تحریر:شاہد لطیف
( 1924 سے 22 مارچ 2007 )
6 نگار ایوارڈ اور تمغہ حسن کارکردگی ( 1994 ) حاصل کرنے والے
میری نثار بزمی صاحب سے ڈرامائی ملاقات
میں نے 1981 کے اوائل میں اخبارات میں پڑھا کہ ملک کے نامور موسیقار نثار بزمی لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ اور یہ بھی کہ ای ایم آئی پاکستان، کراچی اسٹوڈیوز میں گلوکارہ رونا لیلی سے ایک تجرباتی دھمال ریکارڈ کروا رہے ہیں۔
خاکسار نے 1978 میں اپنا پہلا کام، صدا بندی ، ڈسک کٹنگ ، کیسٹ ماسٹرنگ وغیرہ ای ایم آئی سے ہی سیکھا تھا۔ اس زمانے میں عباسی صاحب فیکٹری منیجر، عزیز صاحب چیف ساؤنڈ انجینئر اور منصور بخاری صاحب ( زیڈ اے بخاری صاحب کے چھوٹے بھائی ) یہاں کے منیجنگ ڈائرکٹر تھے۔
1981 کا ذکر ہو رہا ہے، میں ا س وقت پی ٹی وی کراچی مرکز میں معاون پروڈیوسر کی حیثیت سے شعبہ پروگرامز سے منسلک تھا۔ پروڈیوسر، سلطانہ صدیقی سے بات کی کہ کیوں نہ اپنا ہفتہ وار موسیقی کا پروگرام ”سر سنگم“ نثار بزمی صاحب سے کروایا جائے۔
یہاں ایک دلچسپ بات لکھتا چلوں کہ جس سازندے سے بھی اس بات کا ذکر کیا اس نے ایک ہی بات دہرائی کہ بزمی صاحب بہت ہی سخت طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں ایک روز دن کے گیارہ بجے ای ایم آئی کراچی اسٹوڈیوز کے انجینئر غیاث جیلانی اور Artist and Repertoire Manager ارشد محمود ( انہوں نے بعد میں پی ٹی وی کراچی مرکز سے اداکاری کی اور گیتوں، غزلوں کی موسیقی بھی ترتیب دی ) صاحب سے ملنے گیا اور اپنا مقصد بیان کیا۔ مشورہ یہ ہوا کہ بہتر ہو گا کہ اس پروگرام کے لئے بزمی صاحب سے میں خود بات کروں۔ یوں اسٹوڈیو کے کنٹرول روم میں پہلی دفعہ اس شخصیت کو دیکھا جس کو زمانہ نثار بزمی کے نام سے جانتا تھا۔
گلوکارہ اور سازندے اپنے اپنے کام سے فارغ ہو چکے تھے اور بزمی صاحب مکسنگ کروا رہے تھے۔ میں نے اندر داخل ہو کر بہ آواز بلند السلام علیکم کہا۔ انہوں نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا اور انہماک سے کام میں مصروف ہو کر مجھ سمیت اطراف سے لاتعلق سے ہو گئے۔ کسی وجہ سے کچھ دیر کو کام رکا تو میری طرف رخ کر کے آنے کا مقصد پوچھا۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا: ”بزمی صاحب! آپ کے بارے میں جو سنا تھا ویسے ہی پایا“ ۔
اس بات پر تھوڑا سا مسکرائے اور پوچھا ”کیا سنا تھا؟“ ۔
میں نے جوابا کہا ”یہ کہ بزمی صاحب بہت سخت اور غصہ والے ہیں“ ۔
اس بات پر دوبارہ مسکرا کر بولے ”دیکھو میاں! کسی نے پیسے دے کر اسٹوڈیو کی شفٹ لی ہوئی ہے۔ اب اس خریدے گئے وقت کو تمہارے ساتھ باتوں میں گزارنا پرلے درجے کی بد دیانتی ہوتی۔ ہاں! البتہ اب اس مختصر وقفہ میں ادھر ادھر کی بات کرنے یا چائے پینے میں کوئی ہرج نہیں“ ۔
ایسی بات کسی اس پائے کے شخص سے میں نے پہلی مرتبہ ہی سنی۔
راقم نے موسیقی کے پروگرام ”سر سنگم“ کے بارے میں بتایا اور ایک پروگرام ان سے کروانے کی خواہش ظاہر کی۔ ابھی میری بات ختم بھی نہ ہوئی ہو گی کہ انہوں نے فوری سوال داغ دیا:
” میاں تم ہی بتاؤ! تم کیا سوچ کر آئے ہو؟ میں یہ پروگرام کروں گا؟“ ۔ ان کے سوال نے تو چکرا کر رکھ دیا۔
” میرے حساب سے تو آپ نہیں کریں گے“ ۔ جوابا کچھ سچ ہی کہنا پڑا۔
” میں اپنی چند ایک شرائط کے ساتھ یہ پروگرام کر لوں گا“ ۔ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ نرم لہجے میں کہ انہوں نے کہا۔
پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے :
” پہلی بات یہ کہ جو گلوکار یا گلوکارہ طے ہو جائیں پھر تبدیل نہیں ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ اس پروگرام کی باقاعدہ ریہرسل میرے گھر میں ہی ہو گی۔ تیسرے یہ کہ جو دھن اور بول منتخب ہو جائیں گے وہ قطعاً تبدیل نہیں ہوں گے“ ۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں! میں نے فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر اس کے بعد انہوں نے اپنی مشہور زمانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا :
” ایک اور بھی شرط ہے“ ۔
اس وقت میرے ذہن میں فوری خیال آیا کہ اب وہ توقع سے کہیں زیادہ پیسے مانگنے کی بات کریں گے۔
