تحریر : ابنِ ریاض
گزشتہ برس کا واقعہ ہے کہ ایک اخبار کے ایڈیشن میں ابنِ ریاض اور ابنِ نیاز دونوں کے کا لم اوپر نیچے موجود د تھے۔ اس میں حیرت یا خبر کی کوئی بات نہیں کہ اخبارات میں ایڈیٹوریل پر کالم ہی ہوتے ہیں۔ اتفاق سے ہم دونوں کے کالم ایڈیٹر کو اکٹھے موصول ہوئے ۔ایڈیٹر صاحب نے انصاف کا علم سربلند کرتے ہوئے دونوں کو ایک ساتھ ہی لگا دیا مگرترتیب الٹ گئی۔ اب معاملہ یہ ہوا کہ ابنِ ریا ض کے بھیجے ہوئے کالم ‘ ہم مقابلوں میں حصہ کیوں نہیں لیتے’ پر ابنِ نیاز اپنی پروازکی طاقت دکھاتے ہوئے نظرآئے۔کالم پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ موصوف شروع سے ہی نالائق ہیں۔ کوئی ڈھنگ کا کام ان سے نہیں ہوتا۔اس کالم کے نیچے ایک سنجیدہ اور معیاری کالم ‘کل بھوشن کی سزااور بیان بازیاں’کے نام سے موجود تھا۔اس پر لوگو ‘شگوفہ ءسحر ‘ کا لگا ہوا تھا ۔ یہ پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ سنجیدہ کالم لکھنا بھی ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں۔ اب اگر کسی اخبار میں ہمارا سنجیدہ کالم نظر آئے تو قارئین کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ایڈیٹر صاحب نے یہ سب قصداً نہیں کیا۔یہ سب اتفاق کا شاخسانہ ہے۔ ابنِ ریاض اور ابنِ نیاز دوست اور ہم عصر ہونے کے ساتھ ساتھ ہم قافیہ بھی ہیں۔ صورت حال گھمبیر تب ہوتی ہے جب دونوں اپنے نام انگریزی میں لکھتے ہیں۔ مزید براں اردو میں تو ریاض اور نیاز مختلف لکھے جاتے ہیں مگرانگریزی میں محض ‘آر’ اور ‘این’ کا ہی فرق پڑتا ہے سو دیکھنے والوں کا مغالطے میں مبتلا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ فیس بک پر میرے دوستوں نے ابنِ نیاز کی کسی پوسٹ پر بے تکلفی کا مظاہرہ کیا اور لودھی کے جوابی تبصرے پر معذرت کی یا اپنا تبصرہ حذف کر دیا۔ابن ِ نیاز کے نیاز مندوں سے بھی ایسی حرکات سرزد ہوتی رہتی ہیں جن پر ہم فراخ دلی سے ابنِ نیاز ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔دوسروں کی کیا بات کہیں ہم خود اکثر اپنے آپ کو ابنِ نیاز سمجھ لیتے ہیں۔پہلی بار جب ہم کالم نویسوں کی تنظیم کے رکن بنے تو اتفاقاً ہم دونوں کی تقرری ایک ہی دن ہوئی اور مبارک باد کی پوسٹ بھی دونوں کی فیس بک ٓئی ڈی پر بیک وقت ہی لگی۔ ان دنوں ہماری آنکھوں میں بھی مسئلہ تھا اور ہمیں زیادہ موبائل اور کمپیوٹر کے استعمال کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ہمیں معلوم بھی نہیں تھا کہ ابنِ نیاز کی بھی ابھی ابھی تقرری ہوئی ہے تو ہم نے ابنِ نیاز والی پوسٹ پر خیر مبارک کہنا شروع کر دیا۔ ابنِ نیاز تو حیران ہوا ہی ہو گا مگر مبارک باد دینے والے پریشان تھے کہ مبارک ہم ابنِ نیاز کو دیتے ہیں اور جواب ابنِ ریاض دے رہے ہیں۔ایک تبصرہ پڑھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ مبارک باد ہم ابنِ نیاز کو دیتے ہیں اور جواب ابنِ ریاض دے رہے ہیں ۔ اس پر ہم نے پوسٹ غور سے دیکھی تو معلوم ہوا کہ ہم خود ہی اپنے دام میں آ گئے ہیں۔
ہمارے لئے یہ مغالطے کوئی نئی بات نہیں ۔ ہم جب طالبِ علم تھے تو ہماری ہر کلاس میں دو یا تین عمران ہوتے تھے۔ اب کوئی سر یا میڈم حکم دیتے کہ عمران یہ سبق بلند ٓواز میں پڑھے تو ادب کے پُتلے ایک دم سے تین چار لڑکے کھڑے ہو کر پڑھنے لگ جاتے تھے۔پھر میڈم یا سر کو وضاحت کرنی پڑتی کہ فلاں عمران پڑھے اور باقی تشریف رکھیں۔کبھی کوئی سر یا میڈم ایسا سوال پوچھ لیتے جس کا جواب کسی کو نہ ٓتا ہوتا تو ہرعمران یہی سمجھتا کہ استاد کو جواب دینا اخلاقیات سے بعید بات ہے۔ سو وہ یہ تصور کر لیتا کہ اس نے سنا ہی نہیں اور یہ کہ استاد کا مخاطب بس وہی نہیں باقی سب ہیں۔ جس کا پرچہ ٹھیک نہیں ہوتا تھا وہ ااپنا مکمل نام پرچے پر لکھنے سے گریز کرتا تھا کہ شاید کوئی چانس بنے اور نمبر آپس میں تبدیل ہو جائیں ۔