سیاست میں اپنی پسندیدہ شخصیت کے لئے ہم نے قائداعظم کا سوچ رکھا تھا کہ ان جیسا باکمال اور قابلِ تقلید رہنما ہماری قوم کو پھر نصیب نہیں ہوا۔ اس کے بعد سے ملک جن حالات کا شکار ہے وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔تاہم قائدِ اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایسی شخصیات ہیں کہ جن پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اس میں بھی کلام نہیں کہ ان پر جتنا بھی لکھا گیا وہ اس سے زیادہ کے مستحق ہیں۔ ایسی شخصیات کہ جن پر ہر کوئی لکھے اور ہمیشہ ان کی تعریف ہی لکھی جائے اسے ہم لوگ اپنے جیسا انسان سمجھتے ہی نہیں اور نہ اس بات پر ہمیں اعتبار آتا ہے کہ وہ شخص انتہائی مشکلات و مصائب سے گزر کر اس مقامِ اوج پر پہنچا ہے کہ جہاں انسان کی خامیاں بیان نہیں کی جاتیں اور اگر کبھی ان کو بیان کرنا ضروری و مجبوری ہو تو بھی انھیں خامی کی بجائے خوبی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
سیاست میں جس ہستی کا آج ہم ذکر کر رہے ہیں وہ پاکستان میں بھٹو خاندان، شریف خاندان جیسے کسی پیشہ ور سیاسی خاندان سے متعلق نہیں ہے ۔ یہ شخصیت عمران خان جیسی شہرت کی حامل رہی اور نہ ہی الطاف حسین کی طرح اپنے مقاصد کے لئے کبھی کسی دوسرے کو استعمال کیا۔ ہم ذکر کر رہے ہیں محمد خان جونیجو کا۔محمد خان جونیجو 1932ء میں سندھ کے ایک جاگیر دار گھرانے میں پیدا ہوئے اور برطانیہ میں ایک زرعی ادارے میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ سیاست میں آئے اور ایوب دور میں مغربی پاکستان میں وزیرِ ریلوے رہے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں بھی وہ کم تر سرکاری حیثیتوں پر فائز رہے۔
1985ء میں ضیاء الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروائے۔ اس کے بعد انھوں نے محمد خان جونیجو کو بطور وزیرِ اعظم منتخب کیا۔ جونیجو صاحب شریف النفس اور خاموش طبع انسان تھے اور ان کو وزارتِ عظمٰی کے لئے منتخب کرنے کا مقصد وہی تھا جو موجودہ حکومت کا صدر ممنون حسین کو منتخب کرنے کا ہے مگر ضیاء الحق انھیں پہچان نہ پائے اور انھوں نے چند ایسے کام کیے جو آج تک کوئی بھی نہ کر سکا۔
ان کا سب سے بڑا کارنامہ کہ جس کا انھیں سہرا نہیں دیا جاتا وہ ملک سے’ ہنگامی حالت’ کا خاتمہ کرنا تھا۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا اور 1985ء تک یہ ہنگامی حالت نافذ رہی تھی۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت کے بھی دو ادوار رہے مگر یہ ہنگامی حالت آئینی لحاظ سے جمہوری ملک میں مسلسل ستائیں برس برقرار رہی اور جونیجو صاحب نے اس کا خاتمہ کیا۔ عام فہم الفاظ میں یہ بتا دیں کہ ‘ہنگامی حالت’ سے مراد ریاستی اداروں کے لامحدود اختیارات اور عوام کے تمام حقوق معطل ہوتے ہیں۔
مشرف صاحب نے ‘سب سے پہلے پاکستان’ کا نعرہ لگایا تھا مگر ان سے کئی برس پہلے جونیجو اس پر عمل کر چکے تھے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور وہ حکمرانوں کی عیاشیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا سو انھوں نے گاڑیاں درآمد کرنے پر پابندی لگا دی کہ صرف ملک میں بننے والی کاریں استعمال ہوں گی۔ اپنے لئے تیرہ سوسی سی کار اور سرکاری افسرانِ اعلٰی بشمول جرنیلوں کے لئے ہزارسو سی سی کار کا نہ صرف حکم دیا بلکہ اپنے دور میں اس پر عمل بھی کروایا۔