” میاں تم نے بتایا تھا کہ اسی ای ایم آئی میں تم نے کام سیکھا ہے، گویا موسیقی کی ابجد سے کچھ واقفیت تو ضرور ہونا چاہیے، لہذٰا اب تم اس پروگرام کی تیاری میں ہر ایک مرحلہ میں میرے ساتھ موجود رہو گے“ ۔ اب انہوں نے کن معنوں میں یہ بات کہی، میں نہیں جانتا البتہ اس خوبصورت شرط کی بدولت 15 دن میں نے بزمی صاحب کی دہلیز پکڑ لی۔
بزمی صاحب کا سلطانہ صدیقی اور میرا پروگرام ”سر سنگم“ کرنا:
بہر حال میں بزمی صاحب سے اپنی اس پہلی ملاقات کے بعد گراموفون کمپنی آف پاکستان کے اسٹوڈیو سے بھاگم بھاگ واپس پی ٹی وی آیا اور یہ معرکہ سلطانہ صدیقی کو سنایا جو بہت خوش ہوئیں۔ پھر اس وقت کے اسکرپٹ ایڈیٹر جناب مدبر رضوی صاحب سے ملاقات کی کہ بزمی صاحب کے لئے کس شاعر کو بلوایا جائے کیوں کہ بزمی صاحب کا کہنا تھا کہ بعض گیت دھن پر بھی لکھے جائیں گے۔
طے ہوا کہ ایک گیت میرؔا جی کا لیا جائے ایک عمران رزاقی کا جو اس وقت پی ٹی وی میں میرے ساتھ معاون پروڈیوسر تھا اور خاصہ اچھا شاعر تھا۔ باقی تمام گیت صابر ؔ ظفر صاحب سے لکھوا ئے جائیں۔ صابر ؔ ظفر کو بھی شاباش ہے کہ ایک ایسے شخص کے ساتھ کام کیا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کے ساتھ کام کرنا تقریباً نا ممکن سی بات ہے۔ انہوں نے میرے سامنے ریکارڈ وقت میں بزمی صاحب کے لئے دھن پر اور دھن کے بغیر، بہت عمدہ گیت لکھے۔
گلوکارہ عابدہ پروین نے اپنے اول اول اردو گیت بھی اسی موسیقی کے ہفتہ وار پروگرام ”سر سنگم“ میں پیش کیے تھے۔ میراؔ ؔجی کے اس گیت کو عابدہ پروین کی آواز میں صدا بند کیا گیا:
مورکھ من کو کون سجھائے، کون اب دھیر بندھائے
کیسے بات بنے جب، بگڑی بات نہ کوئی بنائے
عمران رزاقی کا گیت گلوکار محمد علی شہکی کی آواز میں صدا بند ہوا :
محبتوں کے چراغ لے کر یہ لوگ جانے کہاں گئے ہیں
نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ عمران رزاقی جیسا ذہین شخص، کچھ عرصہ بعد ’تہرے‘ قتل کے ایک جرم میں سینٹرل جیل کراچی چلا گیا اور وہاں خود پراسرار طور پر قتل ہو گیا۔
گلوکار امجد حسین، تحسین جاوید، فاطمہ جعفری، ٹینا ثانی، ماریہ حسین، یوسف لاثانی، جمال، ابراہیم ڈاڈا وغیرہ نے بھی اپنی اپنی جگہ بزمی صاحب کی دھنوں کا حق ادا کر دیا۔
اس زمانے میں صدا بندی کے لئے موزوں ریکارڈنگ میوزیشنوں میں وائلن بجانے والوں کی بڑی اہمیت تھی۔ ان میں مظہر حسین المعروف مظہر بھائی، مقصود بھائی، اشرف بھائی، منظور حسین اور سعید احمد کے نام تھے۔ بزمی صاحب نے مجھے مظہر بھائی کا نام دے کر ان کو بلوایا جو میوزک نوٹیشن لکھ اور پڑھ سکتے تھے اور انفرادی سولو وائلن بجانے کے مظاہرے کے سلسلہ میں بیرونی ممالک میں جا کر پاکستان کا نام روشن کر چکے تھے۔ موصوف بہت نفیس آدمی تھے، اس خاکسار سے بہت پیار کرتے تھے۔ مجھے وائلن کی معمولی سی شد بد تھی۔ صبح کا راگ ’بھیرو‘ بجا لیا کرتا تھا۔ اتنے بڑے وائلن نواز کے وائلن کو ہاتھ لگانا ہی میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔
پی ای سی ایچ سوسائٹی کا رہنے والا میرا گٹارسٹ دوست فرخ عابد بہت حیران اور پریشان ہوا جب میں نے اس کو بزمی صاحب کا پیغام پہنچایا کہ اس پروگرام کی ریکارڈ نگ کی ریہرسل میں آ جاؤ۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے لکھتا چلوں کہ میں نے بھی بزمی صاحب سے اس لڑکے کے بلوانے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ اس کے ہاتھ میں بہت صفائی ہے۔ یہ بالکل وہی نتیجہ دے سکتا ہے جو وہ چاہیں گے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بزمی صاحب نے پہلے ہی سے بہتر سے بہتر بلکہ بہترین سازندوں کی معلومات کر لی تھیں۔
اس پروگرام کی ایک دو یادگار باتیں اور بھی ہیں۔ ہماری فلمی صنعت کے مشہور موسیقار جناب ماسٹر عنایت حسین کے بیٹے راحت، خاص طور پر لاہور سے اپنا ڈرم سیٹ لے کر آئے تھے۔ میرے دوست روح الدین خان عرف رونی جو اس وقت کراچی کے معروف ہوٹلوں میں الیکٹرانک کی بورڈز بجایا کرتے تھے، ان کو بھی بلوایا گیا۔ روبن جون ایک ذہین کی بورڈ پلیئر تھا اور اس وقت موسیقار کریم شہاب الدین صاحب کے ساتھ کام کرتا تھا۔
میں نے بزمی صاحب سے ذکر کیا کہ روبن پڑھا لکھا سمجھ دار اور مزید سیکھنے کی طلب رکھنے والا ایک محنتی نوجوان ہے۔ اس کو بھی بلوایا گیا۔ یہ مشہور گلوکار ایس بی جون کا صاحبزادہ ہے۔ جون بھائی خود بھی بہت اچھے میوزک کمپوزر ہیں۔ انہوں نے فلم ’سویرا‘ میں موسیقار منظور حسین شاہ عالمی والے کی موسیقی میں فیاضؔ ہاشمی کا لکھا ہوا یہ لازوال گیت صدا بند کروایا تھا:
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسین ہے
پروگرام ”سر سنگم“ کے گیتوں کی صدا بندی شالیمار ریکارڈنگ کمپنی میں ہوتی تھی جو اس وقت ریڈیو پاکستان کراچی کی مشہور گلوکارہ نگہت سیما کے گھر، گلشن اقبال میں واقع تھی۔ یہاں ساونڈ انجینئر جناب شریف، اکبر قریشی اور سلیم قریشی نے بڑی جانفشانی سے بزمی صاحب کے تمام گیتوں کی صدا بندی کی۔ پھر معمول کے مطابق ٹیلی وژن کراچی کے ’بی‘ اسٹوڈیو میں اس پروگرام کی ویڈیو ریکارڈنگ ہوئی اور یہ نشر بھی ہو گیا۔
علاوہ ازیں بزمی صاحب کی موسیقی میں ای ایم آئی پاکستان نے مسرت نذیر کی آواز میں ایک آڈیو کیسٹ تیار کی تھی جو بعد میں پی ٹی وی سے ویڈیو ریکارڈنگ کے ساتھ بھی نشر ہوئے۔ یہ کیسٹ اور ویڈیو دونوں بے حد مقبول ہوئے : ”پچھے پچھے آندا میری چال ویندا آئیں، چیر والیا ویکھدا آئیں وے میرا لونگ گواچا“ ۔
بزمی صاحب کے ہاں سحر زدہ صبح و شام:
ان دس بارہ دنوں میں علاوہ اس ایک کام کے، مجھے تو کچھ بھی یاد نہیں۔ میں شاعر تو نہیں، لیکن ان میں اٹھا بیٹھا ضرور ہوں۔ بزمی صاحب کے ہاں بسر ہوئے صبح شام میں نہ تو تن کا ہوش رہا نہ ہی کھانے پینے کی کوئی چاہ۔ بزمی صاحب کے ساتھ گزرا یہ مختصر سا عرصہ میری زندگی کا بہترین دور ہے۔ بزمی صاحب کو موسیقار کی حیثیت سے ایک عالم جانتا ہے، مگر میں نے اس پروگرام کے بعد جس نثار بزمی کی دہلیز پکڑ لی وہ ایک ایسی بزم تھی جس پر ہر وقت نثار ہو جانے کو دل چاہے۔ نہایت سیدھے سادھے، صاف گو، اجلے من والے نیک انسان تھے۔ ایک میں ہی نہیں، جو بھی ان سے ایک دفعہ ملا، بار بار ملا۔ ان کی شخصیت میں ایک ایسا تاثر، ایسا سحر تھا کی دل ان کی جانب کھنچتا تھا۔
بزمی صاحب ایک شفیق باپ اور ذمہ دار شوہر بھی تھے۔ گھر میں مرغیاں اور مرغے پال رکھے تھے۔ چونکہ خود سادہ طبیعت والے تھے لہٰذا گھر بار میں سادگی نظر آیا کرتی۔ بڑے بیٹے کا نام وقار تھا جس کی مناسبت سے آپ کے مکان پر ’الوقار‘ کی تختی لگائی گئی تھی۔ دو چھوٹے بیٹے جڑواں تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان کی اولاد میں سے کوئی ایک بھی موسیقی سے رغبت نہیں رکھتا تھا۔
سید نثار کی ابتدا:
جل گاؤں، ریاست مہاراشٹرا، بھارت میں سید قدرت علی کے ہاں 1924 کو بچے کی پیدائش ہوئی۔ سید نثار احمد نام تجویز ہوا۔ کسے معلوم تھا کہ آگے چل کر یہ برصغیر پاک و ہند میں نام کرے گا۔ ابھی گیارہ بارہ سال کی عمر ہو گی کہ معاشی مسائل سے نبٹنے کی خاطر ان کو ( اس وقت ) بمبئی کی ایک نامور قوال پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا پڑی۔ سر تال خدائی عطیہ تھا جب کہ موسیقی کے اسرار و رموز سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ تب قسمت نے یاوری کی اور 1930 کے اواخر میں بمبئی کی موسیقی میں اہم شخصیت خان صاحب امین علی خان کی شاگردی میں چار سال رہے۔ یوں محض 13 سال کی عمر میں مروجہ راگ راگنیوں اور آلات موسیقی میں خاصی مہارت حاصل کر لی۔ 1939 میں صرف 15 سال کی عمر میں آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ ہو گئے۔ یہیں ( بمبئی ) کے ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والے ڈراموں میں گیتوں کی طرزیں بھی بنائیں۔ ان کی بنائی ہوئی دھنوں پر رفیق غزنوی اور امیر بائی کرناٹکی جیسے نامور موسیقاروں اور فنکاروں نے گایا۔ یہ معمولی بات نہیں۔ ایسے کامیاب کام کے بعد سید نثار کی ماہانہ تنخواہ بڑھا کر پچاس روپے کر دی گئی جو اس وقت ایک معقول رقم مانی جاتی تھی۔
نثار بزمی صاحب کے تذکروں میں یہ بھی ملتا ہے کہ 22 سال کی عمر میں فلم ”جمنا پار“ ( 1946 ) کے گیتوں کی طرزیں بنائیں۔ ہندوستان میں انہوں نے چالیس فلموں کی طرزیں ترتیب دیں۔ یہ انہوں نے 1946 سے 1961 کے دوران ترتیب دیں۔ لیکن فلمی دنیا میں اپنی کوئی خاص شناخت نہیں بنا سکے۔ مجھے انہوں نے خود بتایا کہ زیادہ تر ان کو ’دھارمک‘ یعنی دھرم سے متعلق فلمیں ہی ملیں۔ یہ ہلکے بجٹ کی ’سی کلاس‘ فلمیں مانی جاتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فضل احمد کریم فضلی صاحب کا ان کو اپنی فلم ” ایسا بھی ہوتا ہے“ میں طرزیں بنانے کی پیشکش کرنا ان کی زندگی کا ایک خوشگوار موڑ ہے۔ مذکورہ فلم کی ریلیز سے کہیں پہلے اس فلم کے گیت ریڈیو پاکستان میں بہت مقبول ہو گئے۔ یوں ”ایسا بھی ہوتا ہے“ نے راتوں رات بزمی صاحب کو تیسرے درجے سے نکال کر صف اول کے موسیقاروں کی صف میں کھڑا کر دیا۔