ابنِ ریاض نام رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عمران بہت عام نام ہے ۔ کبھی لوگ ہمیں کھلاڑی سمجھتے، کبھی سیاست دان اور کبھی مشہور عالم جاسوس۔بس لوگ ہمیں کالم نگار اور مصنف تسلیم نہیں کرتے تھے سو ہم نے اپنا نام بدل کر ابنِ ریاض رکھ دیا۔اس کاپہلا فائدہ تو یہ ہوا کہ ہم بیٹھے بیٹھے اپنے پسندیدہ مصنف ابنِ انشا مرحوم و مغفور کے بھتیجے ہو گئے۔فیس بک پر دھڑا دھڑ ہمیں دوستی کی فرمائشیں ہونے لگیں اورجب انھیں حقیقت معلوم ہوتی تو بےمروت لوگ نئے تعلقات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایسے جاتے تھے جیسے ہمارے ملک میں بجلی جاتی ہے اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔
ابنِ نیاز کو بھی ہم نے ہی قلمی نام رکھنے کا مشورہ دیا تھا ۔اس وقت ہمیں علم نہیں تھا کہ اسکے اور میرے والد بھی ہم قافیہ ہیں ورنہ ہم ایسی حرکت نہ کرتے۔ہمیں گلہ بس یہ ہے کہ ہمارے کالم تو ابنِ نیاز کے نام سے اکثر چھپے ہیں مگر اس کا کالم کبھی ہمارے نام سے نہیں چھپا ۔ ٓج والا واقعہ بھی اس لئے ہوا کہ دونوں کے کالم اکٹھے تھے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر ابنِ نیاز ہمارا ہم جماعت ہوتا تو خدا جانے کیا ہوتا؟ شاید ہمارے نمبر لے کر یہ انجینئر ہوتا اور ٓج سعودی عرب میں بیٹھا ہوتا اور ہم عوام کاتیل نکال رہے ہوتے۔تاہم اگر ہمیں پرچہ نہ آتا ہوتا تو ہم اپنے پرچے پر ابنِ نیاز کا نام لکھ دیتے۔
ناموں اور شکلوںکا مغالطہ قریب قریب سبھی کو ہوتا ہےوہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہو گا کہ ایک گھر میں دو جڑواں اور ہم شکل بچے رہتے تھے۔ ایک دن والد گھر آئے تو دیکھا کہ ایک بچہ زوور و شور سے رو رہاہے اور دوسرا قہقہے لگا رہا ہے ۔ والد نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو جو بچہ خوش تھا وہ بولا کہ بابا ہم دونوں شرارتیں کر رہے تھے تو ماما کو غصہ آ گیا ۔ انھوں نے دونوں بار اس کی پٹائی کر ددی ۔یہاں سعودی باشندوں کی اکثریت ہمیں (ڈیل ڈول اور رنگت سے ) بھارتی یا بنگالی سمجھتی ہے تو ایڈیٹرصاحب نے بھی کل بھوشن والا کالم ہمارے نام لگا کر حرمین اور سعودی عرب سے اپنی یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔
ہم قافیہ الفاظ بھی اکثر مغالطے میں ڈال دیتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں سیہون میں لال شہباز قلندر کے مزار پر خودکش حملہ ہوا تھا۔ امریلی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے سیہون کو سویڈن بول دیا تھا اور ساری دنیا میں ایک لمحے کے لئے کھلبلی مچ گئی تھی۔ خود سویڈن والے پریشان تھے کہ ایسا دھماکہ کہاں ہوا ہے جس کا ہمیں معلوم نہیں مگر ٹرمپ کو اتنی دور سے خبر ہو گئی۔برسوں پہلے کا واقعہ ہے کہ ہماری ایک خالہ گائوں سے ہمارے ساتھ رہنے آئی تھیں۔ ہم لوگ گلی میں کھیل رہے تھے۔ بچوں میں ایک لڑکا کا پیار کا نام مون تھا اور سب اسے بار بار پکار رہے تھے۔ ہماری خالہ کچھ دیر تو سنتی رہیں پھر ہماری والدہ سے پوچھنے لگیں۔ یہ بچے لُون لُون ( پنجابی میں نمک کو لُون کہتے ہیں ) کیوں کر رہے ہیں ۔ نوے کی دہائی کی بات ہے کہ ہم لوگ لاہور میں تھے۔ لاہور میں ان دنوں بھارتی ٹی وی دور درشن کی نشریات آتی تھیں۔ جبکہ اٹک جہاں ہم مقیم تھے وہاں صرف پی ٹی وی پشاور آتا تھا اور کبھی کبھی پی ٹی وی اسلام آباد۔ ایک مرتبہ لاہور میں ہم لوگ دور درشن دیکھ رہے تھے اور گانوں کا پروگرام لگا ہوا تھا۔ایک گانا آیا تو میری والدہ نے ماموں سے پوچھا کہ ای کشور اے(یعنی کہ کیا یہ گانا کشور کمار گا رہاہے)۔ ماموں کسی خیال میں تھے انھوں نے جواب نہیں دیا۔ والدہ نے دوبارہ پوچھا تو میری نانی مرحومہ بولیں۔(اے بھارت لگا پیا تو تو پشور پشور پئی کرنی ایں ) یعنی کہ یہ بھارتی چینل لگا ہوا ہے اور تم پشور پشور (پشاور)کر رہی ہو۔