تحریر : ابنِ ریاض
چند عشرے قبل تک ہمارے علاقے میں تعلیم کا کوئی خاص رواج نہ تھا۔ ہم نے اپنے بزرگوں میں دیکھا کہ وہ بمشکل میٹرک پاس تھے لیکن سرکاری ملازمت بھی کی اور ریٹائر ہوئے تو اٹھارویں گریڈ میں۔ اس زمانے میں پاس ہو جانا ہی عروجِ امتحان سمجھا جاتا تھا۔ بچے کے محض پاس ہوجانے پر ہی والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔نمبروں کا تو ٹنٹا تھا ہی نہیں۔ بلکہ جماعتوں کے نتائج تو بس پاس اور فیل کی صورت میں ہی بتائے جاتے تھے۔ اسی زمانے کا ایک اور لطیفہ ہے کہ طفیل نے ساجد سے پوچھا کہ کیا نتیجہ آیا۔ ساجد نے جواب دیا کہ میں تو پاس ہو گیا تم اپنی سناؤ۔ طفیل نے کہا کہ بس یار کیا بتاؤں، میرے تو نام کا پہلا حرف ہی اڑ گیا۔
میٹرک میں البتہ نمبر وں اور ڈویژن کے ساتھ نتیجہ ہوتا تھا۔ سادہ لوگ تھے کوئی پوچھتا کہ کس ڈویژن میں پاس ہوئے ہو تو فرماتے سرگودھا ڈویژن میں۔ اور سائل مطمئن ہو جاتا تھا۔ والدین کے لئے بھی اتنا ہی کافی ہوتا۔تھا کہ بچہ پاس ہو کر اگلی جماعت میں چلا گیا ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے گاؤں میں ایک بچہ فیل ہو گیا۔والدین نے پوچھا کہ فیل کیسے ہو گئے تو اس سے پہلے کہ وہ بچہ جواب دیتا اس کا ایک دوست اس کی مدد کو آیا اور کہنے لگا۔ استاد نے لڑکوں کو قطار میں کھڑا کیا اور نمبر بانٹنے لگے۔ یہ چونکہ قطار کے آخر میں تھا تو اس تک پہنچتے پہنچتے نمبر ختم ہو گئے اور یہ فیل ہو گیا۔ والدین بھی ایسے سادہ تھے کہ بچے کو چھوڑ ے اس کے استاد کو گالیاں دینے لگے۔
لوگوں کو مہنگائی نے بے حال کر رکھا ہے۔ اشیائے ضروریہ کے اونچے داموں اور روپے کی بے قدری نے ایسا حواس باختہ کیا ہے کہ کسی کو خیال ہی نہیں رہا کہ نمبروں کی بے قدری کا احساس کرتا۔ نمبروں کی مصنوعی مارکیٹ ویلیو کے خاتمے کی کوشش تو بعد کی بات ہے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
زیادہ دور کی بات نہیں پچھلی صدی کے اختتامی سالوں میں اسی فیصد بہت شاندار نمبر شمار ہوتے تھے۔ خال خال طالب علم ہی اے گریڈ لے پاتے تھے اور اس پر بھی ان کے گھر والوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ پچاسی چھیاسی فیصد والے تو بورڈ ہی ٹاپ کر لیا کرتے تھے۔ جب ہم میٹرک میں تھے تو ہمارے کالج کے ایک لڑکے نے گیارہ سو میں سے نو سو چودہ(914) نمبر لئے تھے اور اس کی بورڈ میں دوسری پوزیشن تھی۔ اساتذہ کی خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی اور ہمیں اس کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ نمبر ہمارے زمانے میں سینٹی گریڈ میں تھے اب فارن ہائیٹ میں لیتے ہیں نمبر بچے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ جس طالب علم سے پوچھو ستانوے اٹھانوے فیصد نمبر بتایا اپنے اور روہانسا ہو جاتا ہے۔