پچھلے چند سالوں سے ہمارا میڈیا بہت طاقتور ہو گیا ہے او ہم روز بد عنوانیوں کی کہانیاں اور احتساب کا شور سنتے ہیں تاہم حکمران جماعتوں پر جوں تک نہیں رینگتی کیوں کہ انھیں علم ہوتا ہے کہ آج ہم کسی کو سزا دیں گے تو کل کوئی ہمیں بھی زیرِ عتاب لے آئے گا کہ اس حمام میں کوئی بھی ملبوس نہیں مگر آج سے تین عشرے قبل جونیجو صاحب نےچند وزراء کو بدعنوانی کے الزامات کی بناء پر اپنی کابینہ سے فارغ کر دیا تھا اور ایسا کام ظاہر ہے کہ کوئی بدعنوان شخص نہیں کر سکتا۔
کوئی کس قدر جمہوریت پسند ہے اس کا اندازہ اس کے اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ برتائو سے لگایا جا سکتا ہے۔یہاں بھی جونیجو صاحب سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ 1986ء میں بے نظیر جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آ رہی تھیں تو ضیاء نے لاہور کی انتظامیہ کو وہی حکم دیا کہ جو جنرل مشرف نے شہباز شریف کی آمد پر دیا تھا کہ ہوائی اڈے سے ہی دوبارہ ملک بدر کر دیا جائے۔ تا ہم جونیجو صاحب نے اسی انتظامیہ کو کہا کہ’ اگر بے نظیر واپس گئی تو انتظامیہ کو معطل کر دیا جائے گا۔ بے نظیر کی آمد پر کوئی انتظامی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ہم سیاسی آدمی ہیں اور ان کا مقابلہ الیکشن میں کریں گے’ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ہزاروں کا جلوس بے نظیر کو لینے آیا اور لاہور میں ایک شیشہ تک نہیں ٹوٹا۔ کیا موجودہ دور میں آپ کوئی اتنا اعلٰی ظرف اور جمہوریت پسند رہنما بتا سکتے ہیں؟
ان کی وزارت تین سال بعد ہی قبل از مدت ضیا الحق نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ختم کر دی۔ کیونکہ وہ جنیوا معاہدے کے تحت افغان پناہ گزینوں کی واپسی چاہتے تھے مگر ضیاء الحق کو اس معاہدے پر عمل در آمد گوارا ہی نہیں تھا کہ پاک افغان جنگ سے انھوں نے اور دیگر بہت سے جرنیلوں نے کثیرذاتی فوائد حاصل کیے تھے۔تاہم انھوں نے موجودہ حکمرانوں کی طرح ‘مجھے کیوں نکالا ‘ کا شور نہیں مچایا بلکہ چپ چاپ گھر چلے گئے۔
ان دنوں وزیرِ اعظم ہائوس اور ایوانِ صدر کے اخراجات کروڑوں میں ہیں اور نہ صرف وزیراعظم اور صدر ان میں رہتے ہیں بلکہ ان سہولتوں سے ان کے خاندان کے سب افراد بھی مستفید ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر ملکی سفیروں اور عمائدین کی آمد پر بھی بے دریغ اخراجات کیے جاتے ہیں اور ان پر تکلف دعوتوں کو دیکھ کر بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ لوگ کسی ترقی پذیر ملک کے رہنما ہیں بلکہ تعیش تو ترقی یافتہ ممالک کو بھی مات دیتا ہے۔ جونیجو صاحب وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود اکیلے ایک صندوق کے ساتھ آئے اور تین برس اکیلے ہی وزیر اعظم ہائوس میں رہے۔ انھوں نے سرکاری خرچ پر اپنے گھر والوں کو عیاشی اور تفریحی دورے نہیں کروائے اور اپنا دور مکمل کرنے کے بعد اسی صندوق میں واپس چلے گئے بلکہ خوددار ی کا یہ عالم تھا کہ وزیر اعظم بننے پر ان کےآبائی گھر پر جو رقم حفاظتی اقدامات کی بناء پر خرچ ہوئی تھی وہ بھی انھوں نے واپس کر دی۔
ایک اور وجہ کہ جس کی بنا پر وہ موجودہ سیاست دانوں سے ممتاز ہیں وہ یہ کہ وزیر اعظم کے عہدے پر پہنچ جانے کے باوجود دیگر سیاست دانوں کے برعکس انھوں نے سیاست کو وراثت نہیں بنایا ۔