سعودی عرب میں رمضان «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • سعودی عرب میں رمضان

    تحریر: ابنِ ریاض

    اس برس پہلی مرتبہ ہمارا رمضان پاکستان میں نہیں تھا۔ کیونکہ ہم سعودی عرب میں ہیں سو رمضان بھی ہمارا یہیں گزرا۔ مگر حیران کن امر یہ ہے کہ یہ رمضان بھی پاکستان میں گزرے صیام سے زیادمختلف نہیں تھا۔ یہاں پہلی بار شاہ کے حکم سے رویت ھلال کمیٹی بیٹھی اوراس کمیٹی کے مفتی منیب الرحمان کو بھی چاند نہ دکھائی دیا اور یوں کیلنڈر جس کے مطابق ماہ صیام کا آغاز نو جولائی کو ہونا تھا کو منہ کی کھانی پڑی اور رمضان دس جولائی کو رونق افروز ہوا۔ تاہم ہمیں ان تمام امور کا انکشاف پاکستانی نجی چینلز سے ہوا۔ کیونکہ ہماری عربی ایسی رواں نہیں اور نہ ہی سعودیہ میں ابھی ‘بریکنگ نیوز’ کی وبا پہنچی ہے۔
    تا ہم رمضان کی آمد کا ہمیں اندازہ کچھ اور نشانیوں سے ہو گیا۔ وہ یوں کہ ہم جو دہی پانچ ریال کا لیتے تھے اب بآسانی چھ ریال میں ہر جگہ دستیاب ہے۔دودھ کا بھائو وہی ہے مگر بڑا ڈبہ جو کسی قدر ارزاں ہے ذرا قلت میں ہے۔ ڈھائی ریال والا پاکستانی آم ساڑھے چار ریال کا مل جاتا ہے اور یہی حال دیگر سبزیوں اور پھلوں کا بھی ہے۔ روح افزا پہلے سات ریال کا تھا جو کہ رمضان سے کچھ عرصہ قبل دس کا ہو گیا۔ ہم چاہتے تو سات کا خرید کر رکھ سکتے تھے مگر ہمیں تو پاکستانیت کا جوش چڑھا تھا سو ہم رمضان سے ایک روز قبل دس کا ہی لائے۔ ہم نے دوکاندار سے پوچھا کہ بھائی کیا سعودیہ میں بھی ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے؟ کیا یہاں بھی تاجر منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں ؟ اور کیا پاکستان کی مانند یہاں بھی ثواب کے بجائے عذاب کو ترجیح دی جاتے ہے تو دوکاندار بولا کہ جناب یہ اشیا تو بیرون ملک سے مہنگی آتی ہیں یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا ان کے ساتھ۔۔ ہم نے کہا کہ کیا دودھ اور دھی بھی بیرون ملک سے آتے ہیں تو اس کا تسلی بخش جواب وہ نہ دے پایا۔  الغرض صرف اپنے بھائیوں کو برا بھلا کہنا مناسب نہیں ہے۔ اپنے سعودی بھائی بلکہ اب تو امید ہے کہ سب مسلم ممالک میں مقیم ہمارے بھائی اسی ماہ میں اپنی چاندی کرتے ہیں منافع کے ذریعے اور عام مسلمانوں کا روزہ سخت کر کے اجر و ثواب اور بلندئ درجات کا ذریعہ بنتے ہیں۔
    رمضان کے آغاز پر ہی ہمارے ہاں بجلی چلی گئی۔ پاکستان ہمارے وجود میں بس گیا ہے۔ جہاں جائیں اپنا آپ منوا کے رہتا ہے۔ دراصل نیا ٹرانسفارمر اور کچھ دیگر مرمت کی وجہ سے بند کرنی پڑی۔(یہ ہمیں بعد ازاں معلوم ہوا) مگر ان لوگوں نے بھی چالاکی کی کہ ایئر کنڈیشنر والے فیز سے گڑبڑ نہیں کی۔ سو اے چی چلتا رہا اور ہم سکون میں رہے۔ یہاں اے سی کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں کہ گرمی انتہائی شدید ہے۔ گاڑی تک میں اچھا اے سی نہ ہو تو اس کی مانگ میں خاصی کمی آ جاتی ہے۔