ان کے تذکروں میں ملتا ہے کہ وہ 1962 میں کسی شادی میں شرکت کرنے پاکستان آئے۔ یہاں سے آگے کیا ہوا کچھ ان کی اپنی زبانی :
” مجھے جب پاکستان میں فلم کی پیشکش ہوئی تو میں بہت حیران ہوا کہ میں تو ہندوستان کا شہری ہوں! مجھے بتلایا گیا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وقت گزرا اور فلم“ ایسا بھی ہوتا ہے ”کے گانے بہت ہٹ ہوئے۔ اور مجھے اور بھی فلموں کی پیشکشیں ہونے لگیں۔ تب میں نے سوچا کہ ہندوستان میں ایک زمانے سے میں تیسرے درجے کی بجٹ والی فلموں کا موسیقار ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں پاکستان میں پہلی ہی فلم نے مجھے صف اول کا موسیقار بنا ڈالا لہٰذا فیصلہ کر لیا کہ اب باقی زندگی انشاء اللہ پاکستان میں گزاروں گا“ ۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ کی ریلیز سے پہلے ہدایتکار اور فلمساز نذیر صوفی کی فلم ”ہیڈ کانسٹیبل“ 25 ستمبر 1964 بروز جمعہ ریلیز ہو گئی۔ جبکہ ”ایسا بھی ہوتا ہے“ 3 فروری 1965 کو ریلیز ہوئی۔ یوں فلم ”ہیڈ کانسٹیبل“ پاکستان میں بزمی صاحب کی پہلی ریلیز فلم ہے۔ یہ 25 ستمبر 1964 بروز جمعہ ریلیز ہوئی۔
پاکستان میں بزمی صاحب کا پہلا فلمی گیت:
انٹر نیٹ پر مختلف جگہوں پر یہ ملتا ہے کہ پاکستان میں بزمی صاحب کا صدا بند ہونے والا پہلا فلمی گیت نورجہاں اور احمد رشدی کی آواز میں فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ کا دوگانا ”محبت میں تیرے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ہے۔ جبکہ مجھ کو بزمی صاحب نے خود بتایا کہ ان کا پہلا فلمی گیت اسی فلم کا نورجہاں اور ساتھیوں کی آواز میں ”آئے آئے آئے، بہار کے دن آئے سنگھار کے دن آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ہے۔ جگہ کی کمی آڑے آتی ہے ورنہ پاکستان میں ان کے پہلے فلمی گیت ’آئے آئے آئے، بہار کے دن آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ کا پس منظر بھی بیان کرتا۔
گیت نگار مسرورؔ انور اور علی سفیان آفاقیؔ:
بزمی صاحب نے مجھے جناب مسرورؔ انور المعروف مسرورؔ بھائی سے ملوایا۔ مسرور ؔبھائی کے ساتھ میری کئی مجالس رہیں۔ یہ جب بھی کراچی آتے ضرور اطلاع کرواتے۔ میں بھی جب جب لاہور جاتا وہ بے پناہ چاہتوں اور گرم جوشی سے ملتے۔ میں بزمی صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے جناب علی سفیان آفاقیؔ سے ملوایا۔ ان سے یہ میرا ملنا، بہت اہم اور نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ وہ ایسے کہ اس وقت جو آپ یہ سطور پڑھ رہے / رہی ہیں وہ ان کی اس کمتر پر نظر عنایت اور حوصلہ افزائی کی مرہون منت ہے۔
یہ سب بہت ہی عظیم لوگ تھے۔ ۔ ’فیملی میگزین‘ جس دن پریس میں جاتا، میں اس سے اگلے روز میں آفاقیؔ صاحب کے دفتر میں چلا جاتا۔ وہ مجھ کو وقت دیتے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ آفاقیؔ صاحب اخبار ’آفاق‘ کی مناسبت سے آفاقی ؔکہلاتے تھے لیکن مجھے تو وہ خود ایک آفاق نظر آئے۔ کیا ادارت، کیا فیچر، کیا رپورٹنگ، کیا منظر نامہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماشا اللہ کتنا اچھا حافظہ پایا۔ انداز بیان ایسا بے ساختہ کہ جناب کیا ہی کہنے۔ بات سے بات پھر اس بات کے اندر سے بات نکالنے کا آفاقیؔ صاحب کو ملکہ حاصل تھا۔
بزمی صاحب بحیثیت شاعر:
مضراب کی حرکت تیز ہوئی تاروں میں ہوئی بے چینی سی
اک درد بھرا نغمہ ابھرا، پھر ساز سدا خاموش ہوا
درج بالا شعر نثار بزمی کا ہے۔ پاکستان کے فلمی حلقوں میں وہ نظمیں، غزلیں اور قطعات کہنے والے شاعر بھی گردانے جاتے ہیں۔ ان کے ایک پرستار اور شاگرد، شمیم بازل صاحب نے 1990 کی دہائی میں ان کی شاعری کی مختلف اصناف پر مشتمل مجموعہ کلام ’پھر ساز سدا خاموش ہوا‘ بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کروایا۔ بزمی صاحب کی شاعری کے چند نمونے درج ذیل ہیں :
مسلمان:
ہمالہ کی چوٹی پہ تھا ایک پتھر
گرا اتفاقا وہاں سے لڑھک کر
کسی نے جو پوچھا کہ اے بے حقیقت
بھلا راس آئی نہ کیوں تجھ کو رفعت
کہا اپنے مرکز سے میں ہٹ گیا ہوں
