تحریر: ابنِ ریاض
فیس بک پر ایک خاتون نے ایک تصویر لگائی ہوئی ہے۔۔۔۔ غالبًا کوئی چارٹ بنایا ہے(کھانے والا نہیں، سکول لے جانے والا)اور اس کے نچلے بائیں کونے پر ‘حباء بلال’ درج ہے جو کہ یقینًا ان کی صاحب زادی کا نام ہو گا۔ نام کے آگے نرسری بھی درج ہے جو کہ یقینًا پھولوں والی نہیں بلکہ کلاس کا نام ہے۔ پھولوں والی سمجھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ بچے بھی پھول ہی ہوتے ہیں۔ اس تصویر کے ساتھ وہ شکوہ کناں ہیں کہ یہ سکول والے کس چیز کی فیس لیتے ہیں ۔کام تو ہمیں کرنا پڑتا ہے سارا۔ قیاس یہ ہے کہ اسکول والوں نے بچی کو ہوم ورک دیا ہو گا جو کہ اس کے ننھے سے وجود سے کافی بھاری بھرکم ہو گا۔ ماں کا دل پسیجا اور اس نے ہوم ورک کر کے دے دیا۔اس وقت تو خیال نہیں کیا کہ اپنے جسم کے سب پٹھے اور ہڈیاں بھی تو ڈالڈا گھی کی مرہون منت ہیں۔ اپنا ہی انجر پیجر ہل گیا ہو گا اور اس کے علاج کے لئے یقینًا مزید وسائل درکار ہوں گے۔ ہمیں ان سےہمدردی ہے اور ہم ان کی جلد بحالی صحت کے لئے دعاگو ہیں مگر یہ نیکی انھوں نے خود کمائی ہے اوران کے گھر کے پاس غالبًا کوئی دریا نہیں تھا تو انھوں نے نیکی کر کے فیس بک پر ڈال دی۔
ان خاتون کا یہ فرمانا کہ سکول والے کس چیز کی فیس لیتے ہیں، حقائق سے نظر چرانے کے مترادف ہے کیونکہ اس دور یعنی کہ اکیسویں صدی کے بچے بہت تیز ہیں۔ تین چار عشرے قبل کا قصہ ہے کہ بچے کچھ ڈرپوک اور شرمیلے ہوتے تھے۔ جدھر بٹھا دو،چپ کر کے بیٹھ گئے۔ مہمانوں کے گھر سے کچھ نہیں کھانا، کچھ نہیں لینا سمجھا دینا ہی کافی ہوتا تھا۔ پانچ سال کی عمر میں سکول ار مدرسہ میں داخل کروایا جاتا تھا اور یوں بچے کی نصابی زندگی کا آغاز ہوتا تھا۔ بچے پانچ چھ گھنٹےسکول میں گزارتے تھے۔ سکول سے گھر آ کے کھا پی کر بچے گلی محلے میں کھیلنے نکل جاتے اور ماں باپ سکون میں۔
بارے یہ دور آیا۔اب بچہ پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے موبائل پکڑتا ہے اور اس کے بعد اپنا فیڈر۔ پاس ورڈ کھولنا، گیمز کھیلنا تو وہ پنگھوڑے میں ہی سیکھ لیتا ہے۔پرانی نسلوں کے برعکس اس نسل کا بچہ اپنے حقوق سے آگاہ اور پر اعتماد ہے۔ کسی چیز کے نہ ملنے پر وہ واویلا مچاتا ہے کہ الحفیظ الامان۔ ماں باپ خود پریشان رہتے ہیں بلکہ اکثر منت کرتے ہیں کہ بیٹا گھر میں تو خیر ہے، باہرہماری عزت رکھ لینا۔ اور بچہ جواب میں کچھ مطالبات منوا کر ان کی شرائط تسلیم کر لیتا ہے۔جو ہماری نسل نے دس سال کی عمر میں سیکھا وہ یہ ایک سال میں سیکھ لیتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔بچہ ابھی پہلی سالگرہ ہی مشکل سے پار لگاتا ہے کہ ماں باپ اس کو سکول داخل کروانے کا سوچنے لگتے ہیں۔مقصد ان کا اسے ابھی سے پڑھانا نہیں بلکہ مصروف رکھنا ہوتا ہے تا کہ ماں باپ کچھ اور بھی کر سکیں۔ ہم ایسی بہت سی مائوں سے واقف ہیں کہ جو مئی میں ہی یہ سوچ سوچ کے ہی ہلکان یونے لگتی ہیں کہ اپنے سپوت کی چھٹیاں اب قریب ہیں، اب ہم تو سونے سے گئیں۔ انھی ذہین، فطین اور افلاطون بچوں کے لئے تو یہ سکول بنائےگئے ہیں کہ بچوں کومصروف رکھا جا سکے۔
