پر ہاتھ صاف کر کے گھر آ جاتے۔
یہ کام اب بھی جاری ہے تاہم اس پارٹی نے جلسوں کو میلے کی رونق دے دی ہے۔ یہی حال ان کے دھرنے کا رہا۔ لوگ اب تقریر کے ساتھ تفریح بھی کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے تو مزے ہو گئے۔جو کنسرٹس ہزاروں میں پڑتے تھے اب مفت میں ہیں ساتھ کھانا پینا بھی۔ ادھر پارٹی لیڈر نے تقریر شروع کی، ادھر ڈی جے کا کام شروع۔ ڈی جے کے بھی وارے نیارے ہو گئے۔ اب تو چند دن ان کی پارٹٰی دھرنے کا اعلان نہ کرے تو بچوں کو فکر ہونے لگتی ہے۔ لڑکے لڑکیاں پہلے پارکوں اور ریسٹورانوں میں چھپ چھپ کر ملا کرتے تھے، اب دھرنوں میں یہی کام کر لیتے ہیں۔ یہ جلسے جلوس بھی نرے بیکار نہیں، ایک ضمنی فائدہ یہ ہے کہ نوجوان جوڑوں کو ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اکثر اوقات بات عقد بین المسلمین پر منتج ہوتی ہے۔
پدرم سلطان بود جماعت
کبھی یہ پارٹٰی ملک کی مقبول ترین پارٹی ہوتی تھی مگر آج اس کا حال بھی وہی ہے جو موجودہ عالمی تناظر میں مسلمانوں کا ہے۔ یہ پارٹی پدرم سلطان بود کی زندہ مثال ہے۔ ہمیشہ اپنا شاندار ماضی دھراتی رہتی ہے۔ہم نے یہ کیا۔ ہم نے وہ کیا۔ ہمارے یہ شہید ہوا۔ ہمارا وہ شہید ہوا وغیرہ وغیرہ۔
مفاہمت پر یقین رکھتی ہے۔ اس لئے اپنے لیڈروں کے قاتلوں سے مفاہمت کر لیتی ہے’۔جمہوریت بہترین انتقام ہے’ کے منشور پر عمل کرتے ہوئے سب کو ملک لوٹنے کا جمہوری حق دیتی ہے۔ اس پارٹی میں بڑا عہدہ پانا چنداں مشکل نہیں۔ بدعنوانی دل کھول کر کریں مگر اپنے بڑوں کا حصہ ان تک ضرور پہنچائیں۔
ان پارٹی کے اراکین اتنے سادہ ہیں کہ انھیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ ان کے بنک اکائونٹ میں اچانک کروڑوں کیسے آ جاتے ہیں۔ واقعی جب اللہ دیتا ہے چھپر بھاڑ کے دیتا ہے۔ہم منتظر ہیں کہ کبھی ہمارے ساتھ بھی ایسا اتفاق ہو۔
اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے اس جماعت کے اراکین۔ اس لئے خون کے ساتھ ساتھ اپنے وزراء کی بھی قربانی دیتے ہیں۔
پہیہ جام جماعت
یہ پاکستان کی بلکہ دنیا کی شاید واحد پارٹی ہو گی جو اقتدار میں ہو کے حزب اختلاف کا کام سرانجام دیتی ہے اور حزب اختلاف میں ہو کر اقتدار کے مزے لوٹتی ہے۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
اگرچہ پارٹی تو مقامی بلکہ علاقائی یا گروہی ہے مگر اس کے اثرات بین الاقوامی ہیں۔ اس جماعت کاقائد ٹیلی فون سے جماعت بلکہ پورا صوبہ چلاتا ہے۔ ایک کال دیتا ہے اور پورا شہر ہو کا عالم پیش کرنے لگتا ہے۔ ایسا دلیر کہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا مگر پاکستان نہیں آتا کہ جان کو خطرہ ہے۔ گوشہ نشیں اور عہدہ و جلال سے کوسوں دور۔ کئی بار پارٹی قیادت کو خیرباد کہا مگر عوام کے پرزور اصرار پر نہ چاہتے ہوئے بھی یہ طوق گلے میں ڈالے بیٹھے ہیں۔ اور سب سے مظلوم پارٹی۔ کراچی میں قتل ہونے والا کارکن انھی کا نکلتا ہے۔
مٹی پائو جماعت
یہ بھی دو چچازاد بھائیوں پر مشتمل جماعت ہے۔ اس کا انتخابی نشان سائیکل ہے۔ اس سے ان بھائیوں کے دور اندیشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان کا مستقبل سائیکل ہے۔ ان کو موسیقی سے بھی شغف ہے اور ان کی پسندیدہ موسیقی بوٹوں کی آواز ہے بالخصوص فوجی بوٹوں کی۔ فوجی بوٹ ان کے لئے بہار ہیں
آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
عام دنوں میں ان کو ‘اکھیاں اڈیک دیاں’ اور ‘جانے کہاں گئے وہ دن’ گاتے سنا جاتا ہے۔
شریک اقتدار جماعت
اس جماعت کا محور بھی ایک ہی شخصیت ہے جس کے گرد اراکین پروانہ وار نثار ہوتے ہیں اور ان کے ہر غلط اقدام کا بھی دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ صاحب بھی اپنی ذات میں انجمن بلکہ پارٹی ہیں۔ ڈیل ڈول سے بھی ایسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی حیثیت سالن میں نمک جیسی سمجھ لیں کہ ان کے بغیر حکومت کا مزہ نہیں یعنی کہ حکومت چلتی نہیں۔ چنانچہ ہر حکومت میں لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔
سگار جماعت
یہ اک رکنی پارٹی ہیں۔لھذٰا جماعت کے صدر، نائب صدر،سیکرٹری جنرل اور عام رکن بھی یہ خود ہی ہیں۔ ٹاک شو کی جان ہیں۔ بولتے بہت خوب ہیں۔ ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ اکیلے ہی دوسروں کی پارٹی کی لٹیا ڈبو دیتے ہیں۔ ایک پارٹی کے ساتھ انھوں نے دھرنے میں شرکت کی۔ جب معاملہ استعفٰی دینے کا آیا تو اس پارٹی کے تمام ارا کین نے استعفٰے دے دیے مگر یہ اس معاملے میں طرح دے گئے۔
ان کے علاوہ بھی کچھ چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں مگر وہ تین میں نہ تیرہ میں۔ تمام جماعتیں اپنی ہیئت اور منشور کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ جس نقطے پر یہ متفق ہیں وہ ہیں عوام۔ یعنی کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے عوام کا بھلا ہو جائے اور ان کی زندگی قدرے سہل ہو۔ عوام کو ان کے گناہوں کی سزا دنیا میں ہی دے دی جائے تا کہ آخرت میں جنت ہی ان کا ٹھکانہ ہو۔ ایک اور قدر مشترک یہ بھی جان لیجیے کہ اگرچہ تمام جماعتیں جمہوری ہیں مگر آپ خواہ کتنے ہی محنتی اور قابل کیوں نہ ہو، آپ ان جماعتوں کے سربراہ نہیں بن سکتے جب تک کہ آپ کے پاس ان کے سربراہوں کےقریبی عزیز ہونے کی اہلیت(کوالی فیکیشن) نہ ہو۔