تحریر:ابنِ ریاض
پاکستان کے قیام کے بعد جن شعبوں میں پاکستان نے انتہائی تیزی سے ترقی کی، ان میں فلمی صنعت بھی شامل ہے۔ پاکستان کو ابتدا میں ہی اچھے ڈائریکٹرز ،مصنفین،اداکار، موسیقار اور گلوکار ملے اور کچھ ہی سالوں میں ان کی کاوشوں سے پاکستان ایشیا کی بڑی فلمی صنعت شمارہونے لگا۔1960 اور1970 کی دیائی میں پاکستان کی فلم انڈسٹری بھارتی فلمی صنعت کا مقابلہ کرتی تھی۔ پاکستان کی سینمائوں میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت تھی۔ جب مقابلے کا رجحان ہو تو غیر معیاری چیز ازخود ہی پٹ جاتی ہے۔ فلم کی کہانی اور مکالمے اچھے ہوں، پروڈکشن کیسی ہی معیاری ہو،اداکار انتہائی معیاری کام کریں پھر بھی اسی فیصد سے زائد فلمیں اپنے گانوں کی وجہ سے کامیاب ہوتی ہیں۔ آپ کسی بھی اچھی فلم کا نام لیں، اس سے متعلق گانے سب سے پہلے آپ کے ذہن میں آئیں گے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی کے دور کی فلموں کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ موسیقی و گلوکاری تھی۔ہمارے پاس مہدی حسن، منیرحسین،مسعود رانا، سلیم رضامجیب عالم جیسے باکمال اور سریلے گلوکار تھے اور ان بڑے اور باکمال گلوکاروں کے درمیان احمد رشدی نے اپنا منفرد مقام بنایا۔1934 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہونے والے احمد رشدی کو بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا۔ گھر سے انکی بھی حوصلہ شکنی ہوئی مگر شوق کے آگے بند نہیں باندھے جا سکتے۔ انھوں نے گلوکاری کی تعلیم حاصل کی ۔ بھارتی فلم میں ایک گانا گایا اور پاکستان آ گئے۔ کراچی میں وہ شوزمیں گایا کرتے تھے اور شوز میں معروف ہونے کے بعد ریڈیو پر قسمت آزمائی کی ۔ریڈیو پر انھیں ‘بندر روڈ سے کیماڑی’ سے ملک گیر شہرت ملی۔اس کے بعد انھیں فلموں میں بطور پلے بیک سنگر کام ملنا شروع ہوا۔ ‘چاند سا مکھڑا’اور ‘گول گپے والا آیا’ پر انھیں نگار ایوارڈ بھی ملے اور وہ فلمی صنعت کی ضرورت بن گئے۔ تاہم اب تک انھیں شوخ و چنچل گانوں کے لئے موزوں سمجھا جاتا تھا اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا کہ وہ ایسے گانے اپنی آواز اور جذبات سے گانوں میں نئی روح پھونک دیتے تھے۔ تاہم موسیقار خلیل احمد نے 1960 میں ان سے تجرباتی طور پر ایک المیہ گانا ‘اسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو’ گانے کو دیا اور انھوں نے اسے اس مہارت سے گایا کہ اس پر انھیں بھر نگار ایوارڈملا۔اب ان کی آواز فلموں میں کامیابی کی ضمانت بن گئی۔
احمد رشدی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اداکار کو ذہن میں رکھ کر گانے گاتے تھے یوں ان کا گانا جس بھی اداکار نے پکچرائز کروایا یوں محسوس ہوا کہ وہی گا رہا ہے مگر وحید مراد نے ان کے گانوں میں اپنی اداکاری سے کچھ ایسے رنگ بھرے کہ باقی تمام اداکاروں کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ وحید مراد کی فلم ‘ارمان’ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم ثابت ہوئی تو اس میں احمد رشدی کے گیتوں کا کردار کلیدی تھا۔ ‘اکیلے نہ جانا’ ، ‘کوکوکورینا’ اور’جب پیار میں دو دل ملتے ہیں’ کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ ان کی آواز اور اس پر وحید مراد کا انداز ایسا مقبول ہوا جیسے بھارت میں مکیش اور راج کپور کی جوڑی۔ دوراہا میں احمد رشدی کا گانا ‘ بھولی ہوئی ہوں داستاں’ وحید مراد مرحوم کا بھی پسندیدہ ترین گانا ہے۔اس کے علاوہ ‘کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے” ‘اے ابرِکرم’، ‘کیا ہے جو پیار اور ایسے کئی گانے ہیں جو وحید اور احمد رشدی کی جوڑی نے امر کر دئیے۔ وحید مراد نے ان کی وفات پر کہا تھا’مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں نے اپنی آواز کھو دی’۔۔
