تحریر: ابنِ ریاض
آج جہاں عیسائی دنیا کرسمس منا رہی ہے وہیں پاکستانی اپنے بابائے قوم محمد علی جناح کایومِ ولادت منا رہے ہیں۔ قائدِ اعظم کو یاد کیا جا رہا ہے، ان پر لکھے گئے نغمے پڑھے جا رہے ہیں۔ان کے اس احسانِ عظیم کویاد کیا جا رہا ہے اوران کی مغفرت کی دعائیں ہو رہی ہیں تاہم یہ دن بھی باقی دنوں کی طرح گزر جائے گا اور اگلےتین سو چونسٹھ دن ان کا بھولے سے کہیں ذکر نہیں ہو گا اور جن خوبیوں کی بنا پر وہ ایک عظیم رہبر بنے ان پر کسی کی نظرنہیں جائے گی کہ اب پاکستا ن بن تو چکا اب مزید کیا نیا پاکستان بنانا؟تاہم بڑے لوگوں کو اپنے ذکر کی ضرورت نہیں ہوتی ، وہ اپنے مقصد کے متعلق فکرمند ہوتے ہیں اور ہمیں یہ شرمندگی سے اعتراف کرنا ہے کہ ہم نے ان کے مقصدسے صرفِ نظر کی ہے۔پاکستان کو ترقی دینا تو درکنار، وہ پاکستان جو قائد چھوڑ گئے تھے ہم تو اسے اس مقام پر برقرار بھی نہیں رکھ پائے۔
محمد علی جناح ان لوگوں میں سے ہیں کہ جن پر لکھنا قلم کار کے لئے اعزاز ہوتا ہے۔قائداعظم کی ذات کو اللہ تعالٰی نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا ااوریوں بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی اہم مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے مخالفین بھی اس کے گن گانے لگتے ہیں اور اس کی خامیوں کو بھی ان کی خوبی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔تاہم کچھ خوبیاں کہ جن کی بنا پر وہ میری پسندیدہ شخصیات میں سب سے اوپر ہیں ان کا ذکر درج ذیل ہے۔
سب سے بڑی بات یہ کہ قائد اعظم نے قائد اعظم بننے کے لئے بہت تکالیف اٹھائیں اور بہت قربانیاں دیں۔ یہ اعزاز انھیں مفت میں کسی نےپلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا۔آج کل جب کہ فاصلے مٹ چکے ہیں اور دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں ہم اپنے گھر والوں سے رابطے میں رہتے ہیں،اس کے باوجود بھی کئی والدین اپنے بچوں کو باہر نہیں بھیجتے ۔ سولہ سترہ برس کی عمر میں آج سے سوا صدی قبل ا نھوں نے اپنا گھر اپنا خاندان چھوڑ دیا صرف علم کی خاطر۔کئی سال اپنے گھر والوں سے دور رہے۔بلکہ والدہ اور ان کی بیگم تو ان کی انگلستان سکونت کی دوران ہی انتقال کر گئیں۔واپس آئے تو والد کا کاروبار بھی مندے میں تھا۔اس کے علاوہ بطور وکیل اپنی پہچان بنانا کوئی آسان نہیں تھا۔ سیاست میں بھی وہ پہلے دن قائد اعظم نہیں بن گئے۔ ادھیڑ عمر میں شادی کی۔ وہ بیوی بھی جلد وفات پا گئیں۔ زندگی کے آخری سالوں میں اکلوتی بیٹی کے پارسی سے شادی کرنے پر اس کو عاق کر دیا۔ یہ سب مسائل ان کے ساتھ ساری زندگی رہے مگر ان کو اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹے اور اس پر ڈٹے رہے۔عام آدمی تو یہ سب دیکھ کر سیاست سے تائب ہو جاتا بلکہ ہمارے آج کل کے بچے تو پسند کی لڑکی نہ ملے تو خودکشی کر لیتے ہیں۔ ان کے لئے قائد کی زندگی ایک زبردست مثال ہے۔
ایک اور زبردست خوبی ان کا کردار ہے۔اس دور میں بہت سے مسلمان رہنما تھے۔ کئی عالم دین بھی تھے مگر قائد اعظم مسلمانوں کے واحد رہنما بن کے ابھرے۔ اس کی ایک وجہ توان کا وکیل ہونا تھا کہ وہ کسی بھی دوسرے سے بہتر پاکستان کا مقدمہ لڑ سکتے تھے اور دوسری وجہ ان کا بے داغ کردار تھا کہ جس کی بنا پر مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ یہ بندہ نہ جھک سکتا ہے اور نہ بک سکتا ہے۔اور انھوں نے اپنی تمام عمر اس کردار کو ثابت کر کے دکھایا۔آپ ان کا کمال دیکھیں کہ ان کی اردو اتنی اچھی نہیں تھی اور وہ زیادہ تر تقاریر انگریزی میں کرتے تھے جو عام مسلمانوں کے لئے آج کل بھی جاننا مشکل ہے کجا کہ پون صدی قبل۔ لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں مگر یہ خوب جانتے تھے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں ہمارے حق میں کہہ رہے ہیں۔
