پچھلے دنوں اک مقابلے کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع تھا کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟ ہم نے بھی لکھنے کا ارادہ کیا مگر سوچا کہ کیوں نہ اس سلسلے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق لوگوں کی رائے معلوم کر لی جائے تا کہ ہمارا مضمون زیادہ متوازن اور حقیقت سے قریب تر ہو۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنے نامہ نگار دوستوں سے رابطہ کیا اور انھیں اپنے مسئلے کا بتایا اور ان سے مدد مانگی۔ کچھ کوشش ہم نے خود کی۔ انھوں نے جو کچھ بتایا وہ حاضر خدمت ہے۔
ہمارے نمائندے نے جب وزیر اعظم سے ملاقات کی تو وہ خوبصورت جدید تراش کے انگریزی سوٹ میں ملبوس بیرون ملک روانہ ہو رہے تھے۔ انھوں نے انگریزی میں فرمایا کہ ایک بڑی پارٹی کا دھرنا اور میٹرو بس میں تاخیر سب سے بڑی وجہ ہے۔ شستہ انگریزی میں جاتے جاتے کہنے لگے کہ قومی زبان پر شرمندہ ہونے اور اپنی مصنوعات کو فروغ نہ دینا بھی اسی سلسلے میں آتا ہے۔
تحریک انصاف کے قائد سے جب پوچھا گیا تو اس وقت وہ مرغن کھانوں سے بھری میز پر کھانے سے انصاف کر رہے تھے۔ ان کا کہنا کہ ملک کی ترقی میں اصل رکاوٹ شفاف انتخابات کا نہ ہونا ہے۔مزید فرمایا کہ لوگ بھوک اور قحط سے مر رہے ہیں، اگر عوام کو کھانا اور تعلیم مل جائے تو پاکستان توقی کر سکتا ہے۔ یہی سوال جب اسفند یار ولی کے پاس آیا تو ان کا کہنا تھا کہ ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کالا باغ ڈیم ہے۔ اگر اس منصوبے کو ختم کر دیا جائے تو ملک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گا۔ جب آصف علی زرداری سے یہ سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مفاہمت کی سیاست کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لندن میں الطاف حسین سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اپنے مخصوص لہجے میں گنگنایا کہ ‘ پردے میں رہنے دو۔۔۔۔ پردہ نہ اٹھائو’۔ پھر انھیں خیال آیا کہ یہ سنجیدہ سوال ہے تو کہنے لگے کہ مہاجروں کو ان کے حقوق دیے بغیر ترقی دیوانے کا خواب ہی ہے۔ جب یہی سوال وزیر اعلٰی سندھ سے کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سائیں ہمیں نہیں پتہ۔۔ زرداری صاحب سے پوچھ کے جواب دوں گا۔
سیاستدانوں سے مایوس ہو کر ہم نے سوچا کہ دوسرے شعبوں میں معقول لوگوں کی کمی نہیں۔ ہمیں امید تھی ہماری گتھی کچھ مشکل سے ہی سہی مگر سلجھ جائے گی۔ ہمیں ڈاکٹر ایک سڑک پر احتجاج کرتے نظر آئے۔ ہم حیران کہ ہسپتال میں مریضوں کو کس کے حوالے کر کے آئے ہیں؟ مگر یہ ہمارا سر درد تھوڑی ہے۔ ہمیں اپنے کام سے مطلب رکھنا چاہیے سو ہم نے ایک ڈاکٹر کو روکا اور ان کو اپنا سوال دھرایا۔ انھوں نے ایک لحمے توقف کیا؟ پھر کہنے لگے کہ جب تک ڈاکٹروں کی تنخواہیں نہیں بڑھائی جاتیں، یہ سب ایسا ہی رہے گا۔
اگلے روز ہماری ملاقات ایک انجیئر سے ہوئی۔ یہ صاحب بیروزگار تھے۔ ہم نے ان سے ملکی مسئلے کا حل پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ جب تک ملک کے پڑھے لکھوں کو نوکری نہیں ملے گی ملک آگے کیسے بڑھے گا؟ بات ان کی بھی بجا تھی مگر یہ بھی باقی افراد کی طرح ذاتی مسائل میں ہی گم تھے۔