اسی واسطے ٹھوکروں میں پڑا ہوں
قوم کی بنیاد:
اک قوم کی بنیاد پہ یہ ملک بنا تھا
اب خیر سے آباد ہیں اس ملک میں قومیں
اسلام ہے دیں ان کا مگر خود کو مسلماں
کہنے کا روادار نہیں ایک بھی سو میں
پنجاب بھی اک قوم ہے مہران بھی اک قوم
اک قوم ہے سرحد تو بلوچستان بھی اک قوم
ان قوموں نے د و قومی نظریے کی نفی کی
قائد کو نگاہوں سے گرانے کی سعی کی
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں نثار بزمی نے 67 فلموں میں 340 نغمات کی موسیقی ترتیب دی۔ وہ پاکستانی فلمی دنیا میں 1964 سے 1989 تک فعال رہے۔
بزمی صاحب کی کچھ یادگار فلمیں :
مشترکہ فلمساز افضل حسین اور رضا میر، اور ہدایتکار رضا میر کی سلور جوبلی فلم ”لاکھوں میں ایک“ ( 1967 ) اس فلم میں ایک سے بڑھ کر ایک گیت تھے : ’بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا، ورنہ تیرے بنا بے رنگ تھے دن رات پیا‘ گیت نگار حضرت تنویرؔ نقوی، آواز نورجہاں، ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے، اک بھول ہی تھا میرا پیار او ساجنا، گیت فیاض ؔہاشمی، آواز نورجہاں،‘ دل دیا درد لیا آنکھ میں آنسو آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’گیت مسرورؔ انور، آواز مہدی حسن،‘ حالات بدل نہیں سکتے، ان راہوں میں جیون بھر ہم ساتھ چل نہیں سکتے ’، گیت مسرورؔ انور، آواز نورجہاں،‘ ہو سن ساجنا دکھی من کی پکار ہوا بیری سنسار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’گیت مسرورؔ انور، آواز نورجہاں،‘ ساتھی کہاں ہو آواز تو دو پل پل میرا پیار پکارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’دوگانا: آوازیں نورجہاں اور مجیب عالم۔
علی زیب پروڈکشن اور ہدایتکار ایس سلیمان کی گولڈن جوبلی فلم ”آگ“ ( 1967 ) میں گیت نگار مسرورؔ انور کے سات میں سے پانچ گیت سپر ہٹ ہوئے۔ یہ گیت نورجہاں، مالا، آئرین پروین، مہدی حسن اور احمد رشدی نے ریکارڈ کروائے۔ ’بیتے دنوں کی یادوں کو کیسے میں بھلاؤں اے دل کیسے میں بھلاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، آواز نورجہاں، ’لئے آنکھوں میں غرور ایسے بیٹھے ہیں حضور، جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں‘ آواز احمد رشدی، ’موسم حسین ہے لیکن تم سا حسین نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ دوگانا: آوازیں مالا اور احمد رشدی،’ یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز مہدی حسن۔
شمیم آرا ء پروڈکشنز کے مشترکہ فلمساز شمیم آرا اور محمد عثمان اور ہدایتکار لئیق اختر کی گولڈن جوبلی فلم ”صاعقہ“ ( 1968 ) کے یہ تین گیت بے حد مقبول ہوئے : ’اے بہارو گواہ رہنا، اے نظارو گواہ رہنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ دوگانا: آوازیں مالا اور احمد رشدی، ’آ جا تیرے پیار میں ہے دل بیقرار، یہ پیاسی نگاہیں کریں تیرا انتظار‘ آواز رونا لیلیٰ، ’اک ستم اور میری جان ابھی جاں باقی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز مہدی حسن۔ مذکورہ فلم کے گیت نگار مسرورؔ انور تھے۔
علی زیب پروڈکشن اور ہدایتکار ایس سلیمان کی سلور جوبلی فلم ”جیسے جانتے نہیں“ ( 1969 ) کے کچھ گیت سپر ہٹ ہوئے : ’ایسے بھی ہیں مہرباں زندگی کی راہ میں جب ملے تو یوں ملے جیسے جانتے نہیں‘ آواز احمد رشدی۔ یہ گیت میرے مطابق احمد رشدی کے یادگار گیتوں میں سے ایک ہے۔ اس کو سننے اور گانے دونوں کا لطف آتا ہے۔ میں نے خود اس کو محفلوں میں بارہا گا کر سنایا۔ اس کے گانے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ کیا خوبصورت بول اور کیا دل نشین طرز ہے! ایک اور مزاحیہ گیت بھی ریڈیو پر مقبول تھا: ’کہنے کو تو آئی سہاگ رات لیکن ایسی رات اللہ کسی کو نہ دکھائے‘ آواز احمد رشدی۔ گیت نگار مسرورؔ انور۔
نگار پکچرز کے فلمساز راشد مختار اور ہدایتکار فرید احمد کی گولڈن جوبلی فلم ”عندلیب“ ( 1969 ) کے بھی بعض گانے سدا بہار ہیں : ’پیار کر کے ہم بہت پچھتائے، اک پل خوشی کی خاطر سو غم اٹھائے‘ آواز نورجہاں، ’میرے دل کی محفل سجا دینے والے تیرا شکریہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ دوگانا: آوازیں نورجہاں اور احمد رشدی، ’کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے، چپ رہ کے بھی نظر میں ہیں پیار کے اشارے‘ یہ نورجہاں اور احمد رشدی نے الگ الگ ریکارڈ کرایا۔ اس فلم کے گیت نگار کلیمؔ عثمانی صاحب تھے۔