ہماری رائے میں تو اسکول والے اپنے کام کا معاوضہ لے رہے ہیں۔ اور ان کا یہ کام کیا کم ہے کہ چار چھ گھنٹون کے لئے ماں باپ کو اپنیے بچوں سے علیحدہ کر دیتے ہیں تا کہ وہ گھر کے کام کر سکیں۔ بلکہ کاموں کے لئے تو آج کل ہر گھر میں صفائی والیاں آتی ہیں، اصل سہولت تو ان کو آرام کروانا ہے۔وہی تو وہ وقت ہوتا ہے جب نہ میاں گھر میں نہ بچے، گھوڑے گدھے بیچ کے(بھیج کے بھی) سویا جا سکتا ہے۔اسی خیال سے کہ کہیں والدین سوتےسوتے کاہل ہی نہ ہو جائیں تووہ بچوں کو بھی گھر کے لئے کوئی نہ کوئی سرگرمی دے دیتے ہیں۔یہ تو اساتذہ کو بھی معلوم کہ سرگرمی بچے کے لئے بلکہ بچے کی امی (اکثرو بیشتر)کے لئےہے۔ اور سکول والون کا بڑا پن دیکھیں کہ وہ اس سرگرمی کے الگ پیسے نہیں لیتے۔ بچوں کے کھاتے میں سے ہی ماں کو مصروف رکھ لیتے ہیں جس کے لئے وہ مستحق مبارکبار کے ہیں اور کمرہ کو کمر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ برمحل ہو گا کہ ہمارا شمار بحیثیت قوم ان لوگوں میں ہوتا ہے جو کسی بھی حال میں خوش نہیں ہوتے۔ ہمیں ہر چیز میں کیڑے نکالنے کی عادت ہوتی ہے۔ اگر سکول والے کوئی کام نہ دیں اور سکول میں ہی سب کروا دیں تو ہمیں ان کے معیار مین نقص نظر آتا ہے اور یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ سکول والوں کو ہمارے بچوں کا ذرا خیال نہیں۔ انھی کوئی کام کاج نہیں دیتے۔ پتہ نہیں وہاں کیا کرتے ہوں گے؟اب سکول والے بچے کو گھر میں بھی مصروف رکھ رہے ہیں تو بھی وہ برے۔ ہمیں تو ان سے ہمدردی ہے۔
محکمہ بہبود آبادی حکومت نے نئے آنے والے بچوں کی رفتار کم کرنے کے لئے بنایا تھا۔ مگر جب سے محکمہ وجود میں آیا ہے لگتا ہے کہ بچوں نے بھی اس سے کوئی شرط لگا لی ہے کہ ہمیں روک کے دکھائو تو۔ ہمیں تو ہر دوسرے سال آبادی میں کروڑ دو کروڑ کا اضافہ ہی ملتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اتنے بم دھماکے، سیلاب، طوفان۔ زلزلوں میں جو لوگ گئے پھر بھی آبادی میں ایک آنے کی کمی نہیں ہوئی الٹا زیادہ ہی ہو گئی ہماری دانست میں تو۔ ممکن ہے کہ حکومت والون نے ‘بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی ‘ والے محاورے پر عمل در آمد کرتے ہوئے اسکولوں کو کوئی خفیہ ہدایت نامہ بھیجا ہو کہ بچوں کے والدین سے خوب فیسیں بٹورو۔ اس کے علاوہ بھی ہر ممکن طریقے سے تنگ کرو۔ ہر ہفتے پانچ سو، ہزار کسی نہ کسہ تقریب کا لو۔ اس کے علاوہ جی بھر کے بچوں کو کام دو جو کہ ان کے ماں باپ کو ہی آخر کار کرنا ہے۔ اتنا تنگ کرو اتنا تنگ کرو کہ والدین سوچ مین پڑ جائیں کہ ابھی تو اس ایک کی وجہ سے (یا ان دو تین کی وجہ سے) ہماری یہ حالت ہے، مزید ہوں گے تو ہمارا کیا حال ہو گا؟ اسی بہانے آبادی میں اضافے کی شرح میں ہی کمی آ جائے شاید۔