سری لنکا کا شیر «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  •  سری لنکا کا شیر

    تحریر: ابنِ ریاض

    اسی کی دہائی کے وسط میں جب ہم نے کرکٹ دیکھنی شروع کی تو  سری لنکا کے بین الاقوامی کرکٹ میں ابتدائی سال تھے۔ ان کا شمار نو آموز اور کمزور ٹیموں میں ہوتا تھا۔ اس زمانے میں بھی سری لنکا کے پاس انتہائی باصلاحیت بیٹسمین تھے۔سڈاتھ ویٹمنی، رائے ڈائس،ارونڈا ڈی سلوا،دلیپ مینڈس اور کم سن ارجنا رانا ٹنگا کی صلاحیتوں کے سبھی معترف تھے۔ تاہم بین الاقوامی کرکٹ میں نا تجربہ  کاری اور اچھے گیند بازوں کی کمی کے باعث  اکثرو بیشتر  میچوں میں شکست سری لنکا کا مقدر بنتی تھی۔ 1987 کے عالمی کپ میں سری لنکا اور زمبابوے آٹھ ٹیموں میں کمزور ترین ٹیمیں تھیں۔ زمبابوے کواس وقت تک ٹیسٹ اسٹیٹس نہیں ملا تھا جب کہ سری لنکاکو ٹیسٹ اسٹیٹس ملے محض چند برس ہوئے تھے۔ تاہم دونوں کا کھیل متاثر کن تھا۔ نیوزی لینڈ زمبابوے کو دو رنز سے زیر کر پایا تو عالمی کپ کے پہلے میچ میں پاکستان سری لنکا کو محض پندرہ رنز سے قابو کر پایا۔

    سری لنکا کے ہمارے پہلے پسندیدہ کھلاڑی رانا ٹنگا ہی ہیں۔  درمیانہ قد، بھاری جسم اور توند نکلی ہوئی۔ یہ ان کے ظاہری خدوخال تھے۔بائیں ہاتھ کے بلےباز اور بوقت ضرورت اوسط رفتار سے دائیں  ہاتھ سے گیند بازی کرتے تھے مگر ٹیم میں وہ بطور بلےبار ہی شامل تھے۔بلےباز وہ انتہائی شاندار تھے۔ تکنیکی اعتبار سے وہ مکمل بیٹسمین تھے۔مڈل آرڈر بلے باز ہونے کے باعث فاسٹ اور اسپن دونوں طرح کے گیند بازوں کو مہارت سے کھیلتے تھے۔حالات کیسے ہی مشکل کیوں نہ ہوںوہ دباؤنہیں لیتے تھے اور ان کا چہرہ بے تاثر رہتاتھا۔  اپنےبھاری جسم کے باوجود وہ خاصے چاک  و چوبند تھے اور تیز رنز لینے میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ اپنے بھاری جسم اور بے تاثر چہرے سے وہ سری لنکا کےبائیں ہاتھ والے  انضمام کہلائے جا سکتے ہیں ۔انضمام کی طرح انھوں نے سری لنکا کو کئی  میچ تن تنہا جتوائے۔ 1990 کے آسٹرل   ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف آخری چار اوورز میں سری لنکا کو بیالیس رنز کرنے تھے۔ اس زمانے کے حساب سے یہ بہت مشکل ہدف تھا مگر رانا ٹنگا نے کیپل دیو اور پربھارکر کی موجودگی میں یہ ہدف حاصل کر کے سری لنکا کو میچ جتوایا۔ 1992 کے عالمی کپ میں زمبابوے کے خلاف تین سو تیرہ کا  ہدف  (جو اس زمانے کے حساب  سے  بہت زیادہ تھا) پچھتر گیندوں پر اٹھاسی ناٹ آؤٹ کی اننگرکھیل کر سری لنکا کا بیڑا پار لگوایا۔ 1996 کے عالمی کپ کے فائنل میں وننگ رنز بھی انھوں نے ہی بنائے۔ وہ دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں کہ جنھوں نے اپنے ملک کے پہلے ٹیسٹ میں بھی حصہ لیا اور  سویں میچ میں بھی۔

    رانا ٹنگا کی سب سے زبردست صلاحیت ان کی قائدانہ صلاحیتیں تھیں۔ اس معاملے میں وہ انضمام الحق سے کہیں آگے تھے۔ انھوں نے قیادت سنبھالی تو سری لنکا کا وہی حال تھا جو اس وقت زمبابوے یا ویسٹ انڈیز کا ہے ۔یعنی کہ جس ٹیم کو بھی ریکارڈ ٹھیک کرنا ہوتاوہ سری لنکا سے کھیل لیتا مگر رانا ٹنگا نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ٹیم میں نئی روح پھونک دی۔ چمندا واس اور مرلی دھرن کے آنے سے ان کی باؤلنگ کو کچھ استحکام ملااور اس کے بعد سری لنکا نے بٖڑی ٹیموں کا مقابلہ شروع کر دیا ۔ پہلا شکار ان کا پاکستان بنا جسے انھوں نے 1995 میں ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں سیریز میں شکست دی۔ اس کے بعد سری لنکا کے مڑ کے نہیں دیکھا۔ ٹیسٹ اسٹیٹس ملنے کے   محض  تیرہ سال  بعد  سری لنکا  نے  ان کی قیادت میں عالمی کپ جیت لیا۔ یہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔

    رانا ٹنگا بہت دلیر کپتان تھے۔ انھوں نے ہی جیاسوریا اور کالو ودارانا کے بیٹنگ اوپن کرنے کا منصوبہ بنایا اور پھر ایک روزہ کرکٹ ہی بدل گئی۔ اس سے قبل ون ڈے میں ابتدائی پندرہ اوورز گیند بازوں کے ہوتے تھے اور ٹیمیں بمشکل پینتالیس پچاس رنز بناتی تھیں۔ جیا سوریا اور کالو نے پہلی گیند سے ہی جارحانہ انداز اپنایا اور ابتدائی اوورز کی فیلڈنگ کی حدود کا بے رحمانہ استعمال کیا۔ پندوہ اوورز میں انھوں نے ایک سو بیس سے ڈیڑھ سو رنز بنانے شروع کر دیئے۔ اس سے قبل  بھارت کےسری کانت اورنیوزی لینڈ کے مارگریٹ بیچ بھی ایسا کرتے تھے مگر وہ ہر بال پر ایسے نہیں مارتے تھے۔مزید براں ان کا ساتھی بلے باز جیسے گواسکر اپنی روایتی بیٹنگ جاری رکھتے تھے تو اسکور ایسے بے حساب نہیں بڑھتا تھا۔

    رانا ٹنگا   اپنے کھلاڑیوں کی خوبیوں اور خامیوں سے واقف تھے اور ان کی صلاحیتوں سے کام لینے کا ہنر بھی جانتے تھے۔جیاسوریا  کو انھوں نے کئی برس درمیانے  نمبروں پر کھلایا۔ وہ تیس چالیس  تیز رنز بنا کر آئوٹ ہو جاتے تھے۔رانا ٹنگا نے انھیں ڈراپ نہیں کیا بلکہ انھیں  اوپر کے نمبرز پر کھلانے کا فیصلہ کیا۔ اوپن کرنے کے بعد جیا سوریا نے جو کارنامے کیے وہ  کرکٹ کا ایک درخشاں باب ہے۔

    1994 کے آسٹرل ایشیا  کپ کےلئے   خراب فارم کی بنیاد پر  ارونڈا ڈی سلوا کو  ڈراپ کر دیا گیا۔ راناٹنگا نے اس کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ  احتجاجاً  آسٹرل ایشیا کپ میں شرکت سے انکار کر دیا۔ سری لنکا ان کی غیر موجودگی میں تمام میچ ہار گیا ۔  بعد ازاں ارونڈا  ڈی سلوا کو دوبارہ شامل کر کے ٹیم کی باگ دوڑ رانا ٹنگا  کو دی گئی۔ ارونڈا ڈی سلوا  نےاپنے  اوپر کئے گئے اعتماد  کو  1996 کے عالمی کپ کے سیمی فائنل اور فائنل میں  ثابت کیا۔

    مرلی دھرن  بھی  رانا ٹنگا کا شکر گزار ہے  کہ اگر رانا ٹنگا نہ ہوتے تو  آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہیئر  نے 1995 میں ہی ان کا کیریئر   ختم  کر دینا تھا۔ رانا ٹنگا  نے  اپنے کھلاڑی  کا مکمل ساتھ دیا اور دورے کے بائیکاٹ تک کا فیصلہ کر دیا  جب تک کہ مرلی دھرن کو باؤلنگ کی اجازت نہ دی گئی۔ مرلی دھرن  اب  سب سے زیادہ وکٹوں کا عالمی ریکارڈ رکھتے ہیں مگر تین چوتھائی سے زائد وکٹیں انھیں ڈیرل ہیئر کے چنگل سے نکلنے کے بعد نصیب ہوئیں ۔

    مہیلا جیا وردھنا اور سنگا کارا کو بھی ابتدائی رہنمائی انھوں نے ہی دی اور ان دونوں نے بیٹنگ کے کئی ریکارڈ پاش پاش کیے۔ آج بیٹنگ اور بائولنگ میں کئی ریکارڈ  سری  لنکا کے کھلاڑیوں کی ملکیت میں ہیں۔ ان سب کے پیچھے جس کھلاڑی اور شخصیت کا ہاتھ ہے وہ رانا ٹنگا کے علاہوہ کوئی نہیں ۔انھوں نے عام کھلاڑیوں کو  ورلڈ بیٹرز میں تبدیل کر دیا۔ رانا ٹنگا  پاکستان کے لئے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور وہ بھارت اور اس کی کرکٹ پر اجارہ داری پر تنقید کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔  چند سال قبل  سنگاکارا نے رانا ٹنگا پر الزام لگایا کہ بطور وزیرِ کھیل انھوں نے 2009 میں حفاظتی اقدامات کی یقین دھانی کئے بغیر سری لنکن ٹیم کو دورہ پاکستان پر بھیج دیا تھا۔ جس سے ان کی پاکستان اور پاکستان کی کرکٹ سے وابستگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

     

    ٹیگز: , , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