فلمساز ایم اے سیفی اور ہدایتکار شریف نیر کی سلور جوبلی فلم ”ناز“ ( 1969 ) میں قتیلؔ شفائی کا ایک گیت مقبولیت کی حدیں پار کرتا ہوا بھارت جا پہنچا۔ وہاں جگجیت سنگھ اور بہت سے دوسرے گلوکاروں نے بھی اس کو بہت شوق سے گایا: ’مجھے آئی نہ جگ سے لاج، میں اتنے زور سے ناچی آج کہ گھنگرو ٹوٹ گئے‘ آواز مالا۔
فلمساز نورالدین کیسٹ اور حسن طارق اور ہدایتکار حسن طارق کی سلور جوبلی فلم ”شمع اور پروانہ“ ( 1970 ) کی ایک خاص بات پلے بیک سنگر مجیب عالم کے سپر ہٹ گیت ہیں : ’میں تیرے اجنبی شہر میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے، مجھ کو آواز دے مجھ کو آواز دے‘ ، ’میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ گیت سیف الدین سیفؔ، ’آج ہے محفل دید کے قابل شمع بھی ہے پروانہ بھی‘ آواز نورجہاں۔
مشترکہ فلمساز حسن طارق اور صفدر مسعود اور ہدایتکار حسن طارق کی پلاٹینم جوبلی فلم ”انجمن“ ( 1970 ) بھی اپنے گیتوں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی: ’آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے‘ گیت مسرورؔ انور، آواز رونا لیلیٰ، ’دل دھڑکے میں تجھ سے یہ کیسے کہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز رونا لیلیٰ۔ یہ رونا لیلیٰ کا پہچان گیت ہے۔ اس نے دنیا بھر میں کہیں بھی جب کمرشل شو کیا تو یہ گانا ضرور گایا اور داد سمیٹی۔ ’اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے، مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے‘ آواز نورجہاں۔
عذرا موویز کی فلمساز عذرا جبیں اور ہدایتکار ایس سلیمان کی سلور جوبلی فلم ”محبت“ ( 1972 ) اپنے لازوال گیتوں کی وجہ سے لازوال ہے : ’یہ محفل جو آج سجی ہے اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے‘ آواز طاہرہ سید، ’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ، آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ‘ غزل احمد فرازؔ آواز مہدی حسن۔
عذرا موویز کی فلمساز عذرا جبیں اور ہدایتکار شیون رضوی کی گولڈن جوبلی فلم ”میری زندگی ہے نغمہ“ ( 1972 ) کے گیت بھی مقبولیت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں : ’اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، دل اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا‘ آواز مہدی حسن، ’تیرا کسی پہ آئے دل تیرا کوئی دکھائے دل، تو بھی کلیجہ تھام کر مجھ سے کہے کہ ہائے دل‘ یہ رنگیلا اور نورجہاں نے الگ الگ ریکارڈ کروایا۔
آر ایچ پروڈکشنز کی فلمساز رابعہ حسن اور ہدایتکار حسن طارق کی مرزا ہادی رسواؔ کے مشہور زمانہ ناول پر مبنی گولڈن جوبلی فلم ” امراؤ جان ادا“ ( 1972 ) پاکستانی فلمی تاریخ کی ایک اہم فلم ہے۔ اس فلم کے کئی ایک گانے تب بھی اور اب بھی مقبول ہیں :
’ آپ فرمائیے کیا خریدیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز رونا لیلیٰ، ’جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں، آخری گیت سنانے کے لئے آئے ہیں‘ آواز نورجہاں، ’کاٹیں نہ کٹیں رے رتیاں سیاں انتظار میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز رونا لیلیٰ، ’مانے نہ بیری بلما ہو مورا من تڑپائے جیارا جلائے‘ آوازیں آئیرین پروین اور رونا لیلیٰ۔
ڈوسانی فلمز کے فلمساز انیس ڈوسانی اور ہدایتکار پرویز ملک کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ”انمول“ ( 1973 ) کے گیتوں کو ریڈیو پر سن کر اور فلم کا ٹریلر دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کامیاب ترین فلم ہو گی۔ لہٰذا پہلے دن کا پہلا شو دیکھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک گیت تھے :
’ ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے اجی پیار میں کیا رکھا ہے، ایسی باتیں نہ کرو جاؤ کھیلو، جاؤ کھیلو لو یہ جھنجھنا‘ دوگانا: احمد رشدی اور رونا لیلیٰ، ’ایسی چال میں چلوں کلیجہ ہل جائے گا، کسی کی جان جائے گی کسی کا دل جائے گا‘ آواز تصور خانم، ’دل سے دنیا کے ہر ایک غم کو مٹا دیتا ہے، پیار انسان کو انسان بنا دیتا ہے‘ آواز مہدی حسن، ’تختی پہ تختی تختی پہ تل کا دانہ ہے، کھیلو جی بھر کے لیکن کل پڑھنے آنا ہے‘ ۔
