تحریر: ابنِ ریاض
پاکیزہ نے ہمیں باور کروایا کہ کبھی ہم اس کے باروچی خانے میں دخل در معقولات کیا کرتے تھے اور ہمارے مشوروں پر عمل کے کارن ہی گل بی اب اپنے سسرال والوں کے دلوں پر راج کر رہی ہے اور اردو فینز کے بہت سے لوگوں کا بھلا ہو رہا ہے۔ اور مزید بھی کسی بہن کو مدد چاہئے تو ہم گوڈے گوڈے حاضر ہیں۔ آج ہم آپ کو کچھ ایسے مشورے دیں گے کہ جن سے آپ کی زندگی جنت کا نمونہ تو خیر نہیں تا ہم نمونہ ضرور بن جائے گی یعنی کہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ بہتر ہو جائے گی۔
آج کل کے دور میں گاڑی عیاشی نہیں بلکہ ضرورت ہے۔۔ لہذا اولین فرصت میں اپنے اور اپنے اہل خانہ( اگر نہیں ہیں تو ہونے والے اہل خانہ) کے لئے ایک کار خریدیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کو گاڑی چلانا بھی آتی ہو اور اس کے کاغذات بھی آپ کے پاس موجود ہوں کیونکہ گاڑی پر سفر ہرگز نہیں کرنا۔ ایسا کرنے سے گاڑی کے خراب ہونے اور حادثے کا اندیشہ ہو سکتا ہے اور پرہیز یقینًا علاج سے بہتر ہے۔ ویسے بھی سفر کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹیکسی رکشے کم ہیں جو اپنی گاڑی استعمال کریں۔ پھر اپنی گاڑی کے مستعمل ہونے کی صورت میں سی این جی سٹیشنوں اور پٹرول پمپوں پر کھڑے ہو کر آہ بھرنا اور گنگنانا کہ ‘جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں’ قطعًا دانشمندی نہیں۔ آپ سوچیں گے کہ پھر کار لینے کا فائدہ تو جناب کیا یہ فائدہ کم ہے کہ آپ سارا دن بستر توڑتے رہیں، دھیلے کا کام نہ کریں پھر بھی کوئی آپ کو بے کار نہیں کہہ سکتا۔
گرمیوں میں آپ کا فریج ٹھیک سے ٹھنڈک پیدا نہیں کرتا۔ چیزیں خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور اکثر پھل ، سبزیاں اور دیگر اشیاء خراب ہو بھی جاتی ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ فریج کو ان اشیاٰء کے لئے بنایا ہی نہیں گیا۔ یہ اشیاء تازہ ہی استعمال کرنی چاہییں۔ فریج کی ساخت پر غور کریں تو آپ کو اس کے اندر تین سے چار جالی دار خانے دکھیں گے۔ یہ خانے دراصل تہہ کیے ہوئے کپڑے رکھنے کے لئے ہیں۔ تین خانوں میں میاں، بیوی اور بچے اپنے اپنے ملبوسات رکھ سکتے ہیں۔ اور نیجے جو ٹرے ہے اس میں بنیان، موزے وغیرہ گانٹھ لگا کر رکھ لیں۔ پھر دیکھیں کہ آپ کی فریج کی کارکردگی کتنی بہترین ہے۔
بچون کے اچھے مستقبل کی فکر سب والدین کو ہوتی ہے۔ اور پیدائش سے ہی اس کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں کہ اسے ڈاکٹر بنانا ہے اس کو انجینئر بننا ہے اور آج کل پڑھائی کے اخراجات اتنے ہیں کہ بچوں کی پیدائش سے ہی والدین اپنا پیٹ کاٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور اگر خوش قسمتی سے ان کی خواہش تکمیل پا جائے اور بچہ کوئی اعلٰی نصابی کامیابی پا بھی لے تو بھی آج کل نوکری پانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ہمارا والدین کو مشورہ ہے کہ وہ ایسے فرسودہ خیالات کی بالکل پیروی نہ کریں اور بچوں کو تعلیم اور سکول سے جتنا ممکن ہو دور رکھیں اور تربیت پر زور دیں ان کی اور انھیں جھوٹ، دھوکہ دہی اور دیگر اخلاق حسنہ میں اوج کمال تک پہنچائیں۔ جب وہ مناسب عمر(بیس، بائیس سال) کو پہنچ جائیں تو انھیں ایف اے اور بی اے کی ڈگریاں خرید دیں۔ کم خرچ بالانشیں نسخہ۔ اصل ڈگری سے نصف سے بھی کم میں مل جانی اور بچوں کی اچھی تربیت کے باعث آپ کا بچہ جلد ہی کسی اسمبلی کا رکن بن کر آپ کا نام روشن کرے گا۔ سرکاری دور ے اور وی آئی پی پروٹوکول اس کے علاوہ۔ اگر کوئی آپ کی ڈگری کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے تو آپ کے بچے کے لئے اسے نشان عبرت بنانا قطعاً مشکل نہیں ہوگا۔
بچوں کے بارے میں ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ چھوٹا بچہ اکثر لاڈلا ہوتا ہے اور ایسے بچے لاڈ پیار میں بگڑ جاتے ہیں اور پھر انھیں سدھارنا اکثر مشکل اور کبھی کبھار ناممکن ہوتا ہے تو اس سلسلے میں ہماری رائے ہے کہ سب سے چھوٹا بچہ ہونا ہی نہیں چاہیے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
اپنی قیمتی اشیا کی حفاظت فطری جذبہ ہے۔ اسی مقصد کے لئے بینک بنائے گئے جو نہایت خوبصورتی سے آپ کو لوٹتے ہیں۔ خیر ہمیں تو ان سے لٹنا بھی اچھا لگتا ہے اس لئے شاید ہی کوئی بینک ہو جہاں ہم نے اکاؤنٹ نہ کھلوایا اور اس نے حسب توقع ہمیں مستفید نہ کیا ہو۔ تاہم گھر میں بھی کچھ نقدی اور قیمتی اشیا بھی ہنگامی حالت کے لئے رکھی جاتی ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ زیور اور دیگر قیمتی اشیاء اگر ٹی وی کا پچھلا حصہ یعنی دم والی جگہ کھول کر اس میں رکھ دیں تو امید واثق ہے کہ کسی کا خیال بھی وہاں نہیں جائے گا وہاں اور وہ محفوظ رہیں گی۔نقدی چھپانے کی بہترین جگہ ہماری دانست میں کتاب ہے۔ یہواحد چیز ہے جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ہم تو پیسے وہیں چھپاتے ہیں جتنے بھی ہوں ہمارے پاس اور ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: دسمبر 14th, 2019
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: car, children, fridge, Ibn e Riaz, Shagufa e seher