پھر ہمیں ایک فوجی جرنیل ملے۔ ان سے ہم نے پوچھا تو کہنے لگے کہ ملک کا انتطام سیاست دانون کے پاس ہے جو اس کو چلانے کے اہل نہیں۔ اگر ملک کی باگ دوڑ فوج کے حوالے کر دی جائے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ اس سلسلے میں انھوں نے پچھلے فوجی ادوار کی مثالیں دی کہ ان میں ملک نے کیسے ترقی کی۔
اب ہماری اگلی منزل ایک دانشور تھے۔ ان کے کالم ملک کے بڑے بڑے اخباروں میں چھپتے ہیں۔ ان سے ہم نے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے کاغذ پر ٹیکس لگا کر سرسر زیادتی کی ہے۔ اس سے حکومت کی علم دشمنی عیاں ہو جاتی ہے۔کاغذ اخبار و رسائل کا بنیادی جزو ہے۔ اگر یہ مہنگا ہو گا تو اخبار و رسائل عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہو جائیں گے اور یوں ان کی ذہنی نشو ونما میں بہتری نہیں آئے گی۔ بھلا ذہنی پسماندہ معاشرہ بھی ترقی کر سکتا ہے؟
دانشور کے گھر سے نکل کر ہم اپنے گھر رواں تھے کہ ہمیں عمر اکمل ایک مال میں شاپنگ کرتے نظر آئے۔ اب تک ہم مایرین کی رائے سے مایوس ہو چکے تھے مگر سوچا کہ چلو کھلاڑی کی بھی رائے جان لیں۔ انھوں نے دنیا دیکھی ہے سو یقینًا وسیع النظر ہوں گے۔ ہم نے سوال کیا تو جواب آیا۔۔۔” جب تک انصاف نہیں ہو گا ملک کیسے ترقی کرے گا؟ مجھے خواہ مخواہ ٹیم سے نکال دیا گیا۔ اس سے پہلے کامران بھائی اور عدنان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اگر ہمین انصاف نہیں مل رہا تو عام لوگوں کو کیا ملے گا۔ اب آپ خود جان لیجیے کہ ملک کی ترقی نہ کرنے کی وجہ کیا ہے۔
اب ہمارا دل ماہرین سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ عام لوگوں سے ہی پوچھ لیا جائے۔ ایک دوکان دار سے پوچھا تو کہنے لگا کہ حکومت اگر چیزیں سستی کر دے تو لوگوں کو ہر چیز بآسانی مہیا ہو گی اور ملک ترقی کرے گا۔
ایک بینک کے باہر پنشنر بزرگ موجود تھے۔ ہم نے ایک صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے کہ جہاں بزرگوں کو دن بھر دھوپ میں کھڑا رکھا جائے اور ذلیل کیا جائے بھلا وہ ملک ترقی کرے گا؟ حکومت ہمارے مسائل حل کرے اور دعائیں لے تو ملک بھی ٹھیک ہو جائے گا۔
ایک مسجد کے امام سے ملاقات ہوئی۔ ان کی بیگم نے حال ہی میں وفات پائی۔ ان کا جواب کچھ یوں تھا۔’ یہ اللہ کا ہم پر عذاب ہے۔ہم نے شادی کو مشکل کر دیا ہے۔ ہماری خواتین بڑی تعداد میں غیر شادی شدہ ہیں۔ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ بچیوں کی شادیاں کریں۔ اگر کوئی ہم پلہ رشتہ نہیں ملتا تو رنڑوے اور بیوہ مردوں سے شادی کر دیں مگر گھر نہ بٹھائیں۔ اس سے اللہ خوش ہو گا اور ملک ترقی کرے گا۔’
اس شاندار منطق کے بعد ہم نے مزید کسی اور سے رائے طلب نہیں کی۔ ہم نے جان لیا کہ اس 18 کروڑ والی آبادی کے ملک کے8 1 کروڑ بنیادی مسائل ہیں۔ ہر کسی کا ذاتی مسئلہ ہی اس کی نطر میں قومی مسئلہ ہے اور اس کے مسئلے کا حل ہی ملکی ترقی کا ذامن ہے۔ ہر کوئی اپنا حق مانگ رہا ہے خواہ وہ اس کا مستحق ہو یا نہ ہو اور کسی کی نظر فرض پر نہیں۔ یہی ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