ڈوسانی فلمز کے فلمساز ا نیس ڈوسانی اور ہدایتکار پرویز ملک کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ”پہچان“ ( 1975 ) کے کچھ گیت ریڈیو اور عوامی ہوٹلوں میں بہت مقبول ہوئے : ’اے دل اپنا درد چھپا کر گیت خوشی کے گائے جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز اخلاق احمد، ’میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ یہ مہدی حسن اور مہناز نے الگ الگ صدا بند کروایا۔ اس فلم کا ایک گیت سرحد پار بھی مقبول ہوا۔ اسے بھارت کے کئی ایک فنکاروں نے بھی بہت عمدہ گایا : ”اللہ ہی اللہ کیا کرو دکھ نہ کسی کو دیا کرو، جو دنیا کا مالک ہے نام اسی کا لیا کرو ’آواز ناہید اختر۔ گیت نگار مسرورؔ انور تھے۔
بزمی صاحب کی آخری فلم:
یاسر مووی ٹون کے فلمساز و ہدایتکار فیروز صاحب کی فلم ”محبت ہو تو ایسی ہو“ ( 1989 ) بزمی صاحب کی آخری فلم تھی۔
اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اداکار محمد علی اور اداکارہ زیبا کی ہیرو اور ہیروئن کی حیثیت سے بھی یہ آخری فلم ہے۔ مذکورہ فلم رضیہ بٹ کے ناول ’شبو‘ پر بنائی گئی۔ آج کل فیروز بھائی علیل ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ جلد صحت یاب ہوں۔ میں نے ان کی فلم ”السلام علیکم“ ( 1969 ) کے دو کورس کی صدا بندی میں حصہ لیا تھا۔
بزمی صاحب کو ملنے والے نگار ایوارڈ:
نمبر شمار
فلم
گیت نگار
ہدایتکار
1
’ ”صاعقہ“ ( 1968 )
! مسرور ؔ انور
لئیق اختر
2
+ ”انجمن“ ( 1970 )
#مسرور ؔ انور
حسن طارق
3
C ”میری زندگی ہے نغمہ“ ( 1972 )
شیونؔ رضوی
شیونؔ رضوی
4
5 ”خاک و خون“ ( 1979 )
احمد راہیؔ
مسعود پرویز
5
; ”بیوی ہو تو ایسی“ ( 1982 )
! مسرور ؔ انور
زاہد شاہ
6
5 ”ہم ایک ہیں“ ( 1986 )
حبیب جالبؔ
اقبال کاشمیری
لکشمی کانت پیارے لال، آنند بخشی اور بزمی صاحب:
ایک پروگرام
A Tribute To Nisar Bazmi
کی تیاری کے سلسلہ میں لاہور کی فلمی دنیا کے نامور لوگوں سے بھی ملاقات رہی۔ ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ پروگرام تیار نہ ہو سکا لیکن اس کے ابتدائی مراحل میں میری بہت سے لوگوں سے بہ نفس نفیس اور ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ خاص طور سے ملکہ ترنم نورجہاں۔
بزمی صاحب مجھے بتا چکے تھے کہ پاکستان آنے سے قبل، بمبئی فلمی صنعت میں وہ تقریباً 15 سال، تیسرے درجے کے بجٹ کی دھارمک فلموں کے موسیقار رہے تھے۔ اور یہ بھی کہ ایک عرصہ لکشمی کانت اور پیارے لال، ان کے تیسرے درجہ کے سازندے رہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد لکشمی کانت اور پیارے لال دوسرے درجہ ا ور اس کے بعد اول درجہ کے میوزیشن بن گئے۔ مگر دونوں کا اعلیٰ وصف دیکھئے کہ زیادہ پیسوں کا کام چھوڑ کے کم پیسوں پر بزمی صاحب کا کام بھی کرتے رہے۔
یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس سال بزمی صاحب کی پہلی پاکستانی فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ ( 03 فروری 1965 ) کے گیت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے عین اسی زمانے میں لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقار جوڑی کا مجروحؔ سلطان پوری کا لکھا پہلا فلمی گیت ”چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے“ ( 06 نومبر 1964 ) بھارت اور پاکستان میں دھوم مچا گیا۔ ادھر بزمی صاحب کے گیتوں نے ایک دھوم مچا دی۔ سلور جوبلی فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ فلمساز فضل احمد کریم فضلی صاحب کی دوسری فلم تھی۔
بات ہو رہی تھی بزمی صاحب کو خراج تحسین کے پروگرام کی، تو اس سلسلہ کی بھاگ دوڑ میں مجھے دو دفعہ جناب لکشمی کانت اور پیارے لال اور مشہور بھارتی فلمی شاعر آنجہانی آنند بخشی صاحب سے گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ بھارتی فلمی صنعت کے نامور شاعر آنجہانی جناب آنند بخشی صاحب بہت دل موہنے والے انداز سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا:
” مجھے فلمی دنیا میں لانے والے سید نثار ہیں ( یعنی ہمارے بزمی صاحب ) ۔ میرا میل ملا پ سید صاحب سے عرصہ سے تھا۔ 1958 میں ہدایت کار بھگوان اپنی ایک آنے والی فلم“ بھلا آدمی ”کی تیاری میں تھے۔ احسن رضوی اور صبا افغانی اس فلم کے نغمہ نگار تھے۔ سید نثار نے بھگوان صاحب کو میرے بھی گیت اس فلم میں شامل کرنے پر قائل کر لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ۔
