معین صاحب کثیر الجہت فنکار تھے۔اداکار، گلوکار اور بہترین میزبان بھی تھے۔ ان کا فنی سفر 1966 سے شروع ہوا اور ان کی وفات تک جاری رہا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ابتدائی فنکاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے اور اس دور میں جب ریکارڈنگ کی سہولت نہیں تھی اور براہ راست اداکاری یا میزبانی ہوتی تھی انھوں نے اپنا لوہا منوایا۔ ان کی موجودگی کسی بھی ڈرامے پروگرام یا شو کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ اسی اور نوے کی دہائی میں جب صرف پاکستان ٹیلی ویژن ہوتا تھا انھوں نے کئی لازوال پروگرام کیے۔ آنگن ٹیڑھا میں بھی ان کا کرایہ دار کا کردار تھا۔ منظور دانا والا کو کون بھول سکتا ہے اور ان سب سے بڑھ کر مس روزی۔ سٹوڈیو ڈھائی، سٹوڈیو پونے تین،پی ٹی وی کی سلور جوبلی اور 1999 میں کارگل کے شہداء پر خصوصی پروگرام کے میزبان معین اختر صاحب ہی تھے۔ ان کی میزبانی میں ان کے برجستہ و شائستہ مزاح کا حصہ تھا تو ان کی اداکاری میں ان کا مشاہدہ اور کردار میں ڈوب جانے کی صلاحیت کا کردار تھا۔ اس کے علاوہ وہ نقال بھی بہت ہی کمال کے تھے۔ اور اس صلاحیت کی بنا پر انھوں نے کئی یادگار پیروڈیز بھی کیں۔ ان کا موازنہ کسی بھی ملک کے کسی بھی دوسرے اداکار سے کیا جا سکتا ہے۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بھارتی شوز کی میزبانی کے لئے بھی انھیں ہی مدعو کیا جاتا تھا اور جب پاکستان بھارت کے تعلقات کشیدہ ہونے کے باعث ان کا وہاں آنا ممکن نہ ہوتا تو کئی شو دوبئی اور دوسرے ممالک میں بھی کئے گئے۔ اختتامی ایام میں’ ڈارلنگ’ پروگرام میں خالد عباس ڈار نے ان سے پاکستانی اداکاروں کے بھارت جانے کی بابت پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تو بھارت تب ہو آئے تھے جب اداکاروں کی ہجرت کا تصور بھی نہ تھا مگرنئی جگہ جانا، نئے ماحول میں کام کرنا ان کے لئے کچھ معیوب بھی نہیں تھا۔ تاہم ان کو ایک بار ایک کامیڈی شو میں منصف کے فرائض دینے کی پیشکش ہوئی تو انھوں نے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ اگر میں سنجیدہ رہا تو وہ مغرور جانیں گے اور اگر میں بات بے بات مسکرایا تو کہا جائے گا کہ ہر کسی کا کام اسے پسند آ رہا ہے تو یہ فیصلہ کیسے کرے گا تو میں نے منع کر دیا کہ ایسا کام کرنے کا کیا فائدہ جو ہر صورت متنازع ہی رہنا ہے’۔
یہ سب خوبیاں تھیں کہ جن کے باعث معین صاحب کا شمار اب بھی پاکستان کے سب سے بڑے اداکاروں میں ہوتا ہے اور نئے اداکار اور میزبانوں کے لئے مشعل راہ ہیں مگر ان کی اصل خوبی ان کی انسانیت تھی۔ انھیں اللہ نے بہت دیا مگر ان کی گردن میں کبھی سریا نہیں آیا۔ وہ ہر کسی سے اسی شفقت و احترام سے ملتے تھے۔ اپنے ہم عصروں کی تعریف دل کھول کر کرتے تھے اور کبھی اس میں بخل نہیں دکھایا۔
ان کے تمام پروگرام خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا مزاح مہذب اور شائستہ تھا۔ وہ مذاق کرتے تھے، مذاق اڑاتے نہیں تھے۔ اس کے علاوہ بہت ہی نرم دل اور خدا ترس تھے۔ بہت سے لوگوں کی وہ مدد کرتے تھے جس کا پتہ ان کی وفات کے بعد چلا جبکہ ساتھی فنکاروں کا بھی بہت احساس تھا انھیں۔ خالد انعم نے کہا تھا کہ وہ محض نام کے ہی معین نہیں تھے بلکہ حقیقتًا ہر کسی کے مددگار تھے۔ کئی اداکاروں کی مالی معاونت کے لئے انھوں نے شو کیے اور ان سے حاصل ہونے والی رقم ان کی مدد کے لئے استعمال کی گئی۔
شخصیت بھی ان کی انتہائی پر کشش تھی۔ چہرے پر نورانی مسکراہٹ اور اس پر خوش لباسی۔ ان کے لہجہ بھی کمال تھا اور اس پر امتزاد ان کی مدلل گفتگو۔ کسی بھی موضوع پر ان کے خیالات جان لیجیے وہ بہت ہی خوبصورت انداز میں اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے تھے۔
معین اختر سے ایک انٹرویو میں سوال سے قبل ‘ ایک لڑکا’ نظم پڑھی گئی تھی اوسوال کیا گیا تھا کہ کیا آپ کے بچپن میں بھی کچھ اس سے مماثل تھا تو انھوں نے کہا کہ جواب سے پہلے میں یہ بتا دوں کہ میری زندگی میں ابنِ انشاء کی بہت اہمیت ہے کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں جو پہلا انعام جیتا تھا وہ ایک تقریری مقابلہ تھا اور اس میں انعام مجھے ابنِ انشاء نے ہی دیا تھا۔ ہماری نظر میں تو معین اختر کی عزت اور بڑھ گئی یہ اقرار سن کر۔
ہماری نظر میں معین اختر صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان جیسے ملک میں بغیر اسکینڈل کے زندگی گزارنا ہے۔ ایسا خطہ کہ جہاں قائد اعظم، ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور عبد الستار ایدھی جیسے لوگ اسکینڈلز سے نہ بچ سکے، یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ نوے کی دہائی میں ان کے ایک اداکارہ سے عشق کے چرچے کچھ دن ضرور رہے تھے مگر یہ بات بعد میں افواہ ہی ثابت ہوئی تھی۔
کراچی کو ہم جن لوگوں کی وجہ سے محترم شہر گردانتے ہیں ان میں اب معین اختر بھی شامل ہیں۔ اس سے قبل یہ فہرست قائد اعظم، ابن انشاء اورحکیم محمد سعید پر مشتمل تھی۔