بچوں کے نمبر بڑھتے دیکھ کر بورڈ والوں نے میٹرک کے کل نمبر بڑھا دیئے۔ ہمارے زمانے میں کل نمبر ساڑھے آٹھ سو ہوتے تھے اور بورڈ ساڑھے سات سو پر ٹاپ ہوتا تھا۔ اردو، انگریزی اور معاشرتی علوم میں تو استاد دس بیس فیصد نمبر یوں کاٹ لیتے تھے جیسے کام چور مزدور کی دیہاڑی سخت گیر ٹھیکیدار کاٹ لیتا ہے۔ اب کل نمبر ہزار سے زائد ہیں۔انٹرمیڈیٹ کے البتہ وہی ہیں۔ تاہم طالب علموں کے سو فیصد نمبر آ رہے ہیں۔ کہیں کہیں بچوں کو نظرِ بد سے بچانے کے لئے دو چار نمبر زکوٰۃ کے بھی کاٹ لئے جاتے ہیں۔ ہمارے بزرگ پرانے زمانے کی سادگی کا ذکر کرتے ہوئے ایک لطیفہ سناتے ہیں کہ ایک شخض کا انتقال ہوا تو کسی نے کہا کہ بہت ہی نیک بندہ تھا۔ ضرور جنت میں جائے گا۔ اس کی کوئی رشتے دار خاتون بھی قریب موجود تھی فوراً بولی کہ وہ تو اتنا نیک تھا کہ جنت سے بھی آگے ہی چلا جائے گا۔ نمبروں کا بھی یہی عالم ہے۔ اور جیسے حاصل کردہ نمبر بڑھتے جا رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب کل نمبروں سے حاصل کردہ نمبر زیادہ ہو جائیں گے اور بورڈ ٹاپر کے تو ہزار یا گیارہ سو میں سے کوئی پندرہ سو ہوا کریں گے۔ سب ٹھیک کرنے پر پورے نمبر تو ان کا حق ہیں ہی لیکن بعض بچوں کی لکھائی بھی اچھی ہوتی ہے جس کے ہمارے زمانے میں کچھ نمبر زائد ملا کرتے تھے سو موجودہ طالب علموں کا بھی حق ہے کہ انھیں یہ نمبر ملیں۔ باوجود اس کے کہ امتحان میں آٹھ میں سے کوئی سے پانچ سوال کرنے کا اختیار ہوتا ہے کچھ طلبا آٹھ کے آٹھ سوال کرتے ہیں کیونکہ ان کا علم ہی اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ ان کا حق ہے کہ انھیں اس زائد کوشش کا صلہ اضافی نمبروں کی صورت میں دیا جائے۔ جب ہم پڑھتے تھے تو اس وقت بیس نمبر فوجی تربیت(این سی سی) کے اور بیس مزید نمبر حفظِ قرآن کے ہوتے تھے۔ فوجی تربیت تو ماضی کا قصہ ہوئی لیکن کچھ یا چند طلباء نے قرآن پاک حفظ کر رکھا ہوتا ہے تو ان کے بیس نمبر یہ ہوئے۔ اب اتنے نمبر زائد ہوں اور طالب علم اچھی اکیڈمی سے پڑھا ہو جس کے اساتذہ خود بورڈ کے پرچے بناتے اور پھر ان کی جانچ کرتے ہوں تو طالب علم کے حاصل کردہ نمبر کل نمبروں سے زائد ہونا اچنبھے کی بات تو نہ ہوئی۔
مستقبل قریب میں تو نوے پچانوے فیصد نمبروں والے طلباء تو میرٹ پر ہی نہیں آئیں گے کیونکہ کم از کم میرٹ سو فیصد ہو چکا ہو گا ۔ اس وقت بھی صورت حال کچھ یوں ہے کہ اسی پچاسی فیصد والے دلبرداشتہ ہو کرخودکشی کر لیتے ہیں۔ مستقبل میں اٹھانوے فیصد والے چلو پھر پانی میں ڈوب مریں گے۔ ان کے بچوں سے شادیوں کی تو نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ کوئی ان سے ہی شادی نہیں کرے گا۔