ان کے کردار کو آپ ان کی زندگی کے آخری سالوں میں دیکھیں کہ جب ان کی بیٹی نے ایک پارسی سے شادی کرنا چاہی تو انھوں نے اس کو منع کیا مگر جب وہ اپنی ضد سے باز نہ آئی تو انھوں نے اسے عاق کر دیا ۔ ایک شخص کہ جس کی ایک ہی بیٹی ہو اور وہ ملی بھی اسے اپنی زندگی کی پچاس سے زائد بہاریں دیکھنے کے بعد ہو ، اس کے لئے یہ کوئی آ سان فیصلہ نہ تھا تاہم انھوں نے اپنی محبت کو قربان کر کے اپنے دین سے اپنی اپنی وابستگی کو ترجیح دی اور اپنے کردار کو زندہ رکھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی تمام جدوجہد آئین کے دائرے میں تھی۔ انھوں نے کبھی قانون شکنی نہیں کی۔ان کے ہم عصروں نے جیل کی زیارت کی مگر ہمارے قائد اس سے محفوظ رہے اور انھوں نے ثابت کیا کہ عوام کی خدمت کے لئے جیل جانا ضروری نہیں ہے اور باہر رہ کر بھی ان کی خدمت کی جا سکتی ہے۔
ان میں منافقت نہیں تھی۔وہ جیسے تھے سب کے سامنے ویسے ہی آتے تھے۔ وہ انگریزی لباس پہنتے تھے اور انگریزی بولتے تھے۔ وہ زبردستی لوگوں کی نظر میں اچھا بننے کے لئے شلوار قمیص پہنتے اور نہ اردو بولتے تھے اور نہ ہی مسلم علماء و مشائخ سے ملاقات کے وقت وہ سر پر ٹوپی رکھتے تھے۔
ہماری بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ ہم نے اپنے محسن کو بھی اپنی فرقہ بندی کی بھینٹ چڑھا کر شیعہ بنا دیا۔گو کہ انھوں نے یہ ملک کسی ایک فرقے کے لئے نہیں بنایا تھا کہ ان کی نظر میں مسلمانوں کے لئے تھا یہ ملک۔ اگر وہ شیعہ تھے تو بھی ان کی قدر و منزلت میں کوئی کمی نہیں واقع ہوتی بلکہ ہم تو دعا گو ہیں کہ ہمارےتمام شیعہ بھائی قائدِ اعظم جیسے ہوں۔
قائد اعظم ایک دھان پان سی شخصیت تھے۔ قد لمبا اور جسم دبلا پتلا۔ آخری سالوں میں وہ ٹی بی کا بھی شکار ہو گئے تھے۔ قائد اعظم نے حصو لِ پاکستان سےایک بات ثابت کی کہ جسمانی کمزوریاں مقصد کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ اگر نیک نیتی سے جدوجہد کی جائے تو کامیابی مقدر ضرور بنتی ہے۔
قائد اعظم کا ایک عظیم اور شاید سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کے حصول کے لئے پاک و ہند کے مسلمانوں کو اکٹھا کرنا تھا۔پاکستان کے حق میں ان مسلمانوں نے بھی ووٹ دیئے کہ جن کے علاقے پاکستان میں شامل ہونے ہی نہیں تھے۔ اب پورا پاکستان تو کیا کوئی پورا ضلع ہی کسی ایک مقصد کے لئے اکٹھا کر کے دکھا ئے۔ہم ہر رہنما مقامی سیاستدان کو لیڈر یا رہنما مان لیتے ہیں تاہم یہ ہماری کوتاہ بینی ہے۔ ہر شخص جو چند ہزار بندے جمع کر لے رہبر نہیں بن جاتا۔ رہبر قائد اعظم جیسا ہوتا ہے جو اپنے مقصد سے اس قدر مخلص ہوتاہے کہ اس کا اخلاص دیکھ کر مخالفوں کو بھی اس کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔
اعجاز احمد لودھی
بتاریخ جنوری 3rd, 2018
بوقت 1:56 شام:
ابن ریاض کی ایک خوبصورت تحریر۔
بہترین تجزیہ اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کو خراجِ تحسین۔
کافی عرصہ بعد سنجیدہ تحریر نظر سے گزری۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔۔
ابنِ ریاض
بتاریخ جنوری 5th, 2018
بوقت 7:23 صبح:
جزاک اللہ ۔۔۔اللہ بہت کامیابیوں سے نوازے