یوں بزمی صاحب کی جوہر شناس نگاہوں نے آنند بخشی کو بالآخر جوہر بننے کے مراحل میں داخل کر دیا۔ اس طرح ”بھلا آدمی“ آنند بخشی کی ترقی اور شہرت کی سیڑھی کا پہلا قدم ثابت ہوئی۔ ان کی اعلیٰ ظرفی دیکھئے کہ زندگی بھر جب بھی کسی نے ان کا انٹرویو لیا تو انہوں نے نثار بزمی صاحب کا ذکر اپنے نام سے پہلے کیا۔
وطن سے محبت:
بزمی صاحب کام میں بہترین سے کم کے قائل نہیں تھے۔ خود بھی بہترین کام کرتے اور دوسروں سے بھی بہتر کی توقع رکھا کرتے تھے۔ اسی لئے شاید ان کے طبیعتاً سخت ہونے کے چرچے تھے۔ وہ بڑے سخت محب وطن تھے۔ جب کوئی شخص ان کے سامنے ملک کی برائی کرتا تو یک دم جلال میں آ جایا کرتے اور یہ کہتے کہ اس ملک پاکستان کو میرے سامنے برا مت کہو۔ اس نے مجھے عزت اور شہرت دی۔ میں کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایک تیسرے درجے کے موسیقار سے بلند تر ہو کر درجہ اول بلکہ Outstanding Musician کا درجہ پا لوں گا۔ اسی سلسلہ میں ایک دلچسپ بات یاد آ گئی۔
نثار بزمی صاحب کے ہاں اکثر جانا رہتا تھا، ایسی ہی ایک نشست میں شاعری کے حوالے سے فلمی شاعر کلیم ؔ عثمانی صاحب کا ذکر آ گیا۔ کہنے لگے :
” ایک روز فجر کے وقت غیر متوقع طور پر کلیم عثمانی بے چین سی صورت لیے میرے گھر آئے۔ پوچھا خیریت؟“ ۔
” ابھی تھوڑی دیر قبل ادھ سوئی ادھ جاگی کیفیت میں عجیب ماجرا ہو گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے قائد اعظم ؒ میرے کمرے میں غصہ کی حالت میں آئے اور کہہ رہے ہیں کہ میرے ملک کا تم لوگوں نے کیا خراب حال کر رکھا ہے، ہاں اگر کسی سے اچھی امید ہے تو وہ اس ملک کے بچے ہیں، تم سب لوگوں نے تو مایوس ہی کیا۔ بس تب سے طبیعت سخت مضطرب ہے“ ۔ کلیمؔ عثمانی نے جواب دیا۔
” قائدؒ نے کچھ ایسا غلط بھی تو نہیں کہا۔ سب کو آزما کے دیکھ لیا، اب ان بچوں سے ہی کوئی بہتر امید کی جا سکتی ہے“ ۔ میں ( بزمی صاحب ) نے جواب دیا۔
” بس وہ کچھ ایسا لمحہ تھا کہ بے ساختہ کلیم ؔعثمانی کو ایک خیال سوجھا گویا قائد اعظمؒ بچوں سے مخاطب ہیں کہ : ’تم ہو پاسباں اس کے‘ ۔ بس پھر کیا تھا مکھڑا بن گیا۔ گویا بانی پاکستان اس ملک کے بچوں سے کہ رہے ہیں :
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
اس طرح سے ریکارڈ قلیل وقت میں بے مثال دھن کے ساتھ یہ نغمہ مکمل ہوا۔ جس کو مہدی حسن کی آواز میں پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز میں ویڈیو ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے پروڈیوسر ( غالباً ) اختر وقار عظیم تھے۔
بزمی صاحب کا پی ٹی وی کراچی مرکز سے شعیب منصور کا تیار کردہ ایک اور ملی نغمہ بہت مقبول ہوا: ”خیال رکھنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ۔ یہ عالمگیر اور بینجمن سسٹرز کی آوازوں میں ریکارڈ ہوا۔
ایک مرتبہ میں نے بزمی صاحب سے پوچھا :
” آپ اپنے فلمی گیتوں میں سے کس کو بہترین کہتے ہیں؟“ ۔
” یہ گانا ’ساجنا رے جیا تڑپے نیناں برسیں دکھی من تجھ کو پکارے، بن دیکھے جیوں کیسے او میرے جیون سہارے‘ ۔
یہ فلمساز و ہدایتکار رضا میر کی فلم ’ناگ منی‘ ( 1972 ) میں نورجہاں نے صدا بند کروایا تھا۔
پاکیزہ فلمز کے مشترکہ فلمساز پرویز ملک اور مرزا اسحٰق اور ہدایتکار پرویز ملک کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ”تلاش“ میں بزمی صاحب نے گلوکار سلیم شہزاد کی آواز کو ٹائٹل سونگ میں کیا خوبصورتی سے استعمال کیا: ’پیار کی یاد نگاہوں میں چھپائے رکھنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ۔ سلیم شہزاد نے بھی پلے بیک سنگنگ کا حق ادا کر دیا۔
سید نثار المعروف نثار بزمی صاحب نے ہندوستان سے اپنا موسیقی کا سفر شروع کیا، اس کا اختتام عزت و احترام اور شہرت کے ساتھ 1989 میں ہو ا اور نثار بزمی صاحب نے اپنی زندگی کا سفر 22 مارچ 2007 کو پورا کیا۔ بزمی صاحب کے ساتھ گزرے لمحات میر ا قیمتی خزانہ ہیں۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مئی 17th, 2020
زمرہ: شاہد لطیف تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Ahmed Rushdie, Films, Music, musician, Nisar Bazmi, Noor Jehan, Pakistan Film Industry, موسیقار