طالب علموں کی یہ فطرت ہے ک وہ پڑھیں یا نہ پڑھیں نمبروں کی حرص ان میں کم نہیں ہوتی ۔ ایک بات ضمناً یاد آ گئی کہ ۔سعودی عرب میں نمبروں کو یہ ڈگری کہتے ہیں۔ یہاں ابتدا میں ہمیں بڑا مسئلہ ہوا جب پہلے امتحان کے بعد بچے نے آ کر کہا کہ ٹیچر میری ایک ڈگری بڑھا دیں۔ ہم نے اسے کہا کہ تم کوئی تھرمامیٹر ہو؟ ہمارے ہاں تو ڈگری ڈگری ہوتی ہے بھلے اصلی ہو یا جعلی بھلے کسی مضمون کی ڈگری ہو یا تھرمامیٹر کی۔
جب طالب علم اتنے لائق ہوں گے کہ بورڈ والے باوجود کوشش کے ان کے نمبر نہ کاٹ سکیں تو سوچیں کہ ملک کا مستقبل کتنے مضبوط ہاتھوں میں ہو گا۔ دنیا کے بہترین دماغ اور اگلے وقت کے نیوٹن، آئن سٹائن، ارسطو، افلاطون غرض ہر شعبے کے ماہریں پاکستان میں پیدا ہوں گے۔ پاکستان کی شرحِ ترقی دنیا میں سے زیادہ ہو گی ڈاکٹروں کی مہارت کا یہ عالم ہو گا کہ مریض دیکھتے ہی مرض پہچان لیں گے اور اس سے بات کیے بغیر دوا لکھ دیں گے یا آپریشن تھیٹر پر لٹا کر اس کی چیر پھاڑ کر دیں گے۔ انجینئر ایسے باکمال کہ کوئی نقشہ بنوانا چاہے گا اور جب نقشہ لینے آئے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ عمارت بھی کھڑی کر دی گئی ہے۔ کھلاڑی ایسے کہ میدان میں اترنے سے پہلے ہی میچ جیت چکے ہوں اور میدان میں جانا محض رسمی کارروائی ہو۔ تاجر ایسے کہ بین الاقوامی کمپینوں کا بھٹہ بٹھا دیں( یہ کام ہم ابھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ کہ ہمیں ان کمپنیوں کا چیف ایگزیکٹو بنا دیا جائے)۔ آئی ٹی کا مرکز ہمارا پیارا ملک اور ہمارے کمپیوٹر سائنس کے ماہرین ہوں گے۔ بینکار بندے کو دیکھ کر پہچان لے گا کہ یہ موٹی آسامی ہے یا پتلی اور اس کے سمجھنے تک اس سے پیسے نکلوا لے گا( یہ کام تو بینکار بلکہ ہر شعبے کے لوگ اب بھی کر رہے ہیں)۔ سیاست دان ایسے کہ کشمیر و فلسطین کے مسئلے ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوں گے۔ فوجی ایسے کہ کوئی ملک کو میلی آنکھ سے دیکھے تو فوراً اس کی آنکھ دھو دیں تاکہ صاف آنکھ سے اسے پاکستان کا حسن اچھے طریقے سے نظر آئے۔ غرض ہمارا نظام تعلیم مستقبل کے چیلنجوں سے نبزد آزما ہونے کے لئے انتہائی شاندار حکمت عملی پر کاربند ہے۔ کچھ ہی عرصہ انتظار کرنا ہے پھر راج کرے گی خلقِ خدا اور ہم دیکھیں گے۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مارچ 9th, 2024
زمرہ: طنزو مزاح, طنزومزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Ainstein, exams, marks, NCC, papers, students, Teachers