احمد رشدی جنوبی ایشیا کے پہلے پاپ سنگر تھے۔’کوکوکورینا’ اس خطے کا پہلا پاپ گانا تسلیم کیا جاتا ہے۔’اس کے علاوہ ‘اک اڑن کھٹولہ آئے گا’اور ‘سوچا تھا پیار نہ کریں گے’ بھی اسی صنف میں آتے ہیں۔ پاکستان کے ابتدائی پاپ گلوکار عالمگیر اور بع ازاں ناذیہ و زوہیب نے بھی ان کے فنی مقام کو تسلیم کیا اوران کے گانے گا کر انھیں خراج تحسین پیش کیا۔معین اختر مرحوم نے تو ان کے گانوں کی ایک پوری کیسٹ اپنی آواز میں ریکارڈ کروائی۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ احمد رشدی کے پرستار بیرون ملک بھی کم نہیں۔ان کے گانے کشور کمار،سونونگم اور کمار سانو نے بھی گائے۔
احمد رشدی کو اداکاری سے بےحد لگائو تھا۔ انھوں نے کچھ اداکاری بھی کی مگر اس سے ان کی گلوکاری متاثر ہوئی تو انھیں یہ چھوڑنا پڑی۔ تاہم اسٹیج پر یہ خوبی ان کے بہت کام آئی۔ وہ محض گانا گاتے نہیں تھے بلکہ اس پر پرفارم بھی کرتے تھے۔ ہجنھوں نے انھیں براہ راست گاتے ہوئے سنا ہے وہ اس بات کے گراہ ہیں کہ وہ سماں باندھ دیتے تھے اور حاظرین کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا فن انھیں خوب آتا تھا۔ ان سے پہلے اسٹیج پر گایا جاتا تھا وہ پہلے گلوکار تھے جنھوں نے پرفارم کرنا شروع کیا۔
احمد رشدی صاحب کو اللہ نے عاجزی اور اچھے اخلاق سے نوازا تھا۔ ہنس مکھ اور خوش مزاج شخص تھے۔ اپنی بیوی اور تینوں بیٹیوں سے بے انتہا پیار کرنے والے اور دوستوں میں شغل میلا کرنے والے۔ دوستوں کی مدد میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ موسیقار لال محمد کو انھوں نے فلم میں کام دلوایا۔ معروف شاعر مسرور انور کو بھی فلمی دنیا میں انھوں نے متعارف کروایا۔
ہمیں دو اور وجوہات پر ان بھی ان کے معترف ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب پاکستان بنا توبہت سے مسلمان فنکاروں نے بھارت میں رہنے کو ترجیح دی کیونکہ وہاں کی فلم انڈسٹری مضبوط قدموں پر کھڑی تھی جب کہ نئی مملکت میں اس کا وجود ہی نہ تھا۔محمد رفیع، دلیپ کمار اس کی مثال ہیں۔ کچھ لوگ پاکستان آئے اور پھر یہاں مواقع نہ ملنے پپ اور دلبرداشتہ ہو کر بھارت چلے گئے جیسے ساحر لدھیانوی اور قرۃالعین حیدر وغیرہ۔ بلاشبہ ان سے کوئی عداوت نہیں کہ اپنے مستقبل کا سوچنا ہر ایک کا حق ہے اور درج بالا تمام شخصیات نے اپنے وہاں رہنے کو اپنے لازوال کام سے باجواز بنا لیا مگر حیدر آباد دکن میں پیدا ہونے والا ایک گلوکار جس کے وہاں ترقی کرنے کے مواقع بے شمار تھے وہ ان کو ٹھکرا کر نئی مملکت میں آ جائے تو ہمارے لئے وہ زیادہ معتبر ہے۔
احمد رشدی سید تھے اور ان کے کتبے پر بھی سید احمد رشدی درج ہے مگر انھوں نے اپنےاس اعزاز کو اپنی زندگی میں پوشیدہ ہی رکھا اور اسے ظاہر کر کے اس سے دنیاوی فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
احمد رشدی کو اللہ نے انتہائی خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔ ان کے گانے آج بھی کانوں میں رس گھولتے اور مشکل گانے وہ بہت آسانی سے گا لیتے تھے۔ ان کی آواز زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔علاوہ ازیں اونچے سر بھی ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا قومی ترانہ پہلی بار پڑھنے والی ٹیم میں بھی وہ شامل تھے۔ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی موت صرف جسمانی ہوتی ہے۔ ان کا فن ان کو زندہ رکھتا ہے۔انتقال کے برسوں بعد بھی ان کا سحر ماند نہیں پڑا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کوک سٹوڈیو میں ان کے گانے ‘کوکو کورینا’ کو نئے انداز میں گانے کی کوشش کی گئی اور اس کو خراب کیا گیا تو سوشل میڈیا میں اس کوشش کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اپنے انتقال کے چھتیس برس بعد بھی وہ اچھی اردو موسیقی کے دلدادہ لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں اور تادیر دلوں میں زندہ رہیں گے۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اپریل 10th, 2019
زمرہ: شخصیات تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Ahmed Rushdie, Film, Pakistan, Singer