آج کل ہم کسی بھی ٹی وی چینل پر کوئی ڈرامہ دیکھیں یا کوئی بھی ڈائجسٹ اٹھا کر کوئی ناول یا افسانہ اٹھا لیں لامحالہ اس کی تخلیق کارکوئی لڑکی یا خاتون ہوگی۔مرد ناول نگار اور ڈرامہ نویس آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ رجحان بالکل نیا اور غیرفطری ہے کیونکہ ماضی میں خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، قرہ العین حیدر، رضیہ بٹ، بشرٰی رحمان نثر جبکہ پروین شاکر، ادا جعفری، نوشی گیلانی و دیگر شاعری میں اپنے جھنڈے گاڑ چکی ہیں تاہم اس بار معاملہ یوں دیگر ہے کہ پہلے خواتین معدودے چند تھیں اور مردوں کے مقابل اپنا آپ منوا رہی تھیں جبکہ دورحاضر میں مقابلہ خواتین کے درمیان ہے اور مرد حضرات تماشائی ہیں۔
بھلے وقتوں کی بات ہے کہ خواتین کی خواندگی کی شرع کم تھی اور معاشرے میں عمومی تاثر بھی یہی تھا کہ لڑکیوں کو پڑھانے لکھانے کی کیا ضرورت ہے، کرنا تو انھیں ہانڈی چولہا ہی ہے۔۔۔ خواتین کی اکثریت تو سکول کا منہ بھی نہیں دیکھ پاتی تھی اور جن کے والدین "وسیع النظر” ہوتے تھے وہ پرائمری یا مڈل تک پڑھ لیتی تھیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ خط وغیرہ پڑھ پائیں اور بلوغت کے فورًا بعد شادی۔ شادی کے بعد تو لڑکیاں بچوں اور گرہستی میں ایسی الجھتی تھیں کہ اپنا ہوش نہیں ہوتا تھا کجا کہ کچھ لکھ پڑھ پائیں۔ اپنا پڑھا بھی بھول جاتی تھیں۔صبح ناشتہ بنانا، بچوں کو تیار کر کے سکول بھیجنا، گھرکی صفائی(جو کہ کافی بڑے اور کھلے ہوتے تھے)، کپڑے دھونا، برتن دھونا گھر آنے والے مہمانوں کی تواضع اور پھر غمی خوشی۔ دیہات کی خواتین کے معمولات میں مویشیوں کا چارہ، دودھ دوہنا، کھیتوں میں کام کرنے والے اپنے مردوں کو کھانا پہنچانا اور پھر وہاں کام کرنا بھی ڈال دیجیے تو مندرجہ بالا خواتین کا اردو ادب میں کردار سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔
بارے موجودہ دور آیا۔ معاشرے میں بچیوں کی تعلیم کا احساس اجاگر ہوا۔ لڑکیوں نے بھی اپنا آپ منوانا شروع کیا اور سکول و کالج و یونورسٹیوں میں امتیازی مقام حاصل کرنے شروع کیے اور پھر عملی میدان میں آکر بھی اپنا آپ منوایا۔ کچھ مہنگائی نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور لڑکیوں کا جاب کرنا وقت گزاری کی بجائے ضرورت بن گیا۔ خواتین جو پہلے محض ڈاکٹر بنتی تھیں یا پھر تدریس سے منسلک ہو جاتی تھیں اب انجینئر، وکیل، قانون دان، فوجی پائلٹ بن رہی ہی اور ثابت کر رہی ہیں کہ خواتین کسی بھی معاملے میں مردوں سے کم نہیں۔
مشینوں کی آمد نے گھر کے کام بھی کم کر دیے ہیں۔ رہی سہی کسر گھریلو ملازموں نے پوری کر دی ہے۔
اب تو خواتین گھر میں بیزار ہو جاتی ہیں اور یکسانیت سے تنگ آ جاتی ہیں۔ جن کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ملتی وہ گھر میں ہی بچوں کو ٹیوشن پڑھا لیتی ہیں یا سلائی کڑھائی کر کے گھر کی آمدن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اب جو بوجوہ ان میں سے کچھ نہیں کر پاتیں اور ان میں لکھنے کی صلاحیت ہوتی وہ کاغذ قلم سنبھال لیتی ہیں۔
خواتین کے کچھ ناول اور رسالے ہم نے بھی پڑھے ہیں بچپن میں۔ اس عمر میں پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ بچوں کو بڑے ویسے ہی خواتین کی محفل میں بھیج دیتے ہیں حتٰی کہ کھانا بھی خواتین کے ساتھ ہی کھلایا جاتا ہے۔ خیر ہم اس عمر سے کچھ زیادہ تھے کہ پڑھ سکتے تھے۔ تاہم بچے ہی تھے ہم کم از کم اپنے والدین کے۔
ان تحاریر سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ خواتین کے مسائل اور ہمارے معاشرتی پہلو اور خاندانی نظام پر جس بہتر انداز میں خواتین قلم بند کرتی ہیں مرد اس کا حق ادا نہیں کر سکتا۔جذبات کا بیان انتہائی متاثرکن ہوتا ہے۔ ہم تو طبعًا زود رنج ہیں ایک اوسط طوالت کا ناول پڑھتے ہوئے اشکوں کا سیل وراں ایک ٹشو پیپر کے ڈبے کے خاتمے کا باعث بن جاتا ہے۔
مصنفات کی جو خوبی انھیں مصنفین سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ بھلے سوئی میں دھاگا نہ ڈال پائیں
ٹھیک روٹی ان سے بنے نہ ہی لذیذ کھانا پکا سکیں مگر اپنی تحریر میں ہیرو کو دشمنوں کے نرغے سے ایسے نکالتی ہیں کہ ظالم سماج ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے اور قارئین عش عش کر اٹھتے ہیں۔ ولن کی ہڈیوں کا ایسا سرمہ بناتی ہیں کہ کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرتے بنتی ہے۔
ادیبہ بننے کا مزید فائدہ یہ ہے کہ پہچان اور شہرت ملتی ہے۔لوگ ڈاکٹرز انجینئر، سرجن اور دیگر شعبوں کے افراد کو ایسے نہیں جاتے جیسے اپنے پسندیدہ مصنفین سے واقف ہوتے ہیں۔ ان کے انٹرویو کے منتظر رہتے اور فرمائشیں کرتے ہیں۔ ان کے حالات زندگی سے واقف ہوتے ہیں اور ان سے متعلق خبریں اخبار و رسائل کی زینت بنتی ہیں۔ اس میں ھرج نہیں کہ یہی لوگ تو ہمارے گھر کے افراد میں شامل ہوتے ہیں۔ احساسات و جذبات کو الفاظ کا پیرہن دیتے ہیں۔ ورنہ ہمارے برہنہ خیالات ہمارے اندر ہی دفن رہ جاتے۔
خواتین ہماری آبادی کا باون فیصد ہیں۔ اتنی بڑی آبادی کو کسی بھی شعبے میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اردو ادب کی خوش بختی ہے کہ اب کافی تعداد میں باصلاحیت خواتین اس شعبے میں اپنا آپ منوا رہی ہیں۔ اس سے ادب کو نئی جہتیں ملیں گی اور فروغ میں ممد و معاون ثابت ہوں گی۔دعا اور خواہش ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔
نویدظفرکیانی
بتاریخ اگست 27th, 2018
بوقت 8:37 صبح:
ہاہاہاہا
بہت اعلیٰ
ابنِ ریاض
بتاریخ اگست 27th, 2018
بوقت 7:59 شام:
شکرگزار ہوں جناب آپ کا