    پھر عربی تو اے سی ایسا چلاتے ہیں کہ جس بھی عمارت میں جائیں ہم تھر تھر کانپنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس مسجد میں ہم نے نماز اور تراویح ادا کی وہاں سات آٹھ بڑے بڑے اے سی یونٹ اور ان پر سترہ کا درجہ حرارت۔ ظہر اور عصر میں تو اور بھی ٹھنڈ لگتی کہ باہر پچاس کا درجہ حرارت ہمارا جسم برداشت کر کے آتا اور پھر ایک دم سترہ کا تڑکا لگتا۔ ہمیں تو اس گرمی سردی نے بیمار کر کے ہی چھوڑا۔
    تراویح کا ذکر آیا تو ہم بتاتے چلیں کہ یہاں آٹھ رکعت کا رواج ہے۔ مسجد حرم اور مسجد نبویﷺ کو استثنٰی ہے کہ وہاں بیس رکعت ہی پڑھی جاتی ہیں۔ پھر یہاں ختم قرآن کا بھی رواج نہیں اگرچہ ہماری مسجد والے نے ہمارے اصرار پر کر دیا۔ امام مسجد ہی تراویح پڑھاتا ہے اور عمومًا وہ حافظ نہیں ہوتا سو غلطیاں بھی کافی ہوتی ہیں۔ سو سجدہء سہو بھی عام ہیں۔ تا ہم یہاں سجدہ سلام پھیرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔
    تمام مساجد میں ایک گوشہ خواتین کے لئے مختص ہے اور وہ بآسانی باجماعت نماز ادا کر سکتی ہیں۔
    ایک اچھی چیز یہ ہے کہ یہاں نماز کے اوقات میں تمام کاروبار بند ہو جاتا ہے۔ اور جماعت ختم ہونے تک کسی بھی قسم کی سرگرمی ممنوع ہے۔ اور یہی حال ظہر سے عصر تک کا ہے کہ یہ لوگ اس وقت قیلولہ کرتے ہیں۔ قیلولہ کا شوق ہمیں بھی ہے مگر افسوس کہ ہماری جامعہ اس معاملے میں کٹھور ثابت ہوئی ہے اور ہمارے فرائض منصبی اکثر اس راہ میں حائل ہوتے ہیں۔رمضان میں چونکہ تعطیلات تھیں سو ہم نے خوب مزے لئے قیلولہ کے بھی۔
    تعطیلات میں ہمارا وزن یقینًا بڑھ جاتا کہ سوائے کھانے پینے کے ہمیں کوئی کام ہی نہ تھا۔ اور ایسی عیاشی اور فراغت ہمیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں پہلی بار ملی تھی۔ ورنہ پاکستان میں تو ہمیں گرمی سردی بہار خزاں میں کوئی طالب علم ہے کہ نہیں، ہمیں  جانا پڑتا تھا۔ تا ہم رمضان کے باعث ہمارا وزن حد اعتدال میں رہا کم از کم بادی النظر میں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
    رویت ھلال والے دوبارہ اٹھائیسویں روزے کے بعد ہی ایک بار پھر اجلاس میں بیٹھ گئے ۔ دراصل انھیں شک پڑ گیا تھا کہ کہیں ہماری بصیرت کے باعث لوگوں کا ایک روزہ قضا نہ ہو گیا ہو۔ مگر
    جھوٹ بولا ہے تو اس پر قائم بھی رہو
    آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
    سو رویت ہلال والے ثابت قدم نکلے اپنے موقف پر اور پھر ایک مزید اجلاس اگلے روز اور اس بار عید کا اعلان ہو ہی گیا۔ سو ایک ماہ میں تین تین اجلاس رویت کمیٹی کے۔ کوئی یہ گر ہمارے مفتی صاحب کو بھی سکھا